الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل 20. باب الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ أَوْ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ وَأَنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ: باب: ایک کھجور یا ایک کام کی بات بھی صدقہ ہے اور دوزخ سے آڑ کرنے والا ہے۔
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے: ” جو کر سکے تم میں سے کہ بچے آگ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا بھی دے کر ہو، تو بھی کر گزرے۔“
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرمایا: تم میں سے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ سے بات کرنا ہو گی اس طرح کہ اللہ اور اس کے بیچ میں کوئی ترجمہ کرنے والا نہ ہو گا اور آدمی داہنی طرف دیکھے گا تو اس کے اگلے پچھلے عمل نظر آئیں گے اور بائیں طرف دیکھے گا تو وہی نظر آئیں گے اور آگے دیکھے گا تو کچھ نہ سوجھے گا سوا دوزخ کے جو اس کے منہ کے سامنے ہو گی۔ سو بچو آگ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر بھی ہو۔“ اور دوسری روایت میں یہ زیادہ ہے کہ ”اگرچہ ایک پاکیزہ بات بھی کہہ کر ہو۔“
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کا ذکر کیا اور منہ پھیر لیا اور بہت منہ پھیرا اور فرمایا: ”بچو تم دوزخ سے۔“ پھر منہ پھیرا اور بہت منہ پھیرا یہاں تک کہ گمان کیا ہم نے کہ گویا وہ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا: ”بچو تم دوزخ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر ہو اور یہ بھی نہ پائے تو اچھی سی کوئی بات کہہ کر سہی۔“ اور ابوکریب کی روایت میں گویا کا لفظ نہیں ہے۔
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کا ذکر کیا اور اس سے پناہ مانگی اور تین بار منہ پھیرا اور فرمایا: ”بچو تم آگ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر ہو اور اگر وہ بھی نہ ملے تو اچھی بات کہہ کر۔“
سیدنا منذر بن جریر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے دن کے شروع میں، سو کچھ لوگ آئے ننگے پیر ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئی اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے، پھر باہر آئے (یعنی پریشان ہو گئے۔ سبحان اللہ! کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو اور تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ» ”اے لوگو! ڈرو اللہ سے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے“ (یہ اس لیے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) «َإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا» تک پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ» ”اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لیے کیا بھیج رکھا ہے جو کل کام آئے۔“ (پھر تو صدقات کا بازار گرم ہوا) اور کسی نے اشرفی دی اور کسی نے درہم، کسی نے ایک صاع گیہوں، کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو۔“ (جب بھی لاؤ) پھر انصار میں سے ایک شخص توڑا لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، پھر تو لوگوں نے تار باندھ دیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے اور یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا تھا، جیسے کندن، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”جس نے اسلام میں آ کر نیک بات (یعنی کتاب و سنت کی بات) جاری کی اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے اور جس نے اسلام میں آ کر بری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے) اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ گھٹے۔“
وہی ترجمہ جو اوپر گزرا اس روایت میں بس اتنی بات زیادہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا۔
منذر بن جریر نے اپنے باپ سے وہی روایت کی اتنی بات زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی اور چھوٹے منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور «أَمَّا بَعْدُ» کہا اور فرمایا: «فَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ فِى كِتَابِهِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ» ”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اتارا ہے۔“ آخر حدیث تک۔
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: چند لوگ گاؤں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ ان پر کپڑے تھے اون کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا برا حال دیکھا کہ محتاج ہیں پھر ذکر کی ساری حدیث۔
|