حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: كان ابو طلحة اكثر انصاري بالمدينة مالا، وكان احب امواله إليه بيرحى، وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب، قال انس: فلما نزلت هذه الآية لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92 قام ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الله يقول في كتابه لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، وإن احب اموالي إلي بيرحى، وإنها صدقة لله ارجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بخ ذلك مال رابح ذلك مال رابح، قد سمعت ما قلت فيها وإني ارى ان تجعلها في الاقربين"، فقسمها ابو طلحة في اقاربه وبني عمه.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ إسحاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرَحَى، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرَحَى، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَخْ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ"، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ میں بہت مالدار تھے اور بہت محبوب مال ان کا بیرحاء ایک باغ تھا۔ مسجد نبوی کے آگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں جاتے تھے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت اتری «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» یعنی”نہ پہنچو گے تم نیکی کی حد کو جب تک نہ خرچ کرو گے اپنی محبوب چیزوں کو اللہ کی راہ میں۔“[۳-آل عمران:۹۲ ] تو ابوطلحہ نے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ تم نیکی کی حد کو نہ پہنچو گے جب تک اپنے محبوب مال نہ خرچو۔ اور میرے سب مالوں سے زیادہ محبوب بیرحاء ہے اور وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے اور میں اس کے ثواب کا اور اس کے آخرت میں جمع ہو جانے کا اللہ کے پاس امیدوار ہوں سو اس کو آپ جہاں چاہیں رکھ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا خوب! یہ تو بڑے نفع کا مال ہے، یہ تو بڑے نفع کا مال ہے۔ میں نے سنا جو تم نے کہا اور میں مناسب جانتا ہوں کہ تم اسے اپنے عزیزوں میں بانٹ دو۔“ پھر اس کو سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عزیزوں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا۔
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: لما نزلت هذه الآية لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، قال ابو طلحة: ارى ربنا يسالنا من اموالنا، فاشهدك يا رسول الله اني قد جعلت ارضي بريحا لله، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجعلها في قرابتك"، قال: فجعلها في حسان بن ثابت وابي بن كعب.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَرَى رَبَّنَا يَسْأَلُنَا مِنْ أَمْوَالِنَا، فَأُشْهِدُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي بَرِيحَا لِلَّهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ"، قَالَ: فَجَعَلَهَا فِي حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب آیت مذکورہ «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ»[۳-آل عمران:۹۲ ] اتری۔ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا پالنے والا، رزق دینے والا، ہمارے مال طلب فرماتا ہے۔ (اور ہم کو نہایت فخر کی جگہ ہے کہ شہنشاہ عالی جاہ بےپروا ادنیٰ غلام سے کوئی شے طلب فرمائے زہے و زہے قسمت) سو میں گواہ کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اے اللہ کے رسول! کہ میں نے اپنی زمین جس کا نام بیرحاء ہے اللہ کی نذر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے قرابت والوں کو دے دو۔“ سو انہوں نے حسان اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کو بانٹ دیا۔
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی آزاد کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کا ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کو اپنے ماموں کے دے دیتیں تو بڑا ثواب ہوتا۔“
حدثنا حسن بن الربيع ، حدثنا ابو الاحوص ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عمرو بن الحارث ، عن زينب امراة عبد الله ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تصدقن يا معشر النساء، ولو من حليكن"، قالت: فرجعت إلى عبد الله، فقلت: إنك رجل خفيف ذات اليد، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد امرنا بالصدقة، فاته فاساله فإن كان ذلك يجزي عني، وإلا صرفتها إلى غيركم، قالت: فقال لي عبد الله: بل ائتيه انت، قالت: فانطلقت فإذا امراة من الانصار بباب رسول الله صلى الله عليه وسلم، حاجتي حاجتها، قالت: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد القيت عليه المهابة، قالت: فخرج علينا بلال، فقلنا له: ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره ان امراتين بالباب تسالانك اتجزئ الصدقة عنهما على ازواجهما، وعلى ايتام في حجورهما؟