حدثنا مسدد، حدثنا عبد الله بن داود، حدثنا بدر بن عثمان، حدثنا ابو بكر بن ابي موسى، عن ابي موسى،" ان سائلا سال النبي صلى الله عليه وسلم، فلم يرد عليه شيئا حتى امر بلالا، فاقام الفجر حين انشق الفجر فصلى حين كان الرجل لا يعرف وجه صاحبه، او ان الرجل لا يعرف من إلى جنبه، ثم امر بلالا فاقام الظهر حين زالت الشمس، حتى قال القائل: انتصف النهار وهو اعلم، ثم امر بلالا فاقام العصر والشمس بيضاء مرتفعة، وامر بلالا فاقام المغرب حين غابت الشمس، وامر بلالا فاقام العشاء حين غاب الشفق، فلما كان من الغد صلى الفجر وانصرف، فقلنا: اطلعت الشمس؟ فاقام الظهر في وقت العصر الذي كان قبله، وصلى العصر وقد اصفرت الشمس، او قال امسى، وصلى المغرب قبل ان يغيب الشفق، وصلى العشاء إلى ثلث الليل، ثم قال: اين السائل عن وقت الصلاة؟ الوقت فيما بين هذين"، قال ابو داود: روى سليمان بن موسى، عن عطاء، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، في المغرب بنحو هذا، قال: ثم صلى العشاء، قال بعضهم: إلى ثلث الليل، وقال بعضهم: إلى شطره، وكذلك روى ابن بريدة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى،" أَنَّ سَائِلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا حَتَّى أَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ فَصَلَّى حِينَ كَانَ الرَّجُلُ لَا يَعْرِفُ وَجْهَ صَاحِبِهِ، أَوْ أَنَّ الرَّجُلَ لَا يَعْرِفُ مَنْ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى قَالَ الْقَائِلُ: انْتَصَفَ النَّهَارُ وَهُوَ أَعْلَمُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ صَلَّى الْفَجْرَ وَانْصَرَفَ، فَقُلْنَا: أَطَلَعَتِ الشَّمْسُ؟ فَأَقَامَ الظُّهْرَ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ، وَصَلَّى الْعَصْرَ وَقَدِ اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ، أَوْ قَالَ أَمْسَى، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ الْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْمَغْرِبِ بِنَحْوِ هَذَا، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ، قَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى شَطْرِهِ، وَكَذَلِكَ رَوَى ابْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اوقات نماز کے بارے میں) پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب صبح صادق کی پو پھٹ گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر اس وقت پڑھی جب آدمی اپنے ساتھ والے کا چہرہ (اندھیرے کی وجہ سے) نہیں پہچان سکتا تھا، یا آدمی کے پہلو میں جو شخص ہوتا اسے نہیں پہچان سکتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب آفتاب ڈھل گیا یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا: (ابھی تو) ٹھیک دوپہر ہوئی ہے، اور آپ کو خوب معلوم تھا (کہ زوال ہو چکا ہے)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند و سفید تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت سورج ڈوبنے پر کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غائب ہو گئی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی اور نماز سے فارغ ہوئے، تو ہم لوگ کہنے لگے: کیا سورج نکل آیا؟ پھر ظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت پڑھی جس وقت پہلے روز عصر پڑھی تھی اور عصر اس وقت پڑھی جب سورج زرد ہو گیا یا کہا: شام ہو گئی، اور مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی، اور عشاء اس وقت پڑھی جب تہائی رات گزر گئی، پھر فرمایا: ”کہاں ہے وہ شخص جو نماز کے اوقات پوچھ رہا تھا؟ نماز کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے“۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے، عطاء نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے بارے میں اسی طرح روایت کی ہے، اس میں ہے: ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی“، بعض نے کہا: ”تہائی رات میں پڑھی“، بعض نے کہا: ”آدھی رات میں“، اور اسی طرح یہ حدیث ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ) سے، بریدہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 31 (613)، سنن النسائی/المواقیت 15 (522)، (تحفة الأشراف:9137)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 1 (152)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 1 (667)، مسند احمد (5/249) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پہلے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتانے کے لئے کیا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی فجر اسفار میں نہیں پڑھی اور نہ ہی کبھی بلاوجہ ظہر، عصر اور مغرب میں تاخیر کی۔
