الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
4. بَابُ تَرْكِ الْقِيَامِ لِلْمَرِيضِ:
4. باب: مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے۔
(4) Chapter. Leaving the night prayer by a patient.
حدیث نمبر: 1125
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن كثير , قال: اخبرنا سفيان، عن الاسود بن قيس، عن جندب بن عبد الله رضي الله عنه , قال:" احتبس جبريل صلى الله عليه وسلم على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت امراة من قريش: ابطا عليه شيطانه فنزلت: والضحى {1} والليل إذا سجى {2} ما ودعك ربك وما قلى {3} سورة الضحى آية 1-3".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" احْتَبَسَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ: أَبْطَأَ عَلَيْهِ شَيْطَانُهُ فَنَزَلَتْ: وَالضُّحَى {1} وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى {2} مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى {3} سورة الضحى آية 1-3".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے خبر دی، ان سے جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام (ایک مرتبہ چند دنوں تک) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (وحی لے کر) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت (ام جمیل ابولہب کی بیوی) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری «والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى‏» ۔

Narrated Jundab bin `Abdullah: Gabriel did not come to the Prophet (for some time) and so one of the Quraish women said, "His Satan has deserted him." So came the Divine Revelation: "By the forenoon And by the night When it is still! Your Lord (O Muhammad) has neither Forsaken you Nor hated you." (93.1-3)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 225

   صحيح البخاري4951جندب بن عبد اللهما أرى صاحبك إلا أبطأك فنزلت ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح البخاري4950جندب بن عبد اللهاشتكى رسول الله فلم يقم ليلتين أو ثلاثا فجاءت امرأة فقالت يا محمد إني لأرجو أن يكون شيطانك قد تركك لم أره قربك منذ ليلتين أو ثلاثة فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح البخاري4983جندب بن عبد اللهاشتكى النبي فلم يقم ليلة أو ليلتين فأتته امرأة فقالت يا محمد ما أرى شيطانك إلا قد تركك فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح البخاري1124جندب بن عبد اللهاشتكى النبي فلم يقم ليلة أو ليلتين
   صحيح البخاري1125جندب بن عبد اللهاحتبس جبريل على النبي فقالت امرأة من قريش أبطأ عليه شيطانه فنزلت والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح مسلم4656جندب بن عبد اللهقد ودع محمد فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   صحيح مسلم4657جندب بن عبد اللهشيطانك قد تركك لم أره قربك منذ ليلتين أو ثلاث فأنزل الله والضحى والليل إذا سجى ما ودعك ربك وما قلى
   مسندالحميدي795جندب بن عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1125  
´مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے`
«. . . عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" احْتَبَسَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ: أَبْطَأَ عَلَيْهِ شَيْطَانُهُ فَنَزَلَتْ: وَالضُّحَى {1} وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى {2} مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىى . . .»
. . . جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام (ایک مرتبہ چند دنوں تک) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (وحی لے کر) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت (ام جمیل ابولہب کی بیوی) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى . . . [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد: 1125]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں یہاں مناسبت مشکل ہے، دراصل یہ حدیث اپنی پچھلی حدیث کا تتمہ ہے اور وہ حدیث بھی الاسود بن قیس سے روایت ہے اور دونوں کا مفہوم ایک دوسرے سے مناسبت رکھتا ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر أن الأسود حدث به على الوجهين فحمل عنه كل واحد مالم يحمله الآخر، وحمل عنه سفيان الثوري الأمرين فحدث به مرة هكذا ومرة هكذا» [فتح الباري ج4 ص9]
جو ظاہر ہے وہ یہ کہ اسود نے دو طریقوں سے روایت کو بیان کیا ہے اور جو سفیان نے بیان کیا کہ دو امر پر ہے تو ایک کو اس طرح سے بیان کیا اور دوسرے کو کچھ اس طرح سے بیان کیا۔ (یعنی سفیان رحمہ اللہ نے دونوں حدیثوں کو مختلف بیان کیا ہے حالانکہ دونوں کا تعلق ایک ہی مخرج کے ساتھ ہے)
◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ واضح کر دیں کہ حدیث ایک ہی ہے اس کے مخرج کے اتحاد کی وجہ سے اگرچہ سبب مختلف ہیں، لیکن قصہ ایک ہے۔

