الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
6. باب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب۔
حدیث نمبر: 2290
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني سويد بن سعيد ، حدثنا حفص يعني ابن ميسرة الصنعاني ، عن زيد بن اسلم ، ان ابا صالح ذكوان اخبره، انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار، فاحمي عليها في نار جهنم، فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره، كلما بردت اعيدت له في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالإبل؟، قال: ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها، ومن حقها حلبها يوم وردها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر اوفر ما كانت، لا يفقد منها فصيلا واحدا، تطؤه باخفافها وتعضه بافواهها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالبقر والغنم؟، قال: ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر، لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء، تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالخيل؟، قال: الخيل ثلاثة: هي لرجل وزر، وهي لرجل ستر، وهي لرجل اجر، فاما التي هي له وزر، فرجل ربطها رياء وفخرا ونواء على اهل الإسلام، فهي له وزر، واما التي هي له ستر، فرجل ربطها في سبيل الله، ثم لم ينس حق الله في ظهورها ولا رقابها، فهي له ستر، واما التي هي له اجر، فرجل ربطها في سبيل الله لاهل الإسلام، في مرج وروضة فما اكلت من ذلك المرج او الروضة من شيء، إلا كتب له عدد ما اكلت حسنات، وكتب له عدد ارواثها وابوالها حسنات، ولا تقطع طولها فاستنت شرفا او شرفين، إلا كتب الله له عدد آثارها وارواثها حسنات، ولا مر بها صاحبها على نهر، فشربت منه ولا يريد ان يسقيها، إلا كتب الله له عدد ما شربت حسنات، قيل: يا رسول الله فالحمر؟، قال: ما انزل علي في الحمر شيء إلا هذه الآية الفاذة الجامعة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ؟، قَالَ: الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا، فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْءٍ، إِلَّا كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ، وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ، وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ، وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ؟، قَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی چاندی سونے کا مالک ایسا نہیں کہ اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ اس کی چاندی، سونے کے تختے بنائے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ میں گرم کیے جائیں گے پھر اس کا ماتھا اور کروٹیں اس سے داغی جائیں گی اور اس کی پیٹھ اور جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے پھر گرم کیے جائیں گے پچاس ہزار برس کے دن پھر اس کو یہی عذاب ہو گا یہاں تک کہ فیصلہ ہو اور بندوں کا اور اس کی کچھ راہ نکلے جنت یا دوزخ کی طرف۔ ان سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! پھر اونٹوں کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق نہیں دیتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دوہے جس دن ان کو پانی پلائے (عرب کا معمول تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن اونٹوں کو پانی پلانے لے جاتے وہاں مسکین جمع رہتے اونٹوں کے مالک ان کو دودھ دوھ کر پلاتے حالانکہ یہ واجب نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کا ایک حق اس کو بھی قرار دیا) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک برابر زمین پر اوروہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹین گے پھر جب ان میں سے پہلا جانور روندتا چلا جائے گا پچھلا آ جائے گا۔ یوں یہ عذاب ہوتا رہے گا سارا دن کہ پچاس ہزار برس کا ہو گا یہاں تک کہ فیصلہ ہو جائے بندوں کا پھر اس کی کچھ راہ نکلے جنت یا دوزخ کی طرف۔ پھر عرض کی اے اللہ کے رسول! اور گائے بکری کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک پٹ پر صاف زمین پر اور ان گائے بکریوں میں سب آئیں گی کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی، نہ بے سینگ کی، نہ سینگ ٹوٹی اور آ کر اس کو ماریں گی اپنے سینگوں سے اور روندیں گی اپنے کھروں سے جب اگلی اس پر سے گزر جائے گی پچھلی پھر آئے گی یہی عذاب ہو گا اس پر پچاس ہزار برس کے دن پھر یہاں تک کہ فیصلہ ہو جائے بندوں کا پھر اس کی راہ کی جائے جنت یا دوزخ کی طرف۔ پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اور گھوڑے؟ آپ نے فرمایا: گھوڑے تین طرح پر ہیں ایک اپنے مالک پر بار ہے یعنی بال ہے۔ دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھاپنے والا ہے۔ تیسرا اپنے مالک کے ثواب کا سامان ہے، اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو باندھا ہے اس لیے کہ لوگوں کو دکھلائے اور لوگوں میں بڑ مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لئے) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا وہ گھوڑا ہے کہ باندھا اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لئے کسی چراگاہ یا باغ میں پھر اس نے جو کھایا اس پر چراگاہ یا باغ سے اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لئے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلے پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب اس کا مالک کسی ندی پر لے جاتا ہے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا، تب بھی اس کے لئے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پیئے ہیں۔ (یہ ثواب تو بے ارادہ پانی پی لینے میں ہے پھر جب پانی پلانے کے ارادہ سے لے جائے تو کیا کچھ ثواب نہ پائے گا) پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اور گدھے کا حال فرمائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھوں کے بارہ میں فرمایا: میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا بجز اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے «فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ» یعنی جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے دیکھے گا یعنی قیامت کے دن اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھے گا۔
حدیث نمبر: 2291
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، حدثني هشام بن سعد ، عن زيد بن اسلم في هذا الإسناد بمعنى حديث حفص بن ميسرة إلى آخره، غير انه قال: " ما من صاحب إبل لا يؤدي حقها " ولم يقل: " منها حقها "، وذكر فيه: " لا يفقد منها فصيلا واحدا "، وقال: " يكوى بها جنباه وجبهته وظهره ".وحَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمَعْنَى حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ إِلَى آخِرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا " وَلَمْ يَقُلْ: " مِنْهَا حَقَّهَا "، وَذَكَرَ فِيهِ: " لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا "، وَقَالَ: " يُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ وَجَبْهَتُهُ وَظَهْرُهُ ".
‏‏‏‏ مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی اونٹوں والا نہیں ہے جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو۔ اور نہیں کہا کہ اس کا حق اس سے۔ اور اس میں ذکر کیا کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور کہا کہ داغی جائیں گی اس کے ساتھ اس کی دونوں کروٹیں اور پیشانی اور پشت۔
حدیث نمبر: 2292
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن عبد الملك الاموي ، حدثنا عبد العزيز بن المختار ، حدثنا سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صاحب كنز لا يؤدي زكاته، إلا احمي عليه في نار جهنم، فيجعل صفائح فيكوى بها جنباه وجبينه، حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار، وما من صاحب إبل لا يؤدي زكاتها، إلا بطح لها بقاع قرقر، كاوفر ما كانت تستن عليه، كلما مضى عليه اخراها ردت عليه اولاها، حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار، وما من صاحب غنم لا يؤدي زكاتها، إلا بطح لها بقاع قرقر، كاوفر ما كانت، فتطؤه باظلافها وتنطحه بقرونها ليس فيها عقصاء ولا جلحاء، كلما مضى عليه اخراها ردت عليه اولاها، حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين الف سنة مما تعدون، ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار، قال سهيل: فلا ادري اذكر البقر ام لا؟