ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ نے (اس کی) ابتدا مجھ سے کی، اور فرمایا: " میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں۔ تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرنے تک (جواب دینے میں) عجلت سے کام نہ لو۔" انہوں نے کہا: آپ کو بخوبی علم تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی آپ سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں (دنیا کا) ساز و سامان دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے عرض کی: ان میں سے کس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہوں۔ کہا: پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج نے وہی کیا جو میں نے کیا تھا
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور یہ الفاظ حرملہ بن یحییٰ تجیبی کے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیویوں کو (دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا) اختیار دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا مجھ سے کی اور فرمایا: ”میں تم سے ایک معاملہ کا ذکر کرنے لگا ہوں۔ تم پر کوئی تنگی نہیں ہے اگر (اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں) جلد بازی سے کام نہ لو۔ حتی کہ اپنے والدین سے صلاح و مشورہ کر لو۔ وہ بیان کرتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجیئے، اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کی خواہاں ہو، تو آؤ۔ میں تمہیں دنیا کا سازوسامان دوں اور بڑے اچھے طریقہ سے تمہیں رخصت کروں، اور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی خواہاں ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم خوب کاروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ (سورۃ احزاب: 28،29)