الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
6. باب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ:
6. باب: زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب۔
Chapter: The sin of one who withholds Zakat
حدیث نمبر: 2290
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني سويد بن سعيد ، حدثنا حفص يعني ابن ميسرة الصنعاني ، عن زيد بن اسلم ، ان ابا صالح ذكوان اخبره، انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار، فاحمي عليها في نار جهنم، فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره، كلما بردت اعيدت له في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالإبل؟، قال: ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها، ومن حقها حلبها يوم وردها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر اوفر ما كانت، لا يفقد منها فصيلا واحدا، تطؤه باخفافها وتعضه بافواهها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالبقر والغنم؟، قال: ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر، لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء، تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالخيل؟، قال: الخيل ثلاثة: هي لرجل وزر، وهي لرجل ستر، وهي لرجل اجر، فاما التي هي له وزر، فرجل ربطها رياء وفخرا ونواء على اهل الإسلام، فهي له وزر، واما التي هي له ستر، فرجل ربطها في سبيل الله، ثم لم ينس حق الله في ظهورها ولا رقابها، فهي له ستر، واما التي هي له اجر، فرجل ربطها في سبيل الله لاهل الإسلام، في مرج وروضة فما اكلت من ذلك المرج او الروضة من شيء، إلا كتب له عدد ما اكلت حسنات، وكتب له عدد ارواثها وابوالها حسنات، ولا تقطع طولها فاستنت شرفا او شرفين، إلا كتب الله له عدد آثارها وارواثها حسنات، ولا مر بها صاحبها على نهر، فشربت منه ولا يريد ان يسقيها، إلا كتب الله له عدد ما شربت حسنات، قيل: يا رسول الله فالحمر؟، قال: ما انزل علي في الحمر شيء إلا هذه الآية الفاذة الجامعة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ؟، قَالَ: الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا، فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْءٍ، إِلَّا كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ، وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ، وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ، وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ؟، قَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،
حفص بن میسرہ صنعانی نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی کہ ان کو ابو صالح ذکوان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے (یا ان کی قیمت میں سے) ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہوگا (انھیں) اس کے لئے آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا اور انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا، جب وہ (تختیاں) پھر سے (آگ میں) جائیں گی، انھیں پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے (یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا) حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا، پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا کیا حکم ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن (ضرورت مندوں اور مسافروں کےلئے) ان کا دودھ نکالا جائے، اور جب قیامت کا دن ہوگااس (مالک) ایک وسیع چٹیل میدان میں ان (اونٹوں) کے سامنے بچھا (لٹا) دیاجائے گا، وہ (اونٹ دنیا میں تعداد اور فربہی کے اعتبار سے) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے، وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا، وہ اسے اپنے قدموں سے روندیں گے اور اپنے منہ سے کاٹیں گے، جب بھی ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزر جائےگا تو دوسرا اس پر واپس لے آیا جائے گا، یہ اس دن میں (بار بار) ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائےگا اور اسے اور اسے جنت کادوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھایاجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کی گئی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گائے اور بکریاں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اورنہ گائے اور بکریوں کا کوئی مالک ہوگا جو ان کا حق ادا نہیں کرتا، مگر جب قیامت کادن ہوگا تو اسے ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بچھایا (لِٹایا) جائے گا۔وہ ان میں سے کسی ایک (جانور) کو بھی گم نہیں پائےگا۔