، قالوا: فالخيل يا رسول الله، قال: الخيل في نواصيها، او قال: الخيل معقود في نواصيها، قال سهيل: انا اشك الخير إلى يوم القيامة، الخيل ثلاثة: فهي لرجل اجر، ولرجل ستر، ولرجل وزر، فاما التي هي له اجر، فالرجل يتخذها في سبيل الله، ويعدها له، فلا تغيب شيئا في بطونها إلا كتب الله له اجرا، ولو رعاها في مرج ما اكلت من شيء إلا كتب الله له بها اجرا، ولو سقاها من نهر كان له بكل قطرة تغيبها في بطونها اجر، حتى ذكر الاجر في ابوالها وارواثها، ولو استنت شرفا او شرفين كتب له بكل خطوة تخطوها اجر، واما الذي هي له ستر، فالرجل يتخذها تكرما وتجملا، ولا ينسى حق ظهورها وبطونها في عسرها ويسرها، واما الذي عليه وزر، فالذي يتخذها اشرا وبطرا وبذخا ورياء الناس، فذاك الذي هي عليه وزر، قالوا: فالحمر يا رسول الله؟، قال: ما انزل الله علي فيها شيئا إلا هذه الآية الجامعة الفاذة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا أُحْمِيَ عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُجْعَلُ صَفَائِحَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ وَجَبِينُهُ، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ، فَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قَالَ سُهَيْلٌ: فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الْبَقَرَ أَمْ لَا؟، قَالُوا: فَالْخَيْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا، أَوَ قَالَ: الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا، قَالَ سُهَيْلٌ: أَنَا أَشُكُّ الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَلِرَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَيُعِدُّهَا لَهُ، فَلَا تُغَيِّبُ شَيْئًا فِي بُطُونِهَا إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرًا، وَلَوْ رَعَاهَا فِي مَرْجٍ مَا أَكَلَتْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا أَجْرًا، وَلَوْ سَقَاهَا مِنْ نَهْرٍ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ تُغَيِّبُهَا فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، حَتَّى ذَكَرَ الْأَجْرَ فِي أَبْوَالِهَا وَأَرْوَاثِهَا، وَلَوِ اسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا أَجْرٌ، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا تَكَرُّمًا وَتَجَمُّلًا، وَلَا يَنْسَى حَقَّ ظُهُورِهَا وَبُطُونِهَا فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، وَأَمَّا الَّذِي عَلَيْهِ وِزْرٌ، فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا أَشَرًا وَبَطَرًا وَبَذَخًا وَرِيَاءَ النَّاسِ، فَذَاكَ الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ، قَالُوا: فَالْحُمُرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْجَامِعَةَ الْفَاذَّةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی صاحب کنز (یعنی خزانہ والا) ایسا نہیں ہے جو زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر گرم کیا جائے گا وہ خزانہ اس جہنم کی آگ میں اور اس کے تختے بنائے جائیں گے پھر داغی جائیں گی اس سے ان کی دونوں کروٹیں اور ماتھا جب تک کہ فیصلہ کرے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا اتنے بڑے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہے پھر اس کی راہ نکلے جنت کو جانے کی یا دوزخ کو اور جو اونٹ والا ایسا ہو کہ ان کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو وہ لٹایا جائے گا ایک پٹ پر زمین برابر میں اور وہ اونٹ آئیں گے فربہ ہو کر جیسے دنیا میں بہت فربہی کے وقت تھے اور وہ اس کو روندیں گے اور جب ان میں کا پچھلا اس پر سے نکل جائے گا اگلا پھر لوٹ آئے گا (یہی صحیح ہے اور اوپر کی روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب ان میں کا پہلا روندتا چلا جائے گا پچھلا آئے گا یہ راوی کی غلطی ہے اس لئے کہ اس میں معنی صحیح نہیں ہوتے نووی) یہاں تک کہ فیصلہ کرے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا اتنے