الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5373
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
معي کی،
جمع امعاء ہے،
انتڑی،
آنت۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مومن آدمی کو کافر کی طرح کھانا پینا ہی مقصد زندگی نہیں سمجھنا چاہیے،
کافر چونکہ زندگی برائے خوردن سمجھتا ہے،
اس لیے خوب پیٹ بھر کر کھاتا ہے،
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ﴾ (سورہ محمد)
اور مومن زندگی برائے بندگی سمجھتا ہے،
اس لیے اس کو خوب پیٹ بھر کر نہیں کھانا چاہیے،
نیز مومن قناعت پسند ہوتا ہے اور کافر حریص و لالچی،
اس لیے دونوں کے کھانے میں بہت تفاوت ہے،
سات کا عدد محض کثرت اور مبالغہ کے لیے ہے،
حقیقتا سات کا عدد مراد نہیں ہے اور اس میں کم کھانے کی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مومن کو کم خور ہونا چاہیے،
بسیار خوری کافروں کا کام ہے،
اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے آدمی کو کھانے میں شریک کرنے سے منع کر دیا تھا،
جو کافروں کی طرح بسیار خور تھا،
اس حدیث کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہر مومن کم کھاتا ہے اور ہر کافر زیادہ کھاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5373