Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet said, "Night prayer is offered as two rak`at followed by two rak`at and so on, and if you want to finish it, pray only one rak`a which will be witr for all the previous rak`at." Al-Qasim said, "Since we attained the age of puberty we have seen some people offering a three-rak`at prayer as witr and all that is permissible. I hope there will be no harm in it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 16, Number 107
● صحيح البخاري | 993 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة توتر لك ما صليت |
● صحيح البخاري | 472 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشي الصبح صلى واحدة فأوترت له ما صلى اجعلوا آخر صلاتكم وترا |
● صحيح البخاري | 473 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة توتر لك ما قد صليت |
● صحيح البخاري | 990 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● صحيح البخاري | 995 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة |
● صحيح البخاري | 1137 | عبد الله بن عمر | كيف صلاة الليل قال مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1760 | عبد الله بن عمر | من صلى فليصل مثنى مثنى إن أحس أن يصبح سجد سجدة فأوترت له ما صلى |
● صحيح مسلم | 1763 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا رأيت أن الصبح يدركك فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1749 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بركعة |
● صحيح مسلم | 1748 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● صحيح مسلم | 1750 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1751 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فصل ركعة واجعل آخر صلاتك وترا |
● صحيح مسلم | 1761 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة يصلي ركعتين قبل الغداة كأن الأذان بأذنيه |
● جامع الترمذي | 461 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة يصلي الركعتين والأذان في أذنه |
● جامع الترمذي | 597 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● جامع الترمذي | 437 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة اجعل آخر صلاتك وترا |
● سنن أبي داود | 1326 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● سنن أبي داود | 1295 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن أبي داود | 1421 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى والوتر ركعة من آخر الليل |
● سنن النسائى الصغرى | 1668 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1669 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1670 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بركعة |
● سنن النسائى الصغرى | 1671 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إن خشي أحدكم الصبح فليوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1672 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1673 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1674 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1675 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1692 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى الوتر ركعة من آخر الليل |
● سنن النسائى الصغرى | 1693 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا أردت أن تنصرف فاركع بواحدة توتر لك ما قد صليت |
● سنن النسائى الصغرى | 1696 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل ركعتين ركعتين إذا خفتم الصبح فأوتروا بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1695 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● سنن النسائى الصغرى | 1694 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى الوتر ركعة واحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1667 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1175 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى الوتر ركعة قبل الصبح |
● سنن ابن ماجه | 1174 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة |
● سنن ابن ماجه | 1320 | عبد الله بن عمر | يصلي مثنى مثنى إذا خاف الصبح أوتر بركعه |
● سنن ابن ماجه | 1322 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1318 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1319 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 163 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● بلوغ المرام | 291 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر ما قد صلى |
● المعجم الصغير للطبراني | 175 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى ، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● المعجم الصغير للطبراني | 182 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● المعجم الصغير للطبراني | 213 | عبد الله بن عمر | عن صلاة الليل ، فقال : مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدكم الصبح فليوتر بواحدة |
● المعجم الصغير للطبراني | 221 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى ، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● مسندالحميدي | 641 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1174
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1174]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تہجد کی نمازدو دو رکعت کرکے ادا کی جاتی ہے۔
(2)
تہجد کے بعد ایک وتر پڑھ لینا کافی ہے۔
لیکن ایک سلام سے تین یا پانچ رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
(3)
ایک وترپڑھنے کی بابت رسول للہ ﷺ نے فرمایا۔
مَنْ اَحَبَّ اَن يُّوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ (سنن ابی داؤد، الوتر، باب کم الوتر، حدیث: 1422)
”جوکوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے۔
تو ایک رکعت (وتر)
پڑھے“ اس سے بلا نفل بھی ایک رکعت وتر پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔
اگرچہ آپﷺکے عمل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
کہ نوافل کی ادایئگی کے بعد ہی آپﷺنے ایک رکعت وتر پر اکتفا کیا ہے۔
آپﷺ کے اس عمل کو قوی حدیث کے مخالف نہیں سمجھنا چایے۔
کیونکہ جیسے آپﷺ کا عمل امت کےلئے قابل اتباع ہے۔
ویسے آپ ﷺ کا قول اور تقریر بھی قابل عمل ہیں۔
صرف ایک رکعت وتر کی موافقت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔
ان کے بارے میں مروی ہے۔
کہ وہ نمازعشاء مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر ہی پڑھا کرتے تھے۔
۔
دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند أحمد: 64/3 ومصنف عبد الرزاق، 22، 21/3 وابن ابی شیبة: 292/2)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1174
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 437
´رات کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو۔“ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 437]
اردو حاشہ:
1؎:
رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو،
جبکہ ایک حدیث میں ”رات اور دن کی نماز دودو رکعت“ بھی آیا ہے،
در اصل سوال کے جواب میں کہ ”رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے“ ”آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے“ نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے،
اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طورسے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 437
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1295
´دن کی نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1295]
1295۔ اردو حاشیہ:
مستحب اور افضل یہ ہے کہ نوافل دن کے ہوں یا رات کے دو رکعت کر کے پڑھے جائیں، ایک سلام سے چار رکعت بھی جائز ہیں جیسے کہ سنن ابي داود گزشتہ حدیث [1270] میں گزرا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں ”دن“ کے ذکر کو وہم قرار دیا ہے۔ جب کہ دوسرے علماء نے اسے ثقہ راوی کی زیادت قرار دیا ہے جو کہ مقبول ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [التعليقات السلفية: 1/198]
اس لیے سنن و نوافل، چاہے دن کے ہوں یا رات کے، دو دو کر کے پڑھناراجح ہے، گو بیک سلام، چار رکعات بھی جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1295
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 993
993. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”نماز شب دو دو رکعت ہے۔ جب تو نماز ختم کرنے کا ارادہ کرے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ رکعت تیری سابقہ نماز کو وتر بنا دے گی۔“ قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں: ہم نے جوان ہونے تک لوگوں کو دیکھا کہ وہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ یقینا (تین یا ایک) ہر ایک میں وسعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس میں چنداں حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:993]
حدیث حاشیہ:
یہ قاسم حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پوتے تھے۔
بڑے عالم اور فقیہ تھے۔
ان کے کلام سے اس شخص کی غلطی معلوم ہوگئی جو ایک رکعت وتر کو نا درست جا نتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ صحیح حدیثیں دیکھ کر پھر کوئی مسلمان یہ کیسے کہے گا کہ ایک رکعت وتر نا درست ہے۔
اس روایت سے گو عبد اللہ بن عمر کا تین رکعتیں وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفیہ کے لیے کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ ہمیشہ وتر کی تین ہی رکعتیں پڑھتے۔
علاوہ بھی اس کے دو سلام سے تین رکعتیں وتر کی ثابت ہیں اور حنفیہ ایک سلام سے کہتے ہیں (مولانا وحیدی)
یہی عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں جن سے صحیح مسلم شریف ص 257 میں صراحتاً ایک رکعت وتر ثابت ہے۔
عن عبد اللہ بن عمر ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الوتررکعة من آخر اللیل رواہ مسلم۔
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔
دوسری حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔
عن أیوب رضي اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الوتر حق علی کل مسلم ومن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل۔
(رواہ ابو داؤد والنسائی او ابن ماجہ)
یعنی حضرت ابوایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وتر کی نماز حق ہے جو ہر مسلم کے لیے ضروری ہے اور جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے اور جوچاہے تین رکعات اور جو چاہے ایک رکعت وتر ادا کر لے۔
اور بھی اس قسم کی کئی روایات مختلفہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔
اسی لیے حضرت مولانا عبید اللہ شیخ الحدیث بذیل حدیث حضرت عائشہ صدیقہ لفظ:
ویوتر بواحدة۔
(آپ ایک رکعت وتر پڑھتے)
فرماتے ہیں:
فیه أن أقل الوتر رکعة وأن الرکعة الفردة صلوة صحیحة وھو مذھب الأئمة الثلاثه وھو الحق وقال أبو حنیفة لا یصح الإیتار بواحدة فلا تکون الرکعة الواحدة صلوة قط قال النووي والأحادیث الصحیحة ترد علیه۔
(مرعاة ج: 2ص: 158)
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور یہ کہ ایک رکعت پڑھنا بھی نماز صحیح ہے، ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے (ائمہ ثلاثہ سے حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ مراد ہیں)
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں، کیونکہ ایک رکعت نماز ہی نہیں ہوتی۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے حضرت امام کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔
وتر کے واجب فرض سنت ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے، اس بارے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
والحق أن الوتر سنة ھو أوکد السنن بینه علی وابن عمر وعبادة ابن الصامت رضي اللہ عنهم۔
اور حق یہ ہے کہ نماز وتر سنت ہے اور وہ سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہے۔
حضرت علی،حضرت عبد اللہ عمر، حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی بیان فرمایا ہے۔
(حجة البالغة، ج: 2ص: 24)
وتر تین رکعت پڑھنے کی صورت میں پہلی رکعت میں سورۃ ﴿سبح اسم ربك الأعلی﴾ اور دوسری میں ﴿قل یأیھا الکفرون﴾ اور تیسری میں ﴿قل ھو اللہ أحد﴾ پڑھنا مسنون ہے۔
وتر کے بعد بآواز بلند تین مرتبہ سبحان الملك القدوس کا لفظ ادا کرنا مسنون ہے۔
ایک رکعت وتر کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت نواب صدیق حسن صاحب ؒ کی مشہور کتاب ھدایة السائل إلی أدلة المسائل مطبوعہ بھوپال، ص: 255 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 993
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:993
993. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”نماز شب دو دو رکعت ہے۔ جب تو نماز ختم کرنے کا ارادہ کرے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ رکعت تیری سابقہ نماز کو وتر بنا دے گی۔“ قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں: ہم نے جوان ہونے تک لوگوں کو دیکھا کہ وہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ یقینا (تین یا ایک) ہر ایک میں وسعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس میں چنداں حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:993]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کا ایک طریق پہلے بیان کیا تھا کہ نماز شب دو دو رکعت ہے۔
اگر اضطراری حالت ہو کہ اسے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہو جائے تو ایک رکعت پڑھ کر سابقہ نماز کو وتر بنا لے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اضطراری حالت کے علاوہ بھی اپنے ارادہ و اختیار سے سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت پڑھ کر وتر بنایا جا سکتا ہے۔
ثابت ہوا کہ اضطراری و اختیاری ہر دو صورتوں میں سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت کے ذریعے وتر بنایا جا سکتا ہے۔
اور صرف ایک وتر پڑھنا بھی جائز ہے بایں طور کہ اس سے قبل کوئی دو دو رکعت ادا نہ کی گئی ہوں۔
(2)
اس روایت کے آخر میں حضرت قاسم بن محمد کا ارشاد ذکر ہوا ہے، یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پوتے ہیں۔
بڑے عالم اور فقیہ تھے۔
ان کے بیان کردہ موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کے سلسلے میں ان کے ہاں تنگی نہیں ہے، یعنی تین اور ایک وتر پڑھا جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا جائز نہیں بلکہ منسوخ ہے، حالانکہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا صحیح ہے۔
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
”وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1758(752)
اس کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک وتر پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1718(738)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 993