ان میں کوئی (گائے یا بکری) نہ مڑے سینگوں والی ہوگی، نہ بغیر سینگوں کے اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی (سب سیدھے تیز سینگوں والی ہوں گی) وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سمو سے روندیں گی، (یہ معاملہ) اس دن میں (ہوگا) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، جب پہلا (جانور) گزر جائے گا تو ان کا دوسرا (جانور واپس) لے آیا جائے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا، اور سے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ د یکھایا جائے گا۔"عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گھوڑے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گھوڑے تین طرح کے ہیں: وہ جو آدمی کے بوجھ ہیں، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر (پردہ پوشی کا باعث) ہیں۔تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں۔بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان مالک ریاکاری، فخر وغرور، اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لئے بوجھ (گناہ) ہیں۔ اور وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں تو وہ (اس) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں (موقع ملنے پر) اللہ کی راہ میں (خود جہاد کرنے کے لئے) باندھ رکھا ہے، پھر وہ ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا تو یہ اس کے لئے باعث ستر ہیں (چاہے اسے جہاد کا موقع ملے یا نہ ملے) اور وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو وہ (اس) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر کسی چراگاہ یا باغیچے میں باندھ رکھا ہے (اور وہ خود جہاد پر جاسکے یا نہ جاسکے انھیں دوسروں کو جہاد کے لئے دیتا ہے) یہ گھوڑے اس چراگاہ یاباغ میں سے جتنا بھی کھائیں گے تو اس شخص کے لئے اتنی تعداد میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس شخص کے لئے ان کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر (بھی) نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور وہ گھوڑے اپنی رسی تڑواکر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ نہیں لگائیں گے مگر اللہ تعالیٰ ا س شخص کےلئے ان کے قدموں کے نشانات اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دے گا اور نہ ہی ان کا مالک انھیں لے کر کسی نہر پر سے گزرے گا اور وہ گھوڑے اس نہر میں سے پانی پیئں گے جبکہ وہ (مالک) ان کو پانی پلانا (بھی) نہیں چاہتا مگر اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے اتنی نیکیاں لکھ دے گا جتنا ان گھوڑوں نے پانی پیا۔"عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور گدھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کوئی چیز نازل نہیں کی گئی: فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ خَیْرً‌ا یَرَ‌ہُ ﴿﴾ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ شَرًّ‌ا یَرَ‌ہُ ﴿﴾"جو کوئی ایک زرے کی مقداار میں نیکی کرے گا (قیامت کے دن) اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک زرے کے برابر بُرائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا، تو جب قیامت کا دن ہوگا، اس کے لئے آگ سے پرت (سلیٹیں، تختیاں اورپترے) بنائے جائیں گے انھیں جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا، جب وہ بھی وہ (پرت، تختیاں) ٹھنڈی ہو جائیں گی، اس کے لئے انہیں دوبارہ آگ میں تپایا جائے گا۔ اس دن میں یہ عمل مسلسل ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، پھر وہ اپنا راستہ، جنت یا دوزخ کی طرف لےگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اونٹوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اونٹوں کا مالک بھی اگر حق ادا نہیں گرے گا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن (جب انہیں پانی کی گھاٹ پر لے جایا جاتا ہے) ان کا دودھ ضرورت مندوں (غریبوں، مسکینوں) وہیں دوھا جائے تاکہ انہیں دودھ کے حصول میں کوئی دقت نہ ہو، اور جب قیامت کا روز ہو گا اسے ایک کھلے چٹیل میدان میں ان کے (اونٹوں کے) سامنے بچھایا جائے گا، وہ اونٹ اس حال میں آئیں گے کہ وہ انتہائی فربہ اور موٹے ہوں گے۔ اور وہ ان میں سے ایک ٹوڈا (بچہ) گم نہیں پائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے اور اپنے مونہوں سے کاٹیں گے، جب ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزرے گا تو اس پر ان کا آخری لوٹا دیا جائے گا (مقصد یہ کہ مسلسل اس پر سے گوریں گے، وقفہ نہیں ہو گا، آحری گزرنے پر پہلا پہنچ جائے گا) یا ایک ریوڑ گورنے پر جوصرا ریوڑ پہنچ جائے گا۔ یہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہو گی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائےگا۔ پھر وہ اپنا رستہ جنت یا دوزخ کی طرف دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گائیوں اور بکریوں (کے مالکوں کا) کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور گائیوں اور بکریوں کا مالک بھی ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے، تو جب قیامت کا دن ہوگا تو اسے ان کے سامنے کھلے چٹیل میدان میں بچھایا جائے گا۔ (سیدھے یا الٹے منہ لٹایا جائے گا) وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی گم نہیں پائے گا۔ ان میں کوئی (گائے یا بکری) نہ مڑے سینگوں والی ہو گی، نہ بغیر سینگوں کے یا ٹوٹے سینگوں کے وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی،،جب پہلا ریوڑ گزر جائے گا تو ان کا دوسرا ریور لایا جائے گا۔ پچاس ہزار سال کے برابر دن میں یونہی ہوتا رہے گا، حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، پھر اسے اس راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دکھایا جائے گا۔ عرض کیا گئیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گھوڑوں (کے مالکوں کا) کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو آدمی کے لیے بوجھ (گناہ کا سبب) ہیں، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر ہیں۔ (دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچاتے ہیں) تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں۔ بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان مالک ریاء، فخر اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے۔ جورے وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں، جو اس آدمی کے گھوڑے جنہیں اس نے اللہ کی راہ میں باندھ رکھا ہے پھر ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا (ضرورت مندوں کوعارضی طور پر سواری کے لیے دیتا ہے) تو یہ اس کے لئے ستر ہیں (اپنی ضرورت کے لیے دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچ جاتا ہے) رہے وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو ایسے آدمی کے گھوڑے جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر باندھ رکھا ہے کسی چراگاہ یا باغیچہ میں، تو یہ گھوڑے اسی چراگاہ یا باغ میں جو کھائیں گے تو ا س کے لیے کھانے کی اشیاء کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ان کی لید اور پیشاب کی تعداد کےبرابر نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اگر گھوڑے نے اپنی رسی تڑوا کر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ لگائی تو اللہ تعالیٰ اس کے قدم اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور اس کا جب اسے لے کر کسی نہر پر گزرتا ہے اور وہ اس سے مالک کے ارادہ اور خواہش کے بغیر ہی پانی پی لیتا ہے تو اللہ تعالی اس مالک کے لئے جس مقدار میں گھوڑے نے پانی پیا ہے اس کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے، عرض کیاگیا، اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) گدھوں کا کیا حکم ہے؟ (ان کے مالکوں سے کیسا سلوک ہو گا) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس آیت کے سوا جو یگانہ اور جامع ہے کوئی مستقل اور مخصوص حکم نازل نہیں ہوا، جو کوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے (قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ (سورۃ زلزال آیت نمبر 7۔8)
ترقیم فوادعبدالباقی: 987

   صحيح البخاري4565عبد الرحمن بن صخرمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة يأخذ بلهزمتيه يعني بشدقيه يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله
   صحيح البخاري4659عبد الرحمن بن صخريكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع
   صحيح البخاري2378عبد الرحمن بن صخرمن حق الإبل أن تحلب على الماء
   صحيح البخاري6957عبد الرحمن بن صخريكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه فيطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه وقال رسول الله إذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة فتخبط وجهه بأخفافها
   صحيح البخاري1403عبد الرحمن بن صخرمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني شدقيه ثم يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا ولا يحسبن الذين يبخلون
   صحيح البخاري1402عبد الرحمن بن صخرتأتي الإبل على صاحبها على خير ما كانت إذا هو لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على صاحبها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها وقال ومن حقها أن تحلب على الماء قال ولا يأتي أحدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها
   صحيح مسلم2290عبد الرحمن بن صخرما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت أعيدت له في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار قيل يا
   صحيح مسلم2292عبد الرحمن بن صخرما من صاحب كنز لا يؤدي زكاته إلا أحمي عليه في نار جهنم فيجعل صفائح فيكوى بها جنباه وجبينه حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب إبل لا يؤدي زكاتها إلا بطح لها بقاع قرقر كأوفر ما كانت
