الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قسموں کا بیان
The Book of Oaths
2. باب مَنْ حَلَفَ بِاللاَّتِ وَالْعُزَّى فَلْيَقُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
2. باب: جو لات و عزی کی قسم کھائے اس کو لا الہ الا اللہ پڑھنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 4260
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني ابو الطاهر ، حدثنا ابن وهب ، عن يونس . ح وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني حميد بن عبد الرحمن بن عوف ، ان ابا هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حلف منكم فقال في حلفه باللات، فليقل لا إله إلا الله، ومن قال لصاحبه تعال اقامرك فليتصدق "،حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ مِنْكُمْ فَقَالَ فِي حَلِفِهِ بِاللَّاتِ، فَلْيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ تَعَالَ أُقَامِرْكَ فَلْيَتَصَدَّقْ "،
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے حمید بن عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جس نے حلف اٹھایا اور اپنے حلف میں کہا: لات کی قسم! تو وہ لا الہ الا اللہ کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ، جوا کھیلیں تو وہ صدقہ کرے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس نے قسم اٹھائی، اور قسم لات کی اٹھائی، وہ فورا لا الہ الا اللہ کہے، اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا، آئیے میں تم سے جوا کھلوں، وہ صدقہ کرے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1647
   صحيح البخاري6650عبد الرحمن بن صخرمن حلف فقال في حلفه باللات والعزى فليقل لا إله إلا الله من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق
   صحيح البخاري6107عبد الرحمن بن صخرمن حلف منكم فقال في حلفه باللات والعزى فليقل لا إله إلا الله من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق
   صحيح البخاري4860عبد الرحمن بن صخرمن حلف فقال في حلفه واللات والعزى فليقل لا إله إلا الله من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق
   صحيح البخاري6301عبد الرحمن بن صخرمن حلف منكم فقال في حلفه باللات والعزى فليقل لا إله إلا الله من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق
   صحيح مسلم4260عبد الرحمن بن صخرمن حلف منكم فقال في حلفه باللات فليقل لا إله إلا الله من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق
   جامع الترمذي1545عبد الرحمن بن صخرمن حلف منكم فقال في حلفه واللات والعزى فليقل لا إله إلا الله من قال تعال أقامرك فليتصدق
   سنن أبي داود3247عبد الرحمن بن صخرمن حلف فقال في حلفه واللات فليقل لا إله إلا الله من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق بشيء
   سنن النسائى الصغرى3806عبد الرحمن بن صخرمن حلف منكم فقال باللات فليقل لا إله إلا الله من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق
   سنن ابن ماجه2096عبد الرحمن بن صخرمن حلف فقال في يمينه باللات والعزى فليقل لا إله إلا الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6301  
´ آدمی جس کام میں مصروف ہو کر اللہ کی عبادت سے غافل ہو جائے وہ «لهو» میں داخل اور باطل ہے`
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ مِنْكُمْ، فَقَالَ فِي حَلِفِهِ: بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ: تَعَالَ أُقَامِرْكَ، فَلْيَتَصَدَّقْ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس نے قسم کھائی اور کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم، تو پھر وہ «لا إله إلا الله» کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کر دینا چاہئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: 6301]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6301 کا باب: «بَابُ كُلُّ لَهْوٍ بَاطِلٌ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے اس کا حدیث کے ساتھ مناسبت ہونا مشکل ہے اور کتاب سے بھی، کتاب سے مشکل اس لیے ہے کہ لہو میں مشغول رہنا استئذان سے تعلق نہیں رکھتا اور حدیث سے مناسبت مشکل ہوں ہے کہ لات اور عزی کی قسم کھانا کس طرح سے باب سے مطابقت رکھتا ہے؟ جبکہ باب میں لات اور عزی کا کوئی ذکر نہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں جو الفاظ ہیں، یہ الفاظ ایک مرفوع حدیث میں وارد ہوئے ہیں، جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں شامل فرمایا، مکمل حدیث اس لیے ذکر نہیں فرمائی کہ وہ آپ کی شرط پر نہ تھی، وہ حدیث درج ذیل ہے:
«عن عقبة بن عامر رضى الله عنه رفعه: كل ما يلهو به المرء المسلم باطل إلا رميه بقوسه وتأديبه فرسه و ملاعبته أهله.» (3)
یعنی ہر وہ چیز جو مسلمان کو غافل کر دے باطل ہے سوائے تیر اندازی، اپنے گھوڑے کی دیکھ بھال اور اپنی بیوی کے ساتھ دل لگی کرنا۔