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے آپ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث أن هذا من تتبة الحديث السابق، ويدفع بهذا قاله ابن التين: ذكرا احتباس جبريل عليه السلام فى هذا الباب ليس فى موضعه، وذالك لأن الحديث واحد لا تحاد مخرجه، وان كان السبب مختلفًا» [عمدة القاري، ج7، ص258]

◈ شاہ ولی اللہ محمدث دہلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ان هذه الزيادة أيضًا داخله فى تلك القصة ولو حمل رواية محمد بن كثير أيضًا على ذالك لصح استدلال به فتدبر وتأمل» [شرح أبواب البخاري، ص315]
یعنی یہ تو زیادتی (انگلی زخمی ہونے کی) داخل اس قصے میں (جس حدیث کا ذکر ابتدا میں ہوا) اگر روایت محمد بن کثیر سے ہی لی جاتی تو استدلال صحیح ہوتا پس غور کریں۔‏‏‏‏
اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یا دو راتوں تک تہجد نہ پڑھی اس کی وجہ بھی دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک میں سخت تکلیف تھی۔

❀ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«قال كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى غار فدميت إصبعه فقال: هل أنت إلا اصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت» [رواه ترمذي من طريق ابن عينية عن الأسود]
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا کہ آپ کی انگلی پر پتھر لگا تو خون نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک انگلی ہو اللہ کی راہ میں تمہیں مار لگی اور خون آلود ہوئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین راتوں کا قیام نہیں کیا تکلیف کی وجہ سے اور اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام بھی کوئی وحی لے کر نہیں آئے تو ایک عورت نے کہا کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو یہ سورۃ الضحی نازل ہوئی۔‏‏‏‏ دیکھئے تفصیل کے لیے: [ضياء الساري للامام عبدالله بن سالم البصري ج10 ص271 وفتح الباري لابن حجر ج4 ص8]
وہ عورت کون تھی؟
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فهي أم جميل العوراء بنت حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف وهى أخت أبى سفيان بن حرب وأمرأة أبى لهب» [فتح الباري، ج4، ص9]
یعنی وہ عورت ام جمیل ابولہب کی بیوی تھی۔

◈ امام ابن العجمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذه المرأة هي زوجة أبى لهب أم جميل واسمها العوراء» [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح، ص78]
یہ عورت ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی اور اس کا نام عوراء ہے۔
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ دونوں احادیث کا مخرج ایک ہی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کے درد کی کثرت میں رات کا قیام نہ کر سکے اسی حالت میں جبریل علیہ السلام بھی وحی لے کر نہیں آئے تو ابولہب کی بیوی نے یہ گستاخی کی کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو جواباً اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی نازل فرمائی۔

