الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
4. باب بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهِ لاَ يَكُونُ طَلاَقًا إِلاَّ بِالنِّيَّةِ:
4. باب: تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو۔
حدیث نمبر: 3681
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، حدثنا ابن وهب. ح وحدثني حرملة بن يحيى التجيبي ، واللفظ له: اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف : ان عائشة ، قالت: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بتخيير ازواجه بدا بي، فقال: " إني ذاكر لك امرا، فلا عليك ان لا تعجلي حتى تستامري ابويك، قالت: قد علم ان ابوي لم يكونا ليامراني بفراقه، قالت: ثم قال: إن الله عز وجل، قال: يايها النبي قل لازواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين امتعكن واسرحكن سراحا جميلا {28} وإن كنتن تردن الله ورسوله والدار الآخرة فإن الله اعد للمحسنات منكن اجرا عظيما {29} سورة الاحزاب آية 28-29، قالت: فقلت: في اي هذا استامر ابوي، فإني اريد الله ورسوله والدار الآخرة، قالت: ثم فعل ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل ما فعلت ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، وَاللَّفْظُ لَهُ: أَخْبَرَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ : أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فقَالَ: " إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَت: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا {28} وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا {29} سورة الأحزاب آية 28-29، قَالَت: فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَت: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ".
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ نے (اس کی) ابتدا مجھ سے کی، اور فرمایا: " میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں۔ تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرنے تک (جواب دینے میں) عجلت سے کام نہ لو۔" انہوں نے کہا: آپ کو بخوبی علم تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی آپ سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں (دنیا کا) ساز و سامان دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے عرض کی: ان میں سے کس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہوں۔ کہا: پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج نے وہی کیا جو میں نے کیا تھا
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور یہ الفاظ حرملہ بن یحییٰ تجیبی کے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیویوں کو (دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا) اختیار دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا مجھ سے کی اور فرمایا: میں تم سے ایک معاملہ کا ذکر کرنے لگا ہوں۔ تم پر کوئی تنگی نہیں ہے اگر (اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں) جلد بازی سے کام نہ لو۔ حتی کہ اپنے والدین سے صلاح و مشورہ کر لو۔ وہ بیان کرتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجیئے، اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کی خواہاں ہو، تو آؤ۔ میں تمہیں دنیا کا سازوسامان دوں اور بڑے اچھے طریقہ سے تمہیں رخصت کروں، اور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی خواہاں ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم خوب کاروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ (سورۃ احزاب: 28،29)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1475
   صحيح البخاري4786عائشة بنت عبد اللهذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تستعجلي حتى تستأمري أبويك وقد علم أن أبوي لم يكونا يأمراني بفراقه قالت ثم قال إن الله قال يأيها النبي قل لأزواجك
   صحيح مسلم3681عائشة بنت عبد اللهذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت قد علم أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه قالت ثم قال إن الله قال يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن وأسرحكن سراحا جميلا وإن كنتن تردن الله ورسوله والدار الآخرة ف
   جامع الترمذي3318عائشة بنت عبد اللهذاكر لك شيئا فلا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت ثم قرأ هذه الآية يأيها النبي قل لأزواجك
   سنن النسائى الصغرى3469عائشة بنت عبد اللهذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت قد علم أن أبواي لم يكونا ليأمراني بفراقه قالت ثم تلا هذه الآية يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا إلى قوله جميلا
   سنن النسائى الصغرى3470عائشة بنت عبد اللهذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت قد علم والله أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه فقرأ علي يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها
   سنن النسائى الصغرى3203عائشة بنت عبد اللهذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي حتى تستأمري أبويك قالت وقد علم أن أبوي لا يأمراني بفراقه ثم قال رسول الله يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن
   سنن ابن ماجه2053عائشة بنت عبد اللهذاكر لك أمرا فلا عليك أن لا تعجلي فيه حتى تستأمري أبويك قالت قد علم والله أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه قالت فقرأ علي يأيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2053  
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) اے نبی! اپنی بیویو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ان تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔

(2)
  اس میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی رسو ل اللہﷺ سے محبت کا بیان ہے۔

(3)
  امہات المومنین کے عظیم ایمان اور آخرت کےاجر و ثواب کی طلب کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کے ثواب کے حصول کا فیصلہ فرمالیا۔

(4)
رسول اللہﷺ کی یہ خواہش کہ والدین سے مشورہ کرکے جواب دیں، اس لیے تھی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری کی وجہ سے کوئی غلط جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔

(5)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے ایمان کی پختگی اور ایمانی فراست پر نبیﷺ کا اعتماد۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2053   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3681  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اسباب و وجوہ کی بنا پر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے ناراض ہوئے جو پے در پے یکے بعد دیگرے پیش آئے پہلے شہد والا واقعہ پیش آیا،
اس کے بعد ماریہ قبطیہ کا واقعہ رونما ہو۔
پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نان و نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر متفق ہو گئیں اس طرح کچھ امور پیش آئے جو آ گے آ رہے ہیں جن کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ ایلا کرتے ہوئے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے علیحدگی اختیار کرلی،
اور ایلا کے خاتمہ پر آیت تخییر نازل ہوئی۔
جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو اپنے پاس رہنے اور جدا ہونے کا اختیار دیا۔
اور آغاز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:
کیونکہ وہی سب سے زیادہ محبوبہ تھیں اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتے تھے،
اس لیے ان کی خیر خواہی کے پیش نظران کی نوخیزی تجربہ کاری سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا کہ فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام نہ لینا۔
پہلے اپنے والدین سے مشورہ کر لینا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار تھے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی گوارا نہیں کر سکتے تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی کمال ذہانت و فطانت اور اصابت فکر کی بنا پر مشورہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی یہ واقعہ 9 ہجری میں پیش آیا جس سے معلوم ہوتا ہے۔
اس وقت تک ان کی والدہ اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بقید حیات تھیں اور باقی ازواج نے بھی اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کا انتخاب کیا۔
اور اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں طلاق تفویض کی تھی کہ وہ طلاق لینے کا حق رکھتی ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دینے کا وعدہ اس شرط پر کیا تھا جب وہ دنیا کو اختیار کر لیں گی۔
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ،
تفویض کے قائل ہیں اور امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ وعدہ کے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3681   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.