الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل 44. باب إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ وَمَنْ يُّخَافُ عَليٰ إِيمَانِهِ إِنْ لَّمْ يُعْطَ، وَاحْتِمَالِ مَنْ سَأَلَ بِجَفَاءٍ لَّجَهْلِهِ وَبَيَانِ الْخَوَارِجِ وَأَحْكَامِهِمْ باب: مؤلفتہ القلوب اور جسے اگر نہ دیا جائے تو اس کے ایمان کا خوف ہو اس کو دینے اور جو اپنی جہالت کی وجہ سے سختی سے سوال کرے اور خوارج اور ان کے احکامات کا بیان۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صدقہ کا مال تقسیم فرمایا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! اس کے مستحق اور لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے مجھے مجبور کیا دو باتوں میں کہ یا تو مجھ سے بےحیائی سے مانگیں یا ان کے آگے بخیل ٹھہروں۔ سو میں بخل کرنے والا نہیں ہوں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا چاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران (شہر کا نام ہے) کی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کا کنارہ موٹا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گاؤں کا آدمی ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر سمیت کھینچا بہت زور سے کہ میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن کے موہرے پر چادر کی نشان بن گیا اور اس کا حاشیہ گڑ گیا۔ اس کے زور سے کھینچنے کے سبب سے، پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! حکم کرو میرے لئے اس مال میں سے کچھ دینے کا جو اللہ کا دیا آپ کے پاس ہے۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور ہنسے اور حکم کیا اس کو کچھ دینے کا۔
اسحٰق سے بذریعہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے وہی روایت مروی ہے اور عکرمہ بن عمار کی روایت میں یہ مضمون زیادہ ہے کہ اس اعرابی نے ایسا گھسیٹا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اعرابی کے گلے سے لگ گئے اور ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ ایسا کھینچا کہ چادر مبارک پھٹ گئی اور کنارہ اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں رہ گیا۔ باقی مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تقسیم کیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائیں اور مخرمہ کو کوئی نہ دی، تب مخرمہ نے کہا: اے میرے بیٹے! میرے ساتھ چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ سو میں ان کے ساتھ گیا اور انہوں نے کہا: تم گھر میں جا کر انہیں بلاؤ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اس میں کی ایک قبا اوڑھی اور فرمایا: ”یہ میں نے تمہارے واسطے رکھ چھوڑی تھی۔“ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخرمہ کو دیکھا اور فرمایا: ”مخرمہ خوش ہو گئے؟“
سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قبائیں آئیں اور مجھ سے میرے باپ سیدنا مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بیٹے، میرے ساتھ چلو شاید ہم کو بھی اس میں سے کچھ دیں، غرض میرے باپ دروازے پر کھڑے رہے اور بات کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز پہچانی اور نکلے اور آپ کے پاس ایک قبا تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پھول بوٹوں کی طرف نظر کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”یہ میں نے تمہارے لیے اٹھا رکھی تھی، یہ میں نے تمہارے لیے اٹھا رکھی تھی۔“
|