الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
8. بَابُ الصَّدَقَةِ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ:
8. باب: حلال کمائی میں سے خیرات کرنا۔
(8) Chapter. As-Sadaqa (charity) must be from money earned honestly.
حدیث نمبر: Q1410-3
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقوله: يايها الذين آمنوا لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والاذى إلى قوله والله لا يهدي القوم الكافرين سورة البقرة آية 264 , وقال ابن عباس رضي الله عنهما: صلدا ليس عليه شيء , وقال عكرمة: وابل مطر شديد والطل الندى.لِقَوْلِهِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالأَذَى إِلَى قَوْلِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ سورة البقرة آية 264 , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: صَلْدًا لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ , وَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَابِلٌ مَطَرٌ شَدِيدٌ وَالطَّلُّ النَّدَى.
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور (جس نے تمہارا صدقہ لیا ہے اسے) ایذا دے کر برباد نہ کرو جیسے وہ شخص (اپنے صدقات برباد کر دیتا ہے) جو لوگوں کو دکھانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا (سے) اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور اللہ اپنے منکروں کو ہدایت نہیں کرتا (تک)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (قرآن مجید) میں لفظ «صلدا‏» سے مراد صاف اور چکنی چیز ہے۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا (قرآن مجید میں) لفظ «وابل‏» سے مراد زور کی بارش ہے اور لفظ «الطل» سے مراد شبنم اوس ہے۔

حدیث نمبر: Q1410-2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقوله: قول معروف ومغفرة خير من صدقة يتبعها اذى والله غني حليم سورة البقرة آية 263.لِقَوْلِهِ: قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ سورة البقرة آية 263.
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے بھلی بات کرنا اور فقیر کی سخت باتوں کو معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے نتیجہ میں (اس شخص کو جسے صدقہ دیا گیا ہے) اذیت دی جائے کہ اللہ بڑا بےنیاز نہایت بردبار ہے۔

حدیث نمبر: Q1410
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقوله: ويربي الصدقات والله لا يحب كل كفار اثيم {276} إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات واقاموا الصلاة وآتوا الزكاة لهم اجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون {277} سورة البقرة آية 276-277.لِقَوْلِهِ: وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ {276} إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ {277} سورة البقرة آية 276-277.
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ‘ نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ‘ انہیں ان اعمال کا ان کے پروردگار کے یہاں ثواب ملے گا اور نہ انہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

حدیث نمبر: 1410
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن منير، سمع ابا النضر، حدثنا عبد الرحمن هو ابن عبد الله بن دينار، عن ابيه، عن ابي صالح، عن ابي هريرةرضي الله عنه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب ولا يقبل الله إلا الطيب , وإن الله يتقبلها بيمينه، ثم يربيها لصاحبه كما يربي احدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل" تابعه سليمان، عن ابن دينار، وقال ورقاء: عن ابن دينار، عن سعيد بن يسار، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواه مسلم بن ابي مريم وزيد بن اسلم , وسهيل، عن ابي صالح، عن ابي هريرةرضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ أَبَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ , وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ" تَابَعَهُ سُلَيْمَانُ، عَنْ ابْنِ دِينَارٍ، وَقَالَ وَرْقَاءُ: عَنِ ابْنِ دِينَار، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ مُسْلِمُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ وَزَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , وَسُهَيْلٌ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے ابوالنضر سالم بن ابی امیہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے ‘ ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ عبدالرحمٰن کے ساتھ اس روایت کی متابعت سلیمان نے عبداللہ بن دینار کی روایت سے کی ہے اور ورقاء نے ابن دینار سے کہا ‘ ان سے سعید بن یسار نے ‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی روایت مسلم بن ابی مریم ‘ زید بن اسلم اور سہیل نے ابوصالح سے کی ‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "If one give in charity what equals one date-fruit from the honestly earned money and Allah accepts only the honestly earned money --Allah takes it in His right (hand) and then enlarges its reward for that person (who has given it), as anyone of you brings up his baby horse, so much s that it becomes as big as a mountain
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 491

