الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
51. باب تَرْكِ اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِيِّ عَلَى الصَّدَقَةِ:
باب: آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ کو استعمال نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2481
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبد الله بن محمد بن اسماء الضبعي ، حدثنا جويرية ، عن مالك ، عن الزهري ، ان عبد الله بن عبد الله بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب حدثه، ان عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث حدثه، قال: اجتمع ربيعة بن الحارث، والعباس بن عبد المطلب، فقالا: والله لو بعثنا هذين الغلامين، قالا لي: وللفضل بن عباس: إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلماه فامرهما على هذه الصدقات، فاديا ما يؤدي الناس، واصابا مما يصيب الناس، قال: فبينما هما في ذلك جاء علي بن ابي طالب، فوقف عليهما فذكرا له ذلك، فقال علي بن ابي طالب: لا تفعلا فوالله ما هو بفاعل، فانتحاه ربيعة بن الحارث، فقال: والله ما تصنع هذا إلا نفاسة منك علينا، فوالله لقد نلت صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فما نفسناه عليك، قال علي: ارسلوهما فانطلقا واضطجع علي، قال: فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر سبقناه إلى الحجرة، فقمنا عندها حتى جاء، فاخذ بآذاننا، ثم قال: " اخرجا ما تصرران "، ثم دخل ودخلنا عليه، وهو يومئذ عند زينب بنت جحش، قال: فتواكلنا الكلام، ثم تكلم احدنا، فقال: يا رسول الله انت ابر الناس واوصل الناس، وقد بلغنا النكاح فجئنا لتؤمرنا على بعض هذه الصدقات، فنؤدي إليك كما يؤدي الناس ونصيب كما يصيبون، قال: فسكت طويلا حتى اردنا ان نكلمه، قال: وجعلت زينب تلمع علينا من وراء الحجاب ان لا تكلماه، قال: ثم قال: " إن الصدقة لا تنبغي لآل محمد، إنما هي اوساخ الناس، ادعوا لي محمية، وكان على الخمس، ونوفل بن الحارث بن عبد المطلب "، قال: فجاءاه، فقال لمحمية: " انكح هذا الغلام ابنتك للفضل بن عباس "، فانكحه، وقال لنوفل بن الحارث: " انكح هذا الغلام ابنتك لي "، فانكحني، وقال لمحمية: " اصدق عنهما من الخمس كذا وكذا "، قال الزهري ولم يسمه لي،حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَهُ، قَالَ: اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَا: وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ، قَالَا لِي: وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَاهُ فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَأَدَّيَا مَا يُؤَدِّي النَّاسُ، وَأَصَابَا مِمَّا يُصِيبُ النَّاسُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُمَا فِي ذَلِكَ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمَا فَذَكَرَا لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: لَا تَفْعَلَا فَوَاللَّهِ مَا هُوَ بِفَاعِلٍ، فَانْتَحَاهُ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا تَصْنَعُ هَذَا إِلَّا نَفَاسَةً مِنْكَ عَلَيْنَا، فَوَاللَّهِ لَقَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا نَفِسْنَاهُ عَلَيْكَ، قَالَ عَلِيٌّ: أَرْسِلُوهُمَا فَانْطَلَقَا وَاضْطَجَعَ عَلِيٌّ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ سَبَقْنَاهُ إِلَى الْحُجْرَةِ، فَقُمْنَا عِنْدَهَا حَتَّى جَاءَ، فَأَخَذَ بِآذَانِنَا، ثُمَّ قَالَ: " أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ "، ثُمَّ دَخَلَ وَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَ: فَتَوَاكَلْنَا الْكَلَامَ، ثُمَّ تَكَلَّمَ أَحَدُنَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْتَ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُ النَّاسِ، وَقَدْ بَلَغْنَا النِّكَاحَ فَجِئْنَا لِتُؤَمِّرَنَا عَلَى بَعْضِ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَنُؤَدِّيَ إِلَيْكَ كَمَا يُؤَدِّي النَّاسُ وَنُصِيبَ كَمَا يُصِيبُونَ، قَالَ: فَسَكَتَ طَوِيلًا حَتَّى أَرَدْنَا أَنْ نُكَلِّمَهُ، قَالَ: وَجَعَلَتْ زَيْنَبُ تُلْمِعُ عَلَيْنَا مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ أَنْ لَا تُكَلِّمَاهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ، وَكَانَ عَلَى الْخُمُسِ، وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ "، قَالَ: فَجَاءَاهُ، فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ: " أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ لِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ "، فَأَنْكَحَهُ، وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ: " أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ لِي "، فَأَنْكَحَنِي، وَقَالَ لِمَحْمِيَةَ: " أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا "، قَالَ الزُّهْرِيُّ وَلَمْ يُسَمِّهِ لِي،
