الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
علم کا بیان
The Book of Knowledge
5. باب رَفْعِ الْعِلْمِ وَقَبْضِهِ وَظُهُورِ الْجَهْلِ وَالْفِتَنِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ:
5. باب: آخر زمانہ میں علم کی کمی ہونا۔
Chapter: The Taking Away Of Knowledge And The Spread Of Ignorance At The End Of Time
حدیث نمبر: 6799
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، حدثني ابو شريح ، ان ابا الاسود حدثه، عن عروة بن الزبير ، قال: قالت لي عائشة: يا ابن اختي بلغني، ان عبد الله بن عمرو مار بنا إلى الحج، فالقه فسائله، فإنه قد حمل عن النبي صلى الله عليه وسلم علما كثيرا، قال: فلقيته فساءلته عن اشياء يذكرها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عروة: فكان فيما ذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله لا ينتزع العلم من الناس انتزاعا، ولكن يقبض العلماء، فيرفع العلم معهم ويبقي في الناس رءوسا جهالا يفتونهم بغير علم، فيضلون ويضلون "، قال عروة: فلما حدثت عائشة بذلك، اعظمت ذلك وانكرته، قالت: احدثك انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول هذا، قال عروة: حتى إذا كان قابل؟ قالت له: إن ابن عمر وقد قدم، فالقه ثم فاتحه، حتى تساله عن الحديث الذي ذكره لك في العلم، قال: فلقيته فساءلته، فذكره لي نحو ما حدثني به في مرته الاولى، قال عروة: فلما اخبرتها بذلك، قالت: ما احسبه إلا قد صدق اراه لم يزد فيه شيئا ولم ينقص.حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو شُرَيْحٍ ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ: يَا ابْنَ أُخْتِي بَلَغَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو مَارٌّ بِنَا إِلَى الْحَجِّ، فَالْقَهُ فَسَائِلْهُ، فَإِنَّهُ قَدْ حَمَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِلْمًا كَثِيرًا، قَالَ: فَلَقِيتُهُ فَسَاءَلْتُهُ عَنْ أَشْيَاءَ يَذْكُرُهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُرْوَةُ: فَكَانَ فِيمَا ذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْتَزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ انْتِزَاعًا، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ، فَيَرْفَعُ الْعِلْمَ مَعَهُمْ وَيُبْقِي فِي النَّاسِ رُءُوسًا جُهَّالًا يُفْتُونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ "، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا حَدَّثْتُ عَائِشَةَ بِذَلِكَ، أَعْظَمَتْ ذَلِكَ وَأَنْكَرَتْهُ، قَالَتْ: أَحَدَّثَكَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ هَذَا، قَالَ عُرْوَةُ: حَتَّى إِذَا كَانَ قَابِلٌ؟ قَالَتْ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَمْرٍ وَقَدْ قَدِمَ، فَالْقَهُ ثُمَّ فَاتِحْهُ، حَتَّى تَسْأَلَهُ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي ذَكَرَهُ لَكَ فِي الْعِلْمِ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ فَسَاءَلْتُهُ، فَذَكَرَهُ لِي نَحْوَ مَا حَدَّثَنِي بِهِ فِي مَرَّتِهِ الْأُولَى، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا أَخْبَرْتُهَا بِذَلِكَ، قَالَتْ: مَا أَحْسَبُهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ أَرَاهُ لَمْ يَزِدْ فِيهِ شَيْئًا وَلَمْ يَنْقُصْ.
عبداللہ بن وہب نے کہا: مجھے ابوشُریح نے حدیث بیان کی کہ انہیں ابواسود نے عروہ بن زبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا: بھانجے! مجھے خبر ملی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں (مدینہ) سے گزر کر حج پر جانے والے ہیں۔ تم ان سے ملو اور ان سے سوال کرو۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا علم حاصل کر کے محفوظ کر رکھا ہے۔ (عروہ نے) کہا: میں ان سے ملا اور بہت سی چیزوں کے بارے میں، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے، ان سے پوچھا۔ عروہ نے کہا: انہوں نے جو کچھ بیان کیا اس میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے یک لخت چھین نہیں لے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا لے گا اور ان کے ساتھ علم کو بھی اٹھا لے گا۔ اور لوگوں میں جاہل سربراہوں کو باقی چھوڑ دے گا جو علم کے بغیر لوگوں کو فتوے دیں گے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور (لوگوں کو بھی) گمراہ کریں گے۔" عروہ نے کہا: جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے اسے ایک بہت بڑی بات سمجھا اور اس کو غیر معروف (ناقابل قبول) قرار دیا۔ اور فرمایا: کیا انہوں نے تمہیں بتایا تھا کہ انہوں نے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ نے یہ بات کہی تھی؟ عروہ نے کہا: یہاں تک کہ جب اگلا سال ہوا تو انہوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ان سے کہا: (عبداللہ) بن عمرو رضی اللہ عنہ آ گئے ہیں، ان سے ملو، ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرو، یہاں تک کہ ان سے اسی حدیث کے بارے میں پوچھو جو انہوں نے علم کے حوالے سے تمہیں بیان کی تھی۔ (عروہ نے) کہا: میں ان سے ملا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے وہ حدیث میرے سامنے (بالکل) اسی طرح بیان کر دی جس طرح پہلی بار بیان کی تھی۔ عروہ نے کہا: جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فرمایا: میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے سچ کہا، میں دیکھ رہی ہوں کہ انہوں نے اس میں نہ کوئی چیز بڑھائی ہے نہ کم کی ہے۔
حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:"اے میرے بھانجے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کے لیے ہمارے ہاں وسے گزرنے والے ہیں تو ان سے مل کر ان سے دریافت کرو، کیونکہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سا علم حاصل کیا ہے چنانچہ میں انہیں ملا اور ان سے ان چند باتوں کے بارے میں دریافت کیا، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے جو باتیں انھوں نے بیان کیں ان میں یہ بھی تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک اللہ لوگوں کے دلوں سے علم نہیں نکالے گا، لیکن علماء کو قبض کرے گا،سو علم بھی ان کے ساتھ اٹھ جائے گااور لوگوں میں جاہلوں کو سردار بنا چھوڑےگا، جو انہیں علم کے بغیر جوابات دیں گے خود بھی گمراہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔"عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں تو جب میں نے یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سنائی، انھوں نے اس کو بڑا سمجھا اور اس کا انکار اور اور پوچھا کیا تجھے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا تھا کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ عروہ کہتے ہیں جب اگلا سال آیا توانھوں نے (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے مجھے فرمایا، حضرت ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہوئے ہیں انہیں ملو، پھر بات چیت کا آغاز کرو، حتی کہ تم ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کرنا جو انھو ں نے تمھیں علم کے بارے میں سنائی تھی، چنانچہ میں انہیں ملا اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے پہلی دفعہ کی طرح حدیث سنادی تو جب میں نے اس کی خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی انھوں نے کہا، میرے خیال میں انھوں نے صحیح کہا ہے میں جان رہی ہوں انھوں نے اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2673
   صحيح البخاري7307عبد الله بن عمروالله لا ينزع العلم بعد أن أعطاكموه انتزاعا
   صحيح البخاري100عبد الله بن عمروالله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا
   صحيح مسلم6799عبد الله بن عمروالله لا ينتزع العلم من الناس انتزاعا ولكن يقبض العلماء فيرفع العلم معهم يبقي في الناس رءوسا جهالا يفتونهم بغير علم فيضلون ويضلون
   سنن ابن ماجه52عبد الله بن عمروالله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس ولكن يقبض العلم بقبض العلماء إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا
   مشكوة المصابيح206عبد الله بن عمروإن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء
   صحيح مسلم6796عبد الله بن عمروالله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس ولكن يقبض العلم بقبض العلماء إذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا
   المعجم الصغير للطبراني77عبد الله بن عمرو الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس ، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء ، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رؤساء جهالا ، فسئلوا فأفتوا بغير علم ، فضلوا ، وأضلوا
   مسندالحميدي592عبد الله بن عمروإن الله عز وجل لا يقبض العلم انتزاعا ينزعه من قلوب الرجال، ولكن يقبضه بقبض العلماء فإذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسألوهم فأفتوهم بغير علم فضلوا وأضلوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 100  
´علم کا اٹھایا جانا`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 100]