Abu Musa reported: A man asked the Prophet ﷺ [about the prayer times] but he did reply to him but he commanded Bilal, who made the announcement for the beginning of the time of the the fair prayer prayer when the dawn broke. He offered (the fair prayer) when a man (due to darkness) could not recognize the face of his companion ; or a man could not know the person who stood by his side. He then commanded Bilal who made announcement for the beginning of the time of the Zuhr prayer when the sun had passed the meridian until some said: Has the noon come ? While he (the Prophet) knew (the time) well. He the commanded Bilal who announced the beginning of the time of the Asr prayer when the sun was white and high. When the sunset he commanded Bilal who announced beginning of the time of the Maghrib prayer. When the twilight disappeared he commanded Bilal who announced the beginning of the Isha prayer. Next day he offered the Fajr prayer and returned until we said: Has the sun rise ? He observed the Zuhr prayer at the time he has previously observed the Asr prayer. He offered the Asr prayer at the time when the sun had become yellow or the evening had come. He offered the Maghrib prayer before the twilight had ended. He observed the Isha prayer when a third of the night had passed. He then asked: Where is the man who was asking me about the time of prayer. (Then replying to him he said): The time (of your prayer) lies within these two limits. Abu Dawud said: Sulaiman bin Musa has narrated this tradition about the time of the Maghrib prayer from Musa from Ata on the authority of Jabir from the Prophet ﷺ. This version adds: He then offered the Isha prayer when a third of the night had passed, as narrated (he said the Isha prayer) when half the night had passed. This tradition has been transmitted by Ibn Buraidah on the authority of his father from the Prophet ﷺ in a similar way.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 395
حافظ عمران ایوب لاہوری حفظ اللہ، فوائد و مسال، سنن ابی داود 395
«وَأَوَّلُ وَقْتِ الْفَجْرِ إِذَا انْشَقَّ الْفَجُرُ وَ آخِرُهُ طُلُوعُ الشَّمْسِ»
اور فجر کے وقت کی ابتداء سپیده صبح ظاہر ہونے سے ہوتی ہے۔ ۱؎ اور اس کا آخری وقت طلوع شمس تک ہے۔ ۲؎ ۱؎ ➊ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «فاقام الفجر حين انشق الفجر والناس لا يكاد يعرف بعضه بعضا»”آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دیتے حتی کہ اندھیرے کی وجہ سے صحابہ ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے۔“[مسلم 614، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب أوقات الصلوات الخمس، نسائي 523، أبو داود 395]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فجر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام ہے اور نماز ادا کرنا جائز و مباح ہے اور ایک وہ فجر جس میں نماز پڑھنا حرام ہے لیکن کھانا مباح ہے۔“ مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ”جس صبح میں کھانا حرام ہے وہ آسمان کےکناروں اور اطراف میں پھیل جاتی ہے اور دوسری بھیڑیے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے (یعنی ستون کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے)۔“[صحيح: الصحيحة 693، حاكم 191/1، ابن خزيمة 356] امام حاکمؒ اور امام ذہبیؒ نے بہی اسے صحیح کہا ہے۔
------------------
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اندھیرے میں ادا فر ماتے تھے
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مومن عورتیں نماز فجر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوتی تھیں پھر نماز کے اختتام پر جب وہ اپنی چادر میں لپیٹے ہوئے واپس جاتیں تو «لا يعرفهن أحد من الغلس»”اند ھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔“ [مؤطا 5/1، كتاب وقوت الصلاة: باب وقوت الصلاة، بخاري 578، مسلم 645، أبو داود 423، نسائي 545، ترمذي 153، ابن ماجة 669، حميدى 174، أحمد 258/6، أبو عوانة 370/1، بيهقي 192/2]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ «والصبح كان النبى يصليها بغلس»”اور صبح کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں ہی پڑھ لیتے تھے۔“ [بخاري: 565، كتاب مواقيت الصلاة: باب وقت العشاء إذا اجتمع الناس أو تأخرو، مسلم 246، أبو داود 397، نسائي 264/1، أحمد 369/3]
مندرجہ ذیل حدیث گذشتہ احادیث کے مخالف معلوم ہوتی ہے:
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اصبـحــوا بــالـصبـح فــانــه أعظم لأجوركم»”نماز فجر صبح کے خوب واضح ہو جانے پر پڑھا کرو، یہ تمہارے اجر میں اضافے کا موجب ہوگی۔“ [صحيح: صحيح أبو داود 409، كتاب الصلاة: باب فى وقت الصبح، أبو داود 424، ترمذي 154، نسائي 272/1، ابن ماجة 672، أحمد 465/3، دارمي 277/1]
ان احادیث میں دو طرح سے تطبیق دی گئی ہے:
➊ (ابن قیمؒ، طحاویؒ) نماز کا آغاز تاریکی میں کیا جائے اور قراءت اتنی لمبی کی جائے کہ صبح خوب روشن ہو جائے۔