   سنن أبي داود1658عبد الرحمن بن صخرما من صاحب كنز لا يؤدي حقه إلا جعله الله يوم القيامة يحمى عليها في نار جهنم فتكوى بها جبهته وجنبه وظهره حتى يقضي الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة مما تعدون ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب غنم لا يؤدي حقها إلا جاءت
   سنن النسائى الصغرى2450عبد الرحمن بن صخرتأتي الإبل على ربها على خير ما كانت إذا هي لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على ربها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها قال ومن حقها أن تحلب على الماء ألا لا يأتين أحدكم يوم القيامة ببعير يحمله على رقبته له رغاء في
   سنن النسائى الصغرى2484عبد الرحمن بن صخرمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يأخذ بلهزمتيه يوم القيامة فيقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله
   سنن النسائى الصغرى2444عبد الرحمن بن صخرأيما رجل كانت له إبل لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها قالوا يا رسول الله ما نجدتها ورسلها قال في عسرها ويسرها فإنها تأتي يوم القيامة كأغذ ما كانت وأسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه بأخفافها إذا جاءت أخراها أعيدت عليه أولاها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة
   سنن ابن ماجه1786عبد الرحمن بن صخرتأتي الإبل التي لم تعط الحق منها تطأ صاحبها بأخفافها وتأتي البقر والغنم تطأ صاحبها بأظلافها وتنطحه بقرونها ويأتي الكنز شجاعا أقرع فيلقى صاحبه يوم القيامة يفر منه صاحبه مرتين ثم يستقبله فيفر فيقول ما لي ولك فيقول أنا كنزك أنا كنزك فيتقيه بيده فيلقمها
   صحيفة همام بن منبه72عبد الرحمن بن صخرإذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة تخبط وجهه بأخفافها
   صحيفة همام بن منبه73عبد الرحمن بن صخريكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه ويطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه
   مسندالحميدي1095عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1786  
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا: آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1786]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خزانے سے مراد سونا چاندی وغیرہ ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی۔

(2)
انسان دنیا میں روپے پیسےکا لالچ کرتا ہے۔
اس کو حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا اور لالچ کی وجہ سے زکاۃ نہیں دیتا۔
اس قسم کا مال قیامت کو عذاب کا باعث ہوگا کہ انسان اس سے جان چھڑانا چاہے گا لیکن وہ نہیں چھوڑے گا۔

(3)
انسان ہاتھ سے مال لیتا ہے لیکن اسی ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتا، اس لیے ہاتھ کو عذاب ہوگا کہ اس کا خزانہ سانپ بن کر اس کا ہاتھ کاٹ کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
آمین
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1786   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1658  
´مال کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کر دے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جا رہی ہو گی یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہو گی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مار کر گزر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لیے) لوٹائی جائے گی (یعنی باربار یہ عمل ہوتا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ طاقتور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو (روندنے کے لیے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1658]
1658. اردو حاشیہ: سونے چاندی کی اگر زکواۃ ادا نہ کی جائے۔تو وہ باعث وبال کنز بن جاتا ہے۔ جس کازکر سورۃ توبہ میں ہے۔ <قرآن> (وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ)(التوبہ۔3
➍ 35)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جوڑ جوڑ کررکھتے ہیں۔اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں۔جس دن کے اسے جہنم کی آگ سے تپایاجائے گا۔پھر ان سے ان کی پیشانیاں ان کے پہلو اور ان کی کمریں داغی جایئں گی۔ (اور کہا جائے گا) یہی ہے وہ جو تم اپنے لئے سینت سینت کر رکھتے تھے۔اب اسے جوڑنے کا مزہ چکھو
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1658   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2290  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الصَفَائِحُ:
صحیفة کی جمع ہے۔
پلیٹ،
تختی،
یعنی اس کے سونے،
چاندی کو سلیٹ یا تختی کی طرح چوڑا کیا جائے گا۔
(2)
مِنْ نَارٍ:
وہ آگ کی طرح گرم ہوں گی۔
(3)
بَرَدَتْ:
ان تختیوں کی مدت و تپش میں کمی ہو گی (تو انہی پھر گرم کیا جائے گا) (4)
حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ:
لوگوں کے حساب،
کتاب کے اختتام تک،