بڑے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہے، پھر اس کی راہ نکلے جنت میں جانے کی یا دوزخ میں، جو بکری والا ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ لٹایا جائے گا ایک پٹ پر برابر زمین میں اور وہ آئیں گی بہت موٹی ہو کر جیسی دنیا میں تھیں اور اس کو روندیں گی اپنے کھروں سے اور کونچیں گی اپنے سینگوں سے کہ ان میں کوئی سینگ مڑی ہوئی اور بے سینگ والی نہ ہو گی، جب اس پر سے پچھلی گزر جائے گی اگلی پھر آ جائے گی یہی عذاب ہوتا رہے گا، جب تک اللہ فیصلہ کرے اپنے بندوں کا ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہے تمہاری زندگی کے حساب سے پھر اس کی راہ نکالی جائے گی جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف۔ سہیل نے کہا: اور میں نہیں جانتا کہ گائے کا ذکر بھی آپ نے کیا یا نہیں؟ پھر عرض کی اور گھوڑے اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانی میں بہتری یا فرمایا: گھوڑے کی پیشانی میں بہتری بندھی ہے۔ سہیل نے کہا: مجھے اس میں شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں بہتری ہے قیامت کے دن تک (یعنی جہاد کا بڑا سامان گھوڑا ہے اور بہتری دین و دنیا کی جہاد میں ہے) پھر فرمایا: گھوڑے تین قسم میں ہیں ایک تو آدمی کے لیے ثواب ہے، دوسرا پردہ ہے (اس کے عیبوں کا)، تیرا وبال و عذاب ہے۔ سو جو ثواب ہے تو وہ اس شخص کے لئے ہے جس نے گھوڑا باندھا اللہ کی راہ میں اور تیار رکھا اسی واسطے (یعنی جہاد کو) سو وہ جو غائب کرتا ہے اپنے پیٹ میں اللہ اس کے مالک کے لئے ثواب لکھتا ہے (یعنی اس کا دانہ چارہ سب موجب ثواب ہے) اور اگر اس کو کسی چراگاہ میں چرایا تو جو کچھ اس نے کھایا اللہ نے اسے ثواب میں لکھا یا جس نہر سے اس نے پانی پلایا اس کے ہر قطرہ پر جو اس نے پیٹ میں اٹھایا ایک ثواب ہے یہاں تک کہ اس کے پیشاب اور لید میں ثواب کا ذکر فرمایا اور اگر ایک دو ٹیلے پر کود گیا تو ہر قدم پر جو اس نے رکھا ایک ثواب لکھا گیا اور جو مالک کا پردہ ہے وہ اس کا گھوڑا ہے جس نے احسان کرنے کو اور اپنی خوبی کے لئے باندھا اور اس کی سواری کا حق نہ بھولا (یعنی دوستوں کو مانگے کبھی کبھی غرباء کو چڑھا لیا) اور نہ اس کے پیٹ کا (یعنی دانے چارے پانی مصالحے کی خبر رکھے) اس کی تکلیف اور آرام میں اور جو وبال و عذاب ہے وہ اس کا گھوڑا ہے جس سے اترانے اور سرکشی اور شرارت کے لئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے باندھا، سو وہ اس پر وبال ہے۔ پھر عرض کی کہ گدھے کا حال فرمائیے، اے اللہ کے رسول! فرمایا: اللہ نے مجھ پر اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں اتارا مگر یہ آیت جامع بے مثل «‏‏‏‏فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ» ۔
حدیث نمبر: 2293
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني الدراوردي ، عن سهيل بهذا الإسناد، وساق الحديث،وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ،
‏‏‏‏ سہیل ہی سے مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدیث نمبر: 2294
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنيه محمد بن عبد الله بن بزيع ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا روح بن القاسم ، حدثنا سهيل بن ابي صالح بهذا الإسناد، وقال بدل " عقصاء ": " عضباء "، وقال: " فيكوى بها جنبه وظهره "، ولم يذكر: " جبينه "،وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ بَدَلَ " عَقْصَاءُ ": " عَضْبَاءُ "، وَقَالَ: " فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَظَهْرُهُ "، وَلَمْ يَذْكُر: " جَبِينُهُ "،
‏‏‏‏ سہیل سے تیسری سند سے یہی روایت آئی ہے اور اس میں «عضباء» کا لفظ ہے اور پیشانی کے داغ کا ذکر نہیں۔
حدیث نمبر: 2295
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، ان بكيرا حدثه، عن ذكوان ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إذا لم يؤد المرء حق الله او الصدقة في إبله "، وساق الحديث بنحو حديث سهيل، عن ابيه.وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا لَمْ يُؤَدِّ الْمَرْءُ حَقَّ اللَّهِ أَوِ الصَّدَقَةَ فِي إِبِلِهِ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ.