تشریح:
پختہ عالم جو دین کی پوری سمجھ بھی رکھتے ہوں اور احکام اسلام کے دقائق و مواقع کو بھی جانتے ہوں، ایسے پختہ دماغ علماء ختم ہو جائیں گے اور سطحی لوگ مدعیان علم باقی رہ جائیں گے جو ناسمجھی کی وجہ سے محض تقلید جامد کی تاریکی میں گرفتار ہوں گے اور ایسے لوگ اپنے غلط فتووں سے خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ رائے اور قیاس کے دلدادہ ہوں گے۔ یہ ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن مطر فربری کی روایت ہے جو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور صحیح بخاری کے اولین راوی یہی فربری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعض روایتوں میں «بغير علم» کی جگہ «برايهم» بھی آیا ہے۔ یعنی وہ جاہل مدعیان علم اپنی رائے قیاس سے فتویٰ دیا کریں گے۔ «قال العيني لايختص هذا بالمفتيين بل عام للقضاة الجاهلين» یعنی اس حکم میں نہ صرف مفتی بلکہ عالم جاہل قاضی بھی داخل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 100   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 100  
´علم کا اٹھایا جانا`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 100]

تشریح:
پختہ عالم جو دین کی پوری سمجھ بھی رکھتے ہوں اور احکام اسلام کے دقائق و مواقع کو بھی جانتے ہوں، ایسے پختہ دماغ علماء ختم ہو جائیں گے اور سطحی لوگ مدعیان علم باقی رہ جائیں گے جو ناسمجھی کی وجہ سے محض تقلید جامد کی تاریکی میں گرفتار ہوں گے اور ایسے لوگ اپنے غلط فتووں سے خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ رائے اور قیاس کے دلدادہ ہوں گے۔ یہ ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن مطر فربری کی روایت ہے جو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور صحیح بخاری کے اولین راوی یہی فربری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعض روایتوں میں «بغير علم» کی جگہ «برايهم» بھی آیا ہے۔ یعنی وہ جاہل مدعیان علم اپنی رائے قیاس سے فتویٰ دیا کریں گے۔ «قال العيني لايختص هذا بالمفتيين بل عام للقضاة الجاهلين» یعنی اس حکم میں نہ صرف مفتی بلکہ عالم جاہل قاضی بھی داخل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 100   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 206  
´علماء کے اٹھنے سے بربادی ہو گی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا» . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (آخر زمانے میں) اس طرح علم نہیں نکالے گا کہ بندوں کے دل و دماغ سے نکال ڈالے بلکہ علماء (حقانی) کے اٹھانے سے علم کو اٹھا لے گا۔ جبکہ کوئی عالم باعمل باقی نہیں رہے گا۔ تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے ان سے دینی فتوی دریافت کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی کا جواب دیں گے جس سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 206]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 100]،
[صحيح مسلم 6796]