مانعین زکاۃ کو مسلسل اور پیہم عذاب ہوتا رہے گا۔
(5)
يَرَى سَبِيلَهُ:
يَرَى کو معروف اور مجہول دونوں طریقہ سے پڑھا گیا ہے،
کہ وہ جنت یا دوزخ کا راستہ اپنے عملوں کے نتیجہ کے طور پر دیکھ لے گا،
یا اسے عملوں کی پاداش میں اس کے اختیار و ارادہ کے بغیر جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔
(6)
حَلَبُهَا:
حا اور لام دونوں پر زبر ہے،
دودھ دوہنا۔
(7)
يَوْمَ وَرودِهَا:
جب تیسرے یا چوتھے دن انہیں پانی پلانے کے لیے پانی کے گھاٹ پر لے جایا جاتا ہے۔
(8)
بُطِحَ:
انہیں زمین پر بچھایا یا لٹایا جائے گا (اوندھے منہ یا پشت کے بل) (9)
قَاعٍ:
کھلا میدان،
وسیع زمین۔
(10)
قَرْقَرٍ:
ہموار اور وسیع میدان یا چٹیل زمین۔
(11)
أَوْفَرَ مَا كَانَتْ:
انتہائی تعداد میں اور موٹے،
فربہ حالت میں۔
(12)
فَصِيل:
ٹوڈا،
اونٹ کا بچہ۔
(13)
كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا:
بقول قاضی عیاض،
امام نوویٰ،
امام قرطبی،
ان الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی،
صحیح ترتیب وہی ہے جو اگلی حدیث میں آ رہی ہے کہ كلما مضي عليه اخراها رد عليه اولاهاء کہ آخری اونٹ گزرنے کے وقت پہلا اونٹ بھی گزرنے کے لیے واپس آ چکا ہو گا،
درمیان میں وقفہ نہیں ہو گا،
مسلسل چکر کی شکل برقرار رہے گی،
یا یہ معنی کرنا پڑے گا کہ جب پہلا اونٹ آخر میں پہنچے گا تو آخری اونٹ شروع سے گزرنا چاہے گا۔
پھر دوسرے چکر میں،
جب پہلا آغاز کرے گا تو آخری اونٹ انتہا پر پہنچ کر آغاز کرنے کے لیے آ چکا ہو گا۔
(14)
عَقْصَاءُ:
مڑے ہوئے سینگوں والی۔
(15)
جَلْحَاءُ:
بے سینگوں کے،
عضبا،
ٹوٹے سینگوں والی۔
(16)
اخفاف:
اونٹ کا پوڈ،
کھر۔
(17)
أَظْلَافِہم:
ظلف گائے،
بکری اور ہرن وغیرہ کے پاؤں (18)
سُم:
انسان کے لیے قدم،
گھوڑے،
خچر کے لیے حافر کا لفظ استعمال ہوتا ہے،
نواءً:
دشمنی اور عداوت۔
(19)
مَرْجِ:
چراگاہ۔
(20)
رَّوْضَةِ:
باغ۔
(21)
طول:
رسی جس کے ساتھ گھوڑے کے پاؤں کو باندھا جاتا ہے،
تاکہ گھوڑا کھونٹی کے گرد چلتا پھرتا رہے اور سبزہ چر لے۔
(22)
اسْتَنَّتْ:
دوڑا،
بھاگا،
چکر لگایا۔
شَرَفَ اونچی جگہ،
ٹیلہ،
مراد شوط (چکر)
ہے۔
فوائد ومسائل:

حقوق کی دو قسمیں ہیں: 1۔
حقوق لازمہ،
جن کی ادائیگی کے بغیر چارہ نہیں ہے۔
اور وہ مستقل اور دائمی ہیں جیسا کہ فرض زکاۃ اور فطرانہ ہے۔

حقوق منتشرہ۔
جو وقتی اور عارضی ہوتے ہیں اور حوادث وواقعات سے تعلق رکھتےہیں جن کو قرآن مجید میں سورۃ بقرہ آیت البر نمبر 177 میں:
﴿وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ﴾ کے تحت میں بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد ہے۔
﴿وَآتَى الزَّكَاةَ﴾ جب کوئی انسان لاچار اور مضطر ہو اور بھوکا مر رہا ہو تو یہ فرض ولازم ہوں گے اور عام حالات میں اخلاق حسنہ فضائل حمیدہ یا مکارم اخلاق شمار ہوں گے مثلاً کسی کو جفتی کےلیے نردینا،
پانی پلانے کے لیے ڈول دینا،
کسی کو دودھ پینے کے لیے دودھ دینے والا جانور دینا،
اونٹوں کو پانی کے گھاٹ پر دوھنا،
یا کسی فقیر مسکین کو مفت دودھ دینا،
کسی محتاج کوعاریتاً سواری دینا۔

مانعین زکاۃ کے لیے پچاس ہزار سال کا حساب وکتاب کا دن،
عذاب کا دن ہوگا،
اگر اتناعذاب اس کے گناہوں اور جرائم کے لیے کافی ہو گیا۔
تو وہ جنت کا راستہ لے گااور اگر یہ سزا اور عذاب دوسرے گناہوں کے سبب ناکافی ہوا تو پھر مزید عذاب اور سزا کے لیے دوزخ کی راہ لے گا،
اورتکمیل سزا یا شفاعت کے نتیجہ میں جنت میں آجائے گا۔

عملوں کے ثواب وعقاب میں نیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
ایک انسان گھوڑا اسی لیے رکھتا ہے کہ وہ فخر وغرور یا گھمنڈ وعجب کا اظہار کرسکے یا اپنے مال ودولت کی نمائش کرے یا مسلمانوں کے خلاف اس سے کام لے سکے تو اس کے لیے یہ گھوڑا گناہ اور سزا کا باعث ہو گا۔
ایک انسان گھوڑا اسی لیے پالتا ہے کہ وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ سکے۔
دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچ سکے۔
ضرورتمندوں کی بوقت ضرورت عارضی طور پر سواری کے لیے دے سکے،
تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہو گا،
اور سزا وعذاب سے ستر کا باعث بھی بنے گا۔
اور اگر انسان اہل اسلام کے تعاون کے لیے اور جہاد میں حصہ لینے یا مجاہدین کو وقف کرنے کے لیے گھوڑا پالتا تھا۔
تو اس کی ہر چیز،
کھانا،
پینا،
بھاگنا،
دوڑنا،
نیکیوں کے حصول کا باعث بنے گا۔

جن کاموں کے لیے کسی مخصوص اجرثواب کی صراحت موجود نہیں ہے وہ تمام امور اور اعمال اس ضابطہ اور اصول کے تحت آتے ہیں۔
﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴾
جن اموال اور حیوانات کی محبت میں گرفتار ہوکر زکاۃ دینے سے گریز کیا گیا ہو گا قیامت کے دن وہی مال اورحیوانات اپنی کامل ترین شکل وحالت میں عذاب اورتکلیف کا باعث بنیں گے اور وہ ان سے جان نہیں چھڑا سکے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2290   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.