الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7117
´قیامت کے قریب زمانہ کا بدلنا یہاں تک کہ وہ لوگ بتوں کی عبادت کریں گے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ قحطان کا ایک شخص (بادشاہ بن کر) نکلے گا اور لوگوں کو اپنے ڈنڈے سے ہانکے گا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ: 7117]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7117 کا باب: «بَابُ تَغْيِيرِ الزَّمَانِ حَتَّى يَعْبُدُوا الأَوْثَانَ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں زمانے کا تبدیل ہونا اور بت پرستی کا عرب میں شروع ہونے پر اشارہ فرمایا ہے جبکہ تحت الباب جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل فرمائی ہے اس میں کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جہاں سے مطابقت کا پہلو اجاگر ہوتا ہو۔
چنانچہ اسماعیلی نے یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ:
«ليس هذا الحديث من ترجمة الباب فى شيئي.» [شرح ابن بطال 60/10]
”اس حدیث کا تعلق ترجمۃ الباب سے کچھ بھی نہیں ہے۔“ ان کے اس اعتراض کا جواب علامہ مہلب رحمہ اللہ نے دیا ہے، چنانچہ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«بأن وجهه أن القحطاني إذا قام وليس من بيت النبوة ولا من قريش الذين جعل الله فيهم الخلافة فهو من أكبر تغير الزمان وتبديل الأحكام بأن يطاع فى الدين من ليس أهلاً لذالك.» [فتح الباري لابن حجر: 67/4]
”یعنی قحطانی جب ظاہر ہو گا جو بیت نبوت سے نہ ہو گا اور نہ ہی قریش سے ہو گا جن میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کو قائم کیا ہے، تو یہ زمانے کے بڑے بڑے تغیرات اور تبدیل احکام میں سے ہو گا کہ دین میں ایک ایسا شخص مطاع بن بیٹھا ہے جو اس کا اہل نہ تھا۔“
علامہ مہلب رحمہ اللہ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قحطانی آدمی ظاہر ہو گا اور لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا تو وہ زمانہ تغیرات کا شدید شکار ہو چکا ہو گا، یہی بات امام بخاری رحمہ اللہ مندرجہ حدیث کے ذریعے ثابت کرنا چاہتے ہیں، جس سے باب سے مناسبت واضح ہوتی ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی یہی قریب قریب مناسبت دی ہے، آپ کہتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث إن سوق رجل من قحطان الناس بعصاه إنما يكون فى تغيير الزمان و تبديل أحوال الإسلام.» [عمدة القاري للعيني: 306/24]
”ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت یوں ہے کہ جب قحطانی شخص لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا تو وہ زمانہ تغیرات کا وقت ہو گا اور احوال اسلام بھی تبدیل ہوں گے۔“
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وحاصله أنه مطابق لصدر الترجمة وهو تغير الزمان و تغيره أعم من أن يكون فيما يرجع إلى الفسق أو الكفر.» [فتح الباري لابن حجر: 67/24]
”حاصل کلام یہ ہے کہ باب کا حدیث سے تعلق یوں ہے کہ جو تغیر زمان ہے اور اس کا تغیر اس امر سے اعم ہے کہ اس کا مرجع فسق ہو یا کفر۔“
لہٰذا قحطانی جس زمانے میں لوگوں کو اپنے ڈنڈے سے ہانکے گا وہ زمانہ تغیرات کا شدید شکار ہو گا کیونکہ اس دور میں اسلام کے احوال تبدیل ہو چکے ہوں گے اور اکثریت بتوں کی پرستش میں لگ جائے گی، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 284