‏‏‏‏ عبدالمطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ جمع ہوئے ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب اور دونوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم بھیج دیں ان دونوں لڑکوں کو یعنی مجھ کو اور فضل بن عباس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تحصدیلدار بنا دیں ان زکوٰتوں پر اور یہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور کچھ ان کو مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے آگے کھڑے ہوئے ان دونوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مت بھیجو اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ایسا نہیں کرنے والے (اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں پر حرام ہے) پس برا کہنے لگے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ربیعہ بن حارث اور کہا کہ اللہ کی قسم! تم ہمارے ساتھ یہ جو کرتے ہو تو حسد سے اور قسم ہے اللہ پاک کی کہ تم نے جو شرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا تو ہم تم سے کچھ حسد نہیں کرتے تب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا ان دونوں کو روانہ کرو۔ اور ہم دونوں گئے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ لیٹ رہے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جا پہنچے اور کھڑے ہوئے حجرے کے پاس یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ شفقت اور ملاعبت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظاہر کرو جو تم دل میں گھڑے باندھ لائے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی اور اس دن آپ ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تھے پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ تم بولو غرض ایک نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحم کرنے والے ہیں اور سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں قرابت والوں سے اور ہم نکاح کو پہنچ گئے ہیں (یعنی جوان ہو گئے ہیں) پھر ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہم کو ان زکوٰتوں پر تحصیلدار بنا دیں کہ ہم بھی آپ کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیں اور ہم کو بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے بڑی دیر تک یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں اور ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ آل محمد کے لائق نہیں یہ تو لوگوں کا میل ہے (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے) مگر تم میرے پاس محمیہ کو بلا لاؤ (یہ نام تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی کا) اور وہ خمس کے اوپر مقرر تھے اور بلا لاؤ نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو۔ کہا راوی نے کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ سے فرمایا: تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو۔ اور نوفل بن حارث سے فرمایا: تم اپنی لڑکی اس لڑکے سے بیاہ دو۔ یعنی مجھ سے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے جو راوی حدیث ہیں) غرض میرا نکاح کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور محمیہ سے فرمایا: ان دونوں کا مہر خمس سے ادا کر دو اتنا اتنا۔ زہری نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عبداللہ میرے شیخ نے تعداد مہر کی نہیں فرمائی۔
حدیث نمبر: 2482
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل الهاشمي ، ان عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب اخبره، ان اباه ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، والعباس بن عبد المطلب، قالا لعبد المطلب بن ربيعة، وللفضل بن عباس: ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وساق الحديث بنحو حديث مالك، وقال فيه: فالقى علي رداءه، ثم اضطجع عليه، وقال: انا ابو حسن القرم، والله لا اريم مكاني حتى يرجع إليكما ابناكما بحور ما بعثتما به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال في الحديث: ثم قال لنا: " إن هذه الصدقات إنما هي اوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد "، وقال ايضا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ادعوا لي محمية بن جزء وهو رجل من بني اسد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمله على الاخماس.حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَالْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَا لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَقَالَ فِيهِ: فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَاءَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ، وَاللَّهِ لَا أَرِيمُ مَكَانِي حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَاكُمَا بِحَوْرِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ثُمَّ قَالَ لَنَا: " إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ "، وَقَالَ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الْأَخْمَاسِ.
‏‏‏‏ عبدالمطلب بن ربیعہ نے کہا کہ ان کے باپ ربیعہ اور عباس بن عبدالمطلب دونوں نے عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس سے کہا کہ تم دونوں جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور حدیث بیان کی جیسے اوپر گزری اور اس میں یوں ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر بچھائی اور لیٹ رہے اور کہا کہ میں باپ ہوں حسن رضی اللہ عنہ کا اور سید ہوں قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ اس جگہ سے نہ جاؤں گا جب تک تمہارے بیٹے نہ لوٹیں تمہاری بات کا جواب لے کر جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلا بھیجی ہے، پھر ہمارے لیے یہ فرمایا: یہ میل ہے لوگوں کی اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جائز نہیں۔ اور فرمایا: بلاؤ میرے پاس محمیہ بن جزء کو۔ اور وہ ایک آدمی تھے قبیلہ بنی اسد کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تحصیلدار کیا تھا خمسوں پر۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.