فقہ الحدیث:
➊ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رائے سے فتویٰ دینا حرام ہے۔
➋ کتاب وسنت کا وجود قیامت تک رہے گا لیکن علمائے حق میں عام طور پر کمی آتی رہے گی۔
➌ صحیح بخاری کی ایک روایت میں «فيفتون برأيهم» (پس وہ اپنی رائے سے فتوے دیں گے) کے الفاظ آتے ہیں۔ [كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة ح7307]
یعنی وہ لوگ اپنی رائے سے فتویٰ دیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رائے سے فتویٰ دینا حرام ہے اور قیامت سے پہلے ایسے لوگ ہوں گے جو اپنی رائے سے قرآن و حدیث کے خلاف فتوے دیتے رہیں گے۔
➍ تقلید شخصی بدعت ہے اور کتاب و سنت کے مقابلے میں تقلید کرنا حرام ہے۔
➎ گمراہوں سے بچنا ضروری ہے ورنہ آخرت برباد ہو جائے گی۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 206   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث52  
´رائے اور قیاس سے اجتناب و پرہیز۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں مٹائے گا کہ اسے یک بارگی لوگوں سے چھین لے گا، بلکہ اسے علماء کو موت دے کر مٹائے گا، جب اللہ تعالیٰ کسی بھی عالم کو باقی اور زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، تو گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 52]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسلمان شرعی علوم سے یک بارگی محروم نہیں ہوں گے بلکہ بتدریج یہ نوبت آئے گی کہ معاشرے سے علماء ختم ہو جائیں گے، اس طرح شرعی علوم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

(2)
اس خطرناک صورت حال سے حتی الامکان محفوظ رہنے کے لیے مسلمان معاشرے کا فرض ہے کہ وہ شرعی علوم کے ماہر علماء پیدا کرے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔

(3)
عالم کا فرض ہے کہ وہ علم یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی دے، محض اپنی رائے اور قیاس پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی نہ دے۔

(4)
شرعی دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے محض عقل کی روشنی میں شرعی مسائل پر رائے دینے کی کوشش گمراہی ہے جس کے نتیجے میں عوام میں بھی گمراہی پھیلتی ہے۔

(5)
نصوص پر عقلی دلائل کو ترجیح دینے سے شریعت کی اہمیت کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کے فتنے پھیلتے ہیں۔
ماضی میں خوارج، معتزلہ اور دیگر گمراہ فرقوں کے وجود میں آنے کا باعث بھی یہی تھا اور دور حاضر میں بھی عقل ہی کے نام سے طرح طرح کے فتنے پیدا ہو رہے ہیں۔
ان کا علاج یہی ہے کہ قرآن و حدیث کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے اور ہر پیش آمدہ مسئلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح موقف کو واضح کیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 52   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6799  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کسی ایک فاضل اور فقیہ اور مزاج رسول کی شناسائی رکھنے والے کو کسی حدیث کا علم نہیں ہے تو اس کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ یہ حدیث ہی نہیں ہے،
نیز کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی درایت و عقل پر بھی کسی حدیث کو نہیں پرکھا جا سکتا کہ اس کی عقل و درایت میں یہ حدیث نہ آتی ہو تو اس کا انکار کر دیا جائے،
جیسا کہ آج کل یہ فتنہ پھیل رہا ہے،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعض وجوہ کی بنا پر،
اس حدیث کو بڑا خیال کرتے ہوئے انکار کرتی ہیں اور پوچھتی ہیں،
کیا واقعی انہوں نے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی تھی،
کہیں انہوں نے اہل کتاب کی کتب سے تو نقل نہیں کیا،
یا تم نے تو نسبت کرنے میں غلطی نہیں کی،
حالانکہ یہ روایت صحیح ہے۔
(2)
اگلے سال جب حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ،
مصر سے حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور عروہ بن زبیر بھی وہاں موجود تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کے مطابق عروہ رحمہ اللہ نے پھر حضرت عبداللہ سے یہ حدیث پوچھی اور انہوں نے بلا کم و کاست بیان کر دی،
جو اس بات کی دلیل ہے،
صحابہ کرام احادیث کے بیان کرنے میں انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیتے تھے اور انہیں یاد رکھتے تھے اور اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یقین ہو گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو آپ کی طرف نسبت کرنے میں وہم لاحق نہیں ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6799   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.