➋ (شافعیؒ، احمدؒ) " «اسفرو»“ یا ” «اصبحوا»“ کا معنی یہ ہے کہ فجر واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔ [أعلام الموقعين 290/2، الروضة الندية 203/1، نيل الأوطار 477/1، تحفة الأحوذي 505/1، ترمذى: كتاب الطهارة: باب ما جاء فى الإسفار بالفجر]
واضح رہے کہ صبح کو روشن کر کے نماز فجر ادا کرنا بھی اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے لیکن آخر میں جس عمل پر تادم حیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت اختیار فرمائی ہے وہ اندھیرے میں نماز فجر کی ادائیگی ہے جیسا کہ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی اور پھر دوسری مرتبہ اسے خوب روشن کر کے پڑھا «ونم كانـت صـلاتـه بـعـد ذلك التغليس حتى مات ولم يعد إلى أن يسفر»”پھر وفات تک آپ صلى الله عليه وسلم کی نماز (فجر) اندھیرے میں ہی رہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ کبھی اسے روشن کر کے نہ پڑھا۔“ [حسن: صحيح أبو داود 378، كتاب الصلاة: باب فى المواقيت، أبو داود 394، ابن خزيمة 352، موطا 29، أحمد 120/4، دارمي 1189، بخاري 521، مسلم 610]
بہر حال اس مسئلے میں بھی علماء کا اختلاف موجود ہے۔ (مالکؒ، شافعیؒ، احمدؒ) نماز فجر اندھیرے میں ادا کرنا افضل و مستحب ہے۔ امام اسحاق، امام ابو ثور، امام اوزاعی، امام داود رحمهم الله اجمعین اور اسی طرح حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن زبیر، حضرت انس، حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی یہی موقف منقول ہے۔ (ابوحنیفہؒ، محمدؒ، ابو یوسفؒ) نماز فجر خوب روشن کر کے پڑھنا افضل ہے۔ (ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں «اصبحوا بالصبح» کے الفاظ ہیں)۔ [تحفة الأحوذى 498/1، نيل الأوطار 477/1، اللباب 60/1، القوانين الفقهية ص 45، الشرح الصغير 222] (راجح) اندھیرے میں نماز فجر ادا کرنا ہی افضل ہے کیونکہ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور خلفائے اربعہ اور جمہور صحابہ و تابعین کا بھی یہی موقف ہے۔ یہاں یہ بھی یادر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف افضل عمل پر ہی مداومت اختیار فرماتے تھے۔ [الإعتبار للحازمي ص/268-275] (ابن قدامہؒ) نماز فجر اندھیرے میں ادا کرنا افضل ہے۔ [المغنى 44/1] (ابن حجرؒ) یہی موقف رکھتے ہیں۔ [كما فى تحفة الأحوذى 503/1] (عبدالرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں۔ [أيضا 505/1] ۲؎۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «وقت صلاة الفجر مالم تطلع الشمس» ”نماز فجر کا وقت طلوع آفتاب تک ہے۔“[مسلم 612، أحمد 210/2، أبو داود 396، شرح معاني الآثار 150/1، أبو عوانة 371/1] . . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . . فقہ الحدیث از عمران ایوب لاہوری، جلد اول، ص 312
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 312
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 524
´مغرب کے اخیر وقت کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سائل آیا وہ آپ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جس وقت فجر کی پو پھٹ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی جب سورج ڈھل گیا، اور کہنے والے نے کہا: کیا دوپہر ہو گئی؟ حالانکہ وہ خوب جانتا ہوتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج بلند تھا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی تکبیر کہی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت کہی جب شفق غائب ہو گئی، پھر دوسرے دن آپ نے فجر کو مؤخر کیا جس وقت پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا کہ سورج نکل آیا، پھر ظہر کو کل کے عصر کی وقت کے قریب وقت تک مؤخر کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کو دیر سے پڑھی یہاں تک کہ پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا سورج سرخ ہو گیا ہے، پھر آپ نے مغرب دیر سے پڑھی یہاں تک کہ شفق کے ڈوبنے کا وقت ہو گیا، پھر عشاء کو آپ نے تہائی رات تک مؤخر کیا، پھر فرمایا: ”نماز کا وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے۔“[سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 524]
524 ۔ اردو حاشیہ: ➊”سایہ تسمے کے برابر تھا۔“ یعنی دیواروں کی مشرقی جانب ابھی معمولی سا سایہ آیا تھا، جیسے دیوار کے ساتھ ساتھ تسمہ بچھا دیا جائے، یعنی باریک سی لائن کی طرح، گویا سورج ڈھلتے ہی۔ ➋عصر کی نماز کے وقت یہی تسمہ مثل اول سے زائد تھا، یعنی معمولی سا زائد سایہ جو تسمے کی موٹائی کے برابر تھا۔ ➌مغرب کی نماز کا آخری وقت غروب شفق ہے جیسا کہ گزشتہ احادیث میں صراحت سے ذکر ہے مگر چونکہ مغرب کا وقت مختصر ہوتا ہے، اس لیے عموماً غروب شمس ہی کے ساتھ پڑھ لی جاتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں دوسرے دن بھی غروب شمس ہی کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اس لیے بعض فقہاء نے کہہ دیا کہ مغرب کی نماز کا اول وآخر وقت ایک ہی ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جو پیچھے بیان ہوئی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 524