، ولا تخبره من نحن، قالت: فدخل بلال على رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هما؟" فقال: امراة من الانصار، وزينب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اي الزيانب؟"، قال: امراة عبد الله، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لهما اجران: اجر القرابة، واجر الصدقة"،حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ"، قَالَتْ: فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ رَجُلٌ خَفِيفُ ذَاتِ الْيَدِ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ، فَأْتِهِ فَاسْأَلْهُ فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ يَجْزِي عَنِّي، وَإِلَّا صَرَفْتُهَا إِلَى غَيْرِكُمْ، قَالَتْ: فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ: بَلِ ائْتِيهِ أَنْتِ، قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِبَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَاجَتِي حَاجَتُهَا، قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُلْقِيَتْ عَلَيْهِ الْمَهَابَةُ، قَالَتْ: فَخَرَجَ عَلَيْنَا بِلَالٌ، فَقُلْنَا لَهُ: ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبِرْهُ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ بِالْبَابِ تَسْأَلَانِكَ أَتُجْزِئُ الصَّدَقَةُ عَنْهُمَا عَلَى أَزْوَاجِهِمَا، وَعَلَى أَيْتَامٍ فِي حُجُورِهِمَا؟، وَلَا تُخْبِرْهُ مَنْ نَحْنُ، قَالَتْ: فَدَخَلَ بِلَالٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هُمَا؟" فَقَالَ: امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَزَيْنَبُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّ الزَّيَانِبِ؟"، قَالَ: امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ"،
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بی بی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کے گروہ! صدقہ دو اگرچہ اپنے زیور سے ہو۔“ انہوں نے کہا: پھر میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے شوہر کے پاس آئی اور میں نے کہا: تم مفلس، خالی ہاتھ آدمی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم لوگ صدقہ دیں سو تم جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اگر میں تم کو دے دوں اور صدقہ ادا ہو جائے تو خیر ورنہ اور کسی کو دے دوں۔ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا تم ہی جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو، پھر میں آئی اور ایک عورت انصار کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کھڑی تھی اس کا بھی کام تھا جو میرا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب بہت تھا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نکلے تو ہم نے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان کو خبر دو کہ دو عورتیں دروازے پر پوچھتی ہیں کہ اگر اپنے شوہروں کو صدقہ دیں تو ادا ہو جائے گا یا نہیں۔ یا ان یتیموں کو دیں جن کو وہ پالتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر نہ دینا کہ ہم لوگ کون ہیں؟ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کون ہیں؟“ تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ایک عورت ہے انصار کی اور دوسری زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون سی زینب ہیں؟“ انہوں نے کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بی بی۔ تب آپ نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”ان کو اس میں دوہرا ثواب ہے ایک ثواب تو قرابت والوں سے سلوک کرنے کا دوسرا صدقہ کا۔“
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے دوسری سند سے وہی مضمون مروی ہے اس میں یہ بات زیادہ ہے کہ میں مسجد میں تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور فرمایا: ”صدقہ دو اگرچہ اپنے زیور میں سے ہو۔“
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! کیا مجھے ابوسلمہ کے بیٹوں پر خرچ کرنے سے ثواب ہے؟ اور میں ان کو چھوڑنے والی نہیں کہ ادھر ادھر پریشان ہو جائیں، اس لیے کہ وہ میرے بیٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جو تم ان پر خرچ کرتی ہو اس میں ثواب ہے۔“
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خرچ کرتا ہے مسلمان اپنے گھر والوں پر اور اس میں ثواب کی امید رکھتا ہے تو وہ صدقہ ہے اس کے لیے۔“
سیدہ اسماء ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میری ماں آئی ہے اور وہ دین سے بیزار ہے (دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ وہ مشرکہ ہے)۔ کیا میں اس سے سلوک اور احسان کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کی میری ماں آئی ہے اور مشرکہ ہے جس زمانہ میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ سے صلح کی تھی پھر کیا میں اس سے احسان کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں احسان کرو اپنی ماں سے۔“