فائدہ:
بعض مفسرین نے بیان کیا کہ یہ عورت جس نے کہا: کہ آپ کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا ہے وہ سیدہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اس روایت کو اسماعیل القاضی نے (الاحکام) میں اور امام طبری نے اپنی تفسیر میں اور امام ابوداؤد نے اعلام النبوۃ میں ذکر فرمایا ہے اور ان تمام طرق میں عبداللہ بن شداد بن الھاد ہیں اور وہ صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور ان تک اسناد صحیح ہے۔ [ديكهئے تفسير الطبري ج12 ص622، فتح الباري ج4 ص8]
مگر ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ لفظ کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا یہ لفظ خدیجہ رضی اللہ عنہا تک درست نہیں ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«المتنكرة فى الخبر» یعنی اس خبر میں نکارت ہے جو خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں۔
بہت خوبصورت بات کہی صاحب متواری نے آپ رقمطراز ہیں کہ:
«ولا يصح عن خديجة رضي الله عنها ولا يقتضيه ايمانها وفضلها فقد كان من شأنها ان تثبت وناهيك بحديثها اول الوحي وقولها والله لا يخزيك الله ابدًا» [المتوازي ص122]
یہ خبر درست نہیں ہے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اور نہ ہی اس چیز کا تقاضا کیا جا سکتا ہے ان کے ایمان اور فضیلت کے سبب اور یقیناًً ان کی شان یہ ہے کہ وہ ثابت قدم رہنے والی ہیں جیسا کہ (بخاری شریف کی وہ حدیث جس میں پہلی وحی کا ذکر ہے کہ) سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔
لہٰذا ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اس قسم کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی، جو بات صحیح ہے اور پایہ ثبوت تک پہنچی وہ یہی ہے کہ ابولہب کی بیوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کی تھی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 244   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1125  
1125. حضرت جندب بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبی ﷺ کے پاس آنے سے رک گئے تو قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾ ) چاشت کی قسم! اور رات کی بھی جب وہ چھا جائے! تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1125]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ یہ ہے قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے تیرے مالک نے نہ تجھ کو چھوڑا نہ تجھ سے غصے ہوا۔
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ حدیث اگلی حدیث کا تتمہ ہے جب آپ بیمار ہوئے تھے تو رات کا قیام چھوڑ دیا تھا۔
اسی زمانہ میں حضرت جبرائیل ؑ نے بھی آنا موقوف کر دیا اور شیطان ابو لہب کی بیوی (أم جمیل بنت حرب أخت أبي سفیان امرأة أبي لهب حمالة الحطب)
نے یہ فقرہ کہا۔
چنانچہ ابن ابی حاتم نے جندب ؓ سے روایت کیا کہ آپ کی انگلی کو پتھر کی مار لگی آپ ﷺ نے فرمایا:
ھَل أَنتِ إِلا أصبَع دُمیتِ وفي سبیلِ اللہِ ما لقیتِ۔
تو ہے کیا ایک انگلی ہے اللہ کی راہ میں تجھ کو مار لگی خون آلودہ ہوئی۔
اسی تکلیف سے آپ دوتین روز تہجد کے لیے بھی نہ اٹھ سکے تو ایک عورت (مذکورہ ام جمیل)
کہنے لگی میں سمجھتی ہوں اب تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔
اس وقت یہ سورۃ اتری:
﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾ ) (الضحی: 1-3) (وحیدی)
احادیث گذشتہ کو بخاری شریف کے بعض نسخوں میں لفظ ح سے نقل کر کے ہر دو کو ایک ہی حدیث شمار کیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1125   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1125  
1125. حضرت جندب بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبی ﷺ کے پاس آنے سے رک گئے تو قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾ ) چاشت کی قسم! اور رات کی بھی جب وہ چھا جائے! تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1125]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوسری حدیث پہلی کا تتمہ ہے، چنانچہ ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوئے تو ایک یا دو رات آپ تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے۔
ان دنوں ایک عورت آئی اور کہنے لگی:
اے محمد ﷺ! مجھے امید ہے کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب دو تین رات سے آپ کے قریب نہیں آتا۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ نازل فرمائی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4950) (2)
رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کی گفتگو کرنے والی عورت ابولہب لعین کی بیوی ام جمیل عوراء بنت حرب تھی۔
یہ عورت خود شیطان تھی جس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ شیطان آتا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں ایک عورت نے آپ سے کہا:
اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھی نے دیر کر دی ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4951)
اس انداز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی دوسری عورت تھی، کیونکہ اس نے یا محمد کے بجائے یا رسول اللہ کہا اور لفظ شیطان کے بجائے صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے، چنانچہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ تھی۔
(فتح الباري: 13/3)
درحقیقت یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔
ابولہب کی بیوی نے آپ ﷺ کو یا محمد کہا اور جبرائیل ؑ کو شیطان سے تعبیر کیا اور یہ مذاق کے طور پر تھا جبکہ سیدہ خدیجہ ؓ نے نبی ﷺ کو یا رسول اللہ کہا اور جبرائیل ؑ کو صاحب سے تعبیر کیا اور ان کا مقصد غم خواری تھا۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی وجہ سے تہجد کو ترک کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1125   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.