ترجمۃ الباب سے مناسبت کن نکات کے ساتھ وابستہ ہے اور ترجمۃ الباب کا «كتاب الاستئذان» سے کیا تعلق ہے اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وجه تعلق هذا الحديث بالترجمة، و الترجمة بالاستئذان أن الداعي إلى القمار لا ينبغي أن يؤذن له فى دخول المنزل، ثم لكونه يتضمن اجتماع الناس، و مناسبة بقية حديث الباب للترجمة أن الحلف باللات لهو يشغل عن الحق بالخلق فهو باطل.» (1)
یعنی ترجمۃ الباب کا تعلق حدیث کے ساتھ یوں ہے کہ لات (اور منات وغیرہ کی) قسم کھانا بھی لہو الحدیث میں داخل ہے جو حرام ہے، اور باب سے کتاب کا تعلق اس طرح سے ہے کہ جو جوا کھیلنے کے لیے بلائے تو اسے گھر میں آنے کی اجازت نہ دی جائے، (کیوں کہ یہ برائی کے کام میں ساتھ دینا ہوا جو لہو میں ہے اور حرام ہے)۔
پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 206   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2096  
´اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم کھائی، اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی، تو اسے چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2096]
اردو حاشہ:
ایک نو مسلم جو کفر کی حالت میں غیراللہ کی قسم کھانے کا عادی تھا، ہو سکتا ہے اسلام لانے کے بعد اس کے منہ سے پرانی عادت کے مطابق بلا ارادہ یہ شرکیہ الفاظ نکل جائیں اور بعد میں اسے غلطی کا احساس ہو تو ایسے موقع پر اسے چاہیے کہ دوبارہ توحید کا اقرار کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہہ لے تاکہ یہ کلمہ اس کے شرکیہ الفاظ کا کفارہ بن جائے گا تاہم اس طرح کی غلطی سے آدمی مرتد نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2096   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3247  
´غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی قسم کھائے اور اپنی قسم میں یوں کہے کہ میں لات کی قسم کھاتا ہوں تو چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے، اور جو کوئی اپنے دوست سے کہے کہ آؤ ہم تم جوا کھیلیں تو اس کو چاہیئے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرے (تاکہ شرک اور کلمہ شرک کا کفارہ ہو جائے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3247]
فوائد ومسائل:
غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے۔
اگر کسی سے دانستہ ایسا ہوجائے۔
تو ا پرکفارہ نہیں بلکہ توبہ استغفار اور تجدید ایمان لازم ہے۔
تاہم نادانستہ غیر ارادی طور پر ایسے الفاظ زبان سے نکل جایئں۔
تو اس کےلئے دل سے لا الہ الا اللہ پڑھ لینا کافی ہے۔
اس طرح جوا کھیلنا حرام ہے۔
تو اس کا کفارہ صدقہ کرنا ہے۔
فرمایا۔
(ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ)(ھود۔
114)
نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3247   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4260  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دور جاہلیت میں لوگ اپنے اپنے بتوں کی قسمیں اٹھایا کرتے تھے،
اور وہ ان کی زبانوں پر چڑھ چکی تھیں،
اس لیے اسلام لانے کے بعد بھی بعض دفعہ غیر شعوری طور پر ان کی زبانوں پر قسمیں جاری ہو جاتی تھیں،
اس لیے جو انسان مسلمان ہو کر شعوری طور پر،
عمدا بتوں کی تعظیم و توقیر کرتے ہوئے ان کی قسم اٹھائے تو،
بقول ابن العربی مالکی کافر ہو گا،
لیکن اگر غیر شعوری طور پر،
غفلت اور بے خبری یا جہالت کی بنا پر یہ قسم اٹھائے تو پھر وہ کلمہ توحید کا اعادہ کرے اور بعض روایات کی رو سے استغفار اور تعوذ کرے گا،
اور اگر دوسرے کو جوئے کی دعوت دے،
لیکن کھیلے گا نہیں،
تو پھر اس گناہ کا ارادہ کرنے کی بنا پر،
صدقہ و خیرات کرے گا،
اور یہ بہتر اور مستحسن ہے،
فرض نہیں ہے،
امام نووی لکھتے ہیں،
ہمارے یعنی شوافع کے نزدیک،
جس نے لات یا عزیٰ یا کسی اور بت کی قسم اٹھائی،
یا اس نے یہ کہا،
گر میں نے یہ کام کیا تو میں یہودی یا عیسائی ہوں یا میں اسلام سے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزار ہوں،
یا اس قسم کی کوئی اور بات کہی،
تو اس کی قسم منعقد نہیں ہو گی،
اس پر کفارہ نہیں ہے،
بلکہ اس پر توبہ و استغفار اور کلمہ توحید کا اعادہ لازم ہے،
چاہے اس نے یہ کام کیا ہو یا نہ،
امام شافعی،
امام مالک اور جمہور فقہاء کا موقف یہی ہے،
اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ان تمام صورتوں میں کفارہ لازم ہے،
الا یہ کہ وہ یہ کہے میں بدعتی ہوں یا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بری ہوں یا یہودیت سے بیزار ہوں۔
(صحیح مسلم،
ج 2،
ص 46)

حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج 11،
ص 654 مکتبہ دارالسلام)

میں یہی بات کہی ہے،
لیکن علامہ تقی عثمانی اور علامہ سعیدی نے لکھا ہے،
ہمارے نزدیک غیراللہ کی قسم منعقد نہیں ہوتی،
(ہدایہ اولین ص 459،
مکتبہ امدادیہ)

میں بھی اس کی تصریح موجود ہے،
ہاں بقول علامہ تقی،
اگر یہ قسم اٹھاتا ہے،
اگر میں یہ کام نہ کروں،
تو میں کافر یا یہودی یا نصرانی ہوں،
تو یہ احناف کے نزدیک قسم ہے،
کیونکہ قسموں کا مدار عرف پر ہے،
اور یہ الفاظ عرفا قسم ہیں۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 183)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4260   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.