الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
6. باب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ:
6. باب: زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب۔
حدیث نمبر: 2296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عبد الرزاق . ح وحدثني محمد بن رافع واللفظ له، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله الانصاري ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من صاحب إبل لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت قط، وقعد لها بقاع قرقر تستن عليه بقوائمها واخفافها، ولا صاحب بقر لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه بقوائمها، ولا صاحب غنم لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، ليس فيها جماء ولا منكسر قرنها، ولا صاحب كنز لا يفعل فيه حقه، إلا جاء كنزه يوم القيامة شجاعا اقرع يتبعه فاتحا فاه، فإذا اتاه فر منه، فيناديه خذ كنزك الذي خباته فانا عنه غني، فإذا راى ان لا بد منه سلك يده في فيه، فيقضمها قضم الفحل "، قال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير يقول هذا القول، ثم سالنا جابر بن عبد الله عن ذلك، فقال مثل قول عبيد بن عمير ، وقال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير ، يقول: قال رجل: يا رسول الله ما حق الإبل؟، قال: " حلبها على الماء، وإعارة دلوها، وإعارة فحلها ومنيحتها، وحمل عليها في سبيل الله ".حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ قَطُّ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ بِقَوَائِمِهَا وَأَخْفَافِهَا، وَلَا صَاحِبِ بَقَرٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِقَوَائِمِهَا، وَلَا صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، لَيْسَ فِيهَا جَمَّاءُ وَلَا مُنْكَسِرٌ قَرْنُهَا، وَلَا صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يَفْعَلُ فِيهِ حَقَّهُ، إِلَّا جَاءَ كَنْزُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُهُ فَاتِحًا فَاهُ، فَإِذَا أَتَاهُ فَرَّ مِنْهُ، فَيُنَادِيهِ خُذْ كَنْزَكَ الَّذِي خَبَأْتَهُ فَأَنَا عَنْهُ غَنِيٌّ، فَإِذَا رَأَى أَنْ لَا بُدَّ مِنْهُ سَلَكَ يَدَهُ فِي فِيهِ، فَيَقْضَمُهَا قَضْمَ الْفَحْلِ "، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ هَذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْإِبِلِ؟، قَالَ: " حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَإِعَارَةُ فَحْلِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
ابن جریج نے کہا: مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے: "کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کے معاملے میں اس طرح نہیں کرتا جس طرح ان کا حق ہے مگر وہ قیامت کے دن اپنی انتہائی زیادہ تعداد میں آئیں گے جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے اگلے قدموں اور اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اسی طرح کوئی گائے کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا مگر وہ قیامت کے دن اس سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی۔اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بیٹھے گا، وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے پیروں سے روندیں گی اور اسی طرح بکریوں کا کوئی مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سموں سے اسے روندیں گی اور ان میں نہ کوئی سینگوں کے بغیر ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی اور کوئی (سونے چاندی کے) خزانے کا مالک نہیں جو اس کا حق ادا نہیں کرتا مگر قیامت کے دن اس کا خزانہ گنجا سانپ بن کر آئے گا اور اپنا منہ کھولے ہوئے اس کاتعاقب کرے گا، جب اس کے پاس پہنچے گا تو وہ اس سے بھاگے گا، پھر وہ (سانپ) اسے آواز دے گا: اپنا خزانہ لے لو جو تم نے (دنیامیں) چھپا کررکھا تھا۔مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔جب (خزانے والا) دیکھے گا اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو وہ اپنا ہاتھ اس (سانپ) کے منہ میں داخل کرے گا، وہ اسے اس طرح چبائے گا جس طرح سانڈھ چباتا ہے۔" ابو زبیر نے کہا: میں نے عبید بن عمیر کو یہ بات کہتے ہوئے سنا، پھر ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس (حدیث) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اسی طرح کہا جس طرح عبید بن عمیر نے کہا۔ اور ابو زبیر نے کہا: میں نے عبید بن عمیر کو کہتے ہوئے سنا ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا حق کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانی (پلانے کاموقع) پر ان کا دودھ دوہنا (اور لوگوں کو پلانا) اور اس کا ڈول ادھار دینا اور اس کا سانڈ ادھار دینا اور اونٹنی کو دودھ پینے کے لئے دینا اور اللہ کی راہ میں سواری کی خاطر دینا۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصاری بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو بھی اونٹوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ تعداد میں آئیں گے جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بٹھایا جائے گا اور وہ اسے اپنے اگلے پاؤں اور کھروں سے روندیں گے۔ اور جو گائیوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرے گا تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ تعداد ہونے کی صورت میں آئیں گی، اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بٹھایا جائے گا، وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے پیروں سے روندیں گی اور جو بکریوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ سے زیادہ تعداد ہونے کی صور ت میں آئیں گی اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی اور ان میں کوئی بکری بغیر سینگوں کے ہو گی اور نہ ہی ٹوٹے ہوئے سینگوں والی اور نہ ہی کوئی خزانہ کا مالک ہے جو اس کا حق ادا نہیں کرتا مگر قیامت کے دن اس کا خزانہ گنجا سانپ بن کر آئے گا اور اپنا منہ کھولے ہوئے اس کا تعاقب کرے گا، جب اس کے پاس پہنچے گا تو وہ اس سے بھاگے گا، تو وہ (سانپ) اسے آواز دے گا: اپنے خزانہ پکڑو! جسے چھپا کر رکھا کرتے تھے۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جب صاحب خزان دیکھے گا اس سے بچنے کی کوئی صورت چارہ نہیں تو اپنا ہاتھ اس (سانپ) کے منہ میں داخل کر دے گا، وہ اسے سانڈھ (نر اونٹ) کی طرح چبائے گا ابو زبیر نے کہا: یہ بات میں نے عبید بن عمیر سے سنی تھی بھر ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے بھی عبید بن عمیر کی طرح سنائی، ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے عبید بن عمیرسے سنا کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانی پر ان کا دودھ دوہنا) تاکہ ضرورت مند لے سکیں) اور اس کا ڈول عاریتہً (پانی پلانے کےلیے) دینا اور ان میں نرکو جفتی کے لیے مانگنے پر عاریتہً دینا، اور اونٹنی کو منيحة دودھ پینے، اون کاٹنے کےلیے عاریتاً دینا، اور کسی کو جہاد کے لیے سواری کےلیے دینا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 988

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2296  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جماء:
وہ بکری جس کے سینگ نہ ہوں۔
(2)
شجاعا اقرع:
وہ سانپ جس کے زہر کی شدت کی بنا پر سر کے بال جھڑ گئے ہوں۔
یا وہ سانپ جو اپنی دم کے بل پر کھڑا ہو کہ پیدل اور سوار پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کی پیشانی پر ڈنگ مارتا ہے۔
(3)
يقضمها قضم الفحل:
نر اونٹ کی طرح اس کے ہاتھ کاٹے گا اور چبائے گا۔
منيحة کی دو قسمیں ہیں،
ایک میں دوسرے کو حیوان،
زمین یا گھر بار ھبہ کر دیا جاتا ہے،
دوسری صورت میں اونٹنی،
گائے اور بکری وغیرہا دودھ دینے والا جانور صرف دودھ پینے کے لیے کچھ وقت کے لیے دیا جاتا ہے اور پھر واپس لے لیا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا چاندی اور مال ودولت کو صرف تختیوں کی صورت میں ہی بنایا نہیں جائے گا۔
بلکہ بعض اوقات میں اسے گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی کیونکہ صاحب مال دنیا میں اس پر سانپ بن کر بیٹھا ہے۔
پھر وہ سانپ اس کا پیچھا کرے گا۔
اور صاحب مال کے لیے اس سے بچنے کی کوئی راہ نہیں نکل سکے گی۔
اور وہ ا پنے تحفظ کے لیے اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا جسے وہ سانڈھ کی طرح چبائے گا-2۔
اس حدیث میں حقوق منتشرہ جو باہمی اخوت وخیر خواہی اور مواسات ہمدردی کا مظہر ہیں،
میں سے اونٹ کے سلسلہ میں چند ایک کی تعین کی ہے۔
فقیروں مسکینوں کو ان کا دودھ دینا یاعارضی طور پر دودھ پینے کے لیے کسی محتاج کو دے دینا ضرورت مند کو پانی پلانے کے لیے ڈول دینا اور جفتی کے لیے وقتی طورپر کسی کو سانڈھ دینا کسی مجاہد کو سواری مہیا کرنا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2296   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.