   صحيح البخاري1410عبد الرحمن بن صخرمن تصدق بعدل تمرة من كسب طيب ولا يقبل الله إلا الطيب وإن الله يتقبلها بيمينه ثم يربيها لصاحبه كما يربي أحدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل
   صحيح مسلم2343عبد الرحمن بن صخرلا يتصدق أحد بتمرة من كسب طيب إلا أخذها الله بيمينه فيربيها كما يربي أحدكم فلوه أو قلوصه حتى تكون مثل الجبل أو أعظم
   صحيح مسلم2342عبد الرحمن بن صخرما تصدق أحد بصدقة من طيب ولا يقبل الله إلا الطيب إلا أخذها الرحمن بيمينه وإن كانت تمرة فتربو في كف الرحمن حتى تكون أعظم من الجبل كما يربي أحدكم فلوه أو فصيله
   جامع الترمذي661عبد الرحمن بن صخرما تصدق أحد بصدقة من طيب ولا يقبل الله إلا الطيب إلا أخذها الرحمن بيمينه وإن كانت تمرة تربو في كف الرحمن حتى تكون أعظم من الجبل كما يربي أحدكم فلوه أو فصيله
   جامع الترمذي662عبد الرحمن بن صخرالله يقبل الصدقة ويأخذها بيمينه فيربيها لأحدكم كما يربي أحدكم مهره حتى إن اللقمة لتصير مثل أحد
   سنن ابن ماجه1842عبد الرحمن بن صخرما تصدق أحد بصدقة من طيب ولا يقبل الله إلا الطيب إلا أخذها الرحمن بيمينه وإن كانت تمرة فتربو في كف الرحمن تبارك و حتى تكون أعظم من الجبل ويربيها له كما يربي أحدكم فلوه أو فصيله
   المعجم الصغير للطبراني404عبد الرحمن بن صخرالله يقبل الصدقات ولا يقبل منها إلا طيبا ويقبلها بيمينه ثم يربيها لصاحبها كما يربي الرجل مهره وفصيله حتى أن اللقمة لتصير مثل أحد
   سنن النسائى الصغرى2526عبد الرحمن بن صخرما تصدق أحد بصدقة من طيب ولا يقبل الله إلا الطيب إلا أخذها الرحمن بيمينه وإن كانت تمرة فتربو في كف الرحمن حتى تكون أعظم من الجبل كما يربي أحدكم فلوه أو فصيله
   مسندالحميدي1188عبد الرحمن بن صخروالذي نفسي بيده ما من عبد يتصدق بصدقة من كسب طيب، ولا يقبل الله إلا طيبا، ولا يصعد إلى السماء إلا طيب، فيضعها في حق، إلا كان كأنما يضعها في يد الرحمن، فيربيها له كما يربي أحدكم فلوه، أو فصيله، حتى إن اللقمة أو التمرة لتأتي يوم القيامة مثل الجبل العظيم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1842  
´صدقہ و خیرات کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو شخص حلال مال سے صدقہ دے، اور اللہ تعالیٰ تو حلال ہی قبول کرتا ہے، اس کے صدقہ کو دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، گرچہ وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ پہاڑ سے بھی بڑا ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسے ہی پالتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1842]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
صدقہ ایک عظیم نیکی ہے۔
صدقہ وہی قبول ہوتا ہے جو حلال کی کمائی سے کیا گیا ہو اور وہ اچھی چیز ہو جس سے صدقہ وصول کرنے والا بہتر فائدہ حاصل کر سکے۔
اللہ کی نظر میں مقدار سے زیادہ خلوص کی اہمیت ہے۔
خلوص سے دی گئی تھوڑی سی چیز بھی بہت زیادہ ثواب کا باعث ہو جاتی ہے قرآن مجید اور صحیح احادث میں اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ، قدم اور چہرہ جیسے جو الفاظ وارد ہیں ان پر ایمان رکھنا چاہیے لیکن ان کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینا درست نہیں، ان کی کیفیت سے اللہ تعالیٰ ہی با خبر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1842   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 661  
´صدقہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اور اللہ پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے ۱؎ تو رحمن اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے ۲؎ اگرچہ وہ ایک کھجور ہی ہو، یہ مال صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یا گائے کے بچے کو پالتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 661]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حرام صدقہ اللہ قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ صدقہ دینے والا حرام کا مالک ہی نہیں ہوتا اس لیے اسے اس میں تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