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہی روایت مروی ہے جو سہیل نے اپنے باپ سے اوپر روایت کی۔
حدیث نمبر: 2296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عبد الرزاق . ح وحدثني محمد بن رافع واللفظ له، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله الانصاري ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من صاحب إبل لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت قط، وقعد لها بقاع قرقر تستن عليه بقوائمها واخفافها، ولا صاحب بقر لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه بقوائمها، ولا صاحب غنم لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، ليس فيها جماء ولا منكسر قرنها، ولا صاحب كنز لا يفعل فيه حقه، إلا جاء كنزه يوم القيامة شجاعا اقرع يتبعه فاتحا فاه، فإذا اتاه فر منه، فيناديه خذ كنزك الذي خباته فانا عنه غني، فإذا راى ان لا بد منه سلك يده في فيه، فيقضمها قضم الفحل "، قال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير يقول هذا القول، ثم سالنا جابر بن عبد الله عن ذلك، فقال مثل قول عبيد بن عمير ، وقال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير ، يقول: قال رجل: يا رسول الله ما حق الإبل؟، قال: " حلبها على الماء، وإعارة دلوها، وإعارة فحلها ومنيحتها، وحمل عليها في سبيل الله ".حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ قَطُّ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ بِقَوَائِمِهَا وَأَخْفَافِهَا، وَلَا صَاحِبِ بَقَرٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِقَوَائِمِهَا، وَلَا صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، لَيْسَ فِيهَا جَمَّاءُ وَلَا مُنْكَسِرٌ قَرْنُهَا، وَلَا صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يَفْعَلُ فِيهِ حَقَّهُ، إِلَّا جَاءَ كَنْزُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُهُ فَاتِحًا فَاهُ، فَإِذَا أَتَاهُ فَرَّ مِنْهُ، فَيُنَادِيهِ خُذْ كَنْزَكَ الَّذِي خَبَأْتَهُ فَأَنَا عَنْهُ غَنِيٌّ، فَإِذَا رَأَى أَنْ لَا بُدَّ مِنْهُ سَلَكَ يَدَهُ فِي فِيهِ، فَيَقْضَمُهَا قَضْمَ الْفَحْلِ "، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ هَذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْإِبِلِ؟، قَالَ: " حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَإِعَارَةُ فَحْلِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے: جو اونٹ والا حق نہ ادا کرے، وہ قیامت کے دن آئے گا اور وہ اونٹ بھی بہت سے بہت ہو کر آئیں گے اور مالک ان کا ایک پٹ پر زمین پر بٹھایا جائے گا اور وہ اس پر اپنے پیروں اور کھروں سے کودیں گے اور جو گائے والا اس کا حق نہ ادا کرے گا وہ قیامت کے دن آئیں گی بہت سے بہت اور اس کو بٹھا کر ایک پٹ پر زمین میں اپنے سینگوں سے کوچیں گی اور پیروں سے روندیں گی اور جو بکری والا اس کا حق ادا نہیں کرتا وہ بھی قیامت کے دن بہت سے بہت ہو کر آئیں گی اور اس کو ایک پٹ پر زمین میں بٹھا کر اپنے سینگوں سے کوچیں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی اور ان میں بے سینگ کی کوئی نہ ہو گی اور نہ کوئی سینگ ٹوٹی۔ اور جو خزانہ والا ایسا ہے کہ اس کا حق ادا نہیں کرتا وہ قیامت کے دن آئے گا ایک گنجا اژدہا بن کر (یعنی جس کے زہر کی تیزی سے اس کے خود بال جھڑ جاتے ہیں اور اپنی دم پر اتنا کھڑا ہو جاتا ہے کہ سوار کے سر تک اس کا منہ پہنچ جاتا ہے) اور اس کے پیچھے لگے گا منہ کھول کر جب اس کے پاس آئے گا تو مالک اس سے بھاگے گا اور وہ پکارے گا کہ لے اپنا خزانہ تو نے چھپا رکھا تھا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے شاید یہ ندا اللہ کی طرف سے ہو گی، پھر جب وہ دیکھے گا مر کر یہ بھی نہیں چھوڑتا تو اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا اور وہ اسے ایسا چبائے گا جیسے اونٹ چباتا ہے۔ ابوالزبیر نے کہا: ہم نے سنا عبید بن عمیر سے وہ یہی بات کہتے تھے، پھر ہم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو وہ بھی بولے مثل عبید بن عمیر کے، اور ابوالزبیر نے کہا: سنا میں نے عبید بن عمیر سے کہ ایک شخص نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اونٹ کا کیا حق ہے؟ فرمایا: اس کو پانی پر دودھ لینا (کہ اس میں جانوروں کو آرام ہوتا ہے اور فقیروں کو کچھ دودھ مل جاتا ہے) اور اس کا ڈول مانگے کو دینا (یعنی پانی پلانے کا) اور اس کے نر کو نطفہ لینے کے لئے مانگے دینا اور اس کو اللہ کی راہ میں سواری میں دینا۔ (یعنی جہاد میں)
حدیث نمبر: 2297
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عبد الملك ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي حقها، إلا اقعد لها يوم القيامة بقاع قرقر، تطؤه ذات الظلف بظلفها، وتنطحه ذات القرن بقرنها ليس فيها يومئذ جماء ولا مكسورة القرن، قلنا: يا رسول الله وما حقها؟، قال: إطراق فحلها، وإعارة دلوها ومنيحتها، وحلبها على الماء، وحمل عليها في سبيل الله، ولا من صاحب مال لا يؤدي زكاته، إلا تحول يوم القيامة شجاعا اقرع يتبع صاحبه حيثما ذهب، وهو يفر منه، ويقال: هذا مالك الذي كنت تبخل به، فإذا راى انه لا بد منه، ادخل يده في فيه فجعل يقضمها كما يقضم الفحل ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُقْعِدَ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، تَطَؤُهُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِهَا، وَتَنْطَحُهُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا يَوْمَئِذٍ جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا؟، قَالَ: إِطْرَاقُ فَحْلِهَا، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا مِنْ صَاحِبِ مَالٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا تَحَوَّلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُ صَاحِبَهُ حَيْثُمَا ذَهَبَ، وَهُوَ يَفِرُّ مِنْهُ، وَيُقَالُ: هَذَا مَالُكَ الَّذِي كُنْتَ تَبْخَلُ بِهِ، فَإِذَا رَأَى أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْهُ، أَدْخَلَ يَدَهُ فِي فِيهِ فَجَعَلَ يَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اونٹ والا اور گائے والا اور بکری والا اس کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ قیامت کے دن بٹھایا جائے گا، ایک پٹ پر زمیں پر اور کھروں والا جانور اس کو اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں والا اپنے سینگوں سے کونچے گا اس دن کوئی جانور بے سینگ کا نہ ہوگا نہ کوئی سینگ ٹوٹا۔ ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول! کیا ہے حق ان کا؟ فرمایا: اس کے نر کو نطفہ کے لئے دینا اور اس کے ڈول کو مانگے دینا اور اس کو دودھ پینے کے لئے مانگے دینا اور جب پانی پلا دیں اس کو دوھ لینا (اونٹوں کو چوتھے پانچویں دن پانی پلانے کو لاتے ہیں اور وہاں فقراء جمع ہوتے ہیں پھر وہاں دوہنے میں بھی جانوروں کو آرام ہوتا ہے اور فقراء کو بھی دودھ مل جاتا ہے) اور اللہ کی راہ میں سواری اور بوجھ لادنے والے کو دینا اور جو صاحب مال اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ مال اس کا قیامت کے دن ایک اژدہا گنجا بن جائے گا اور اپنے مالک کے پیچھے دوڑے گا، جدھر وہ بھاگے گا، اور وہ اس سے بھاگے گا، پھر کہا جائے گا کہ یہ وہی مال ہے جس میں تو بخیلی کرتا تھا (یعنی زکوٰۃ نہ دیتا تھا، صدقہ فطر نہ ادا کرتا تھا) پھر جب وہ دیکھے گا کہ یہ میرا پیچھا نہ چھوڑے گا تو اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا اور وہ اژدھا اس کا ہاتھ ایسا چبا ڈالے گا جیسے اونٹ چباتا ہے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.