2؎:
یمین کا ذکر تعظیم کے لیے ہے ورنہ رحمن کے دونوں ہاتھ یمین ہی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 661   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1410  
1410. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال وپاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ سلیمان نے عبد اللہ بن دینار سے روایت کرنے میں عبد الرحمٰن کی متابعت کی ہے ورقاء نے ابن دینار سے اس نے سعید بن یسار سے، اس نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مسلم بن ابی مریم، زید بن اسلم اور سہیل نے ابو صالح سے، انھوں نےحضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1410]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، یعنی ایسا نہیں کہ اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے قوت میں کم ہو۔
جیسے مخلوقات میں ہوا کرتا ہے۔
اہلحدیث اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کی تاویل نہیں کرتے اور ان کو ان کے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں۔
سلیمان کی روایت مذکورہ کو خود مؤلف نے اور ابوعوانہ نے وصل کیا۔
اور ورقاء کی روایت کو امام بیہقی اور ابوبکر شافعی نے اپنے فوائد میں اور مسلم کی روایت کو قاضی یوسف بن یعقوب نے کتاب الزکوٰۃ میں اور زید بن اسلم اور سہیل کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔
قال أهل العلم من أهل السنة والجماعة نؤمن بهذہ الأحادیث ولا نتوهم فیها تشبیها ولا نقول کیف۔
یعنی اہل سنت والجماعت کے جملہ اہل علم کا قول ہے کہ ہم بلاچوں وچراں احادیث پر ایمان لاتے ہیں اور اس میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ہم کیفیت کی بحث میں جاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1410   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1410  
1410. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال وپاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ سلیمان نے عبد اللہ بن دینار سے روایت کرنے میں عبد الرحمٰن کی متابعت کی ہے ورقاء نے ابن دینار سے اس نے سعید بن یسار سے، اس نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مسلم بن ابی مریم، زید بن اسلم اور سہیل نے ابو صالح سے، انھوں نےحضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1410]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ بڑھنے کو گھوڑے کے بچے کی مثال دے کر بیان کیا ہے، کیونکہ گھوڑے کا بچہ بہت جلد بڑھتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سواری کے قابل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح صدقہ بھی انسانی عمل کی پیداوار ہے اور ہر پیداوار کو نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، جب اس پر توجہ دی جائے گی تو خوب پروان چڑھے گی۔
جب صدقہ حلال طیب کمائی سے کیا جائے گا تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ کرم میں رہتا ہے اور روز بروز بڑھتا رہتا ہے حتی کہ ایک کھجور اُحد پہاڑ جتنی ہو جاتی ہے۔
لیکن حرام مال سے صدقہ قبول نہیں کیا جاتا، کیونکہ صدقہ کرنے والا اس کا مالک نہیں ہوتا اور نہ وہ اس مال میں تصرف ہی کرنے کا حق دار ہے۔
اگر حرام مال سے صدقہ قبول کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز بجا آوری اور حکم امتناعی کے درجے میں ہے جبکہ ایسا محال ہے۔
(فتح الباري: 353/3) (2)
بعض حضرات نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں اللہ کی طرف دائیں ہاتھ کو منسوب کیا گیا ہے، اس سے مراد کوئی خاص عضو نہیں۔
لیکن اہل سنت کا یہ مسلک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کی جائے، بلکہ سلف اسے ظاہری معنی ہی پر محمول کرتے ہیں۔
جملہ اہل علم صفات پر مشتمل احادیث پر بلا تاویل ایمان لاتے ہیں اور ان میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ان کی کیفیت ہی کے متعلق بحث کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے امام ترمذی ؒ کے حوالے سے اس موقف کو بیان کیا ہے اور یہ برحق ہے۔
(فتح الباري: 354/3، وجامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 662) (3)
سلیمان کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اسی طرح ورقاء بن عمر کی روایت کو امام بخاری ؒ نے ذکر کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7430)
سلمہ بن ابو مریم کی روایت کو امام ابو یوسف نے اپنی تالیف کتاب الزکاۃ میں بیان کیا ہے۔
اور زید بن اسلم، نیز سہیل کی روایات کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2343(1014)
، وفتح الباري: 355/3)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1410   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.