الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
102. بَابُ: {فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} :
102. باب: (سورۃ البقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں) پس جو شخص تمتع کرے حج کے ساتھ عمرہ کا یعنی حج تمتع کر کے فائدہ اٹھائے تو اس پر ہے جو کچھ میسر ہو قربانی سے اور اگر کسی کو قربانی میسر نہ ہو تو تین دن کے روزے ایام حج میں اور سات دن کے روزے گھر واپس ہونے پر رکھے، یہ پورے دس دن (کے روزے) ہوئے، یہ آسانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد کے پاس نہ رہتے ہوں۔
(102) Chapter. "... And whosoever perfoms the Umra in the months of Hajj before the Hajj..."
حدیث نمبر: 1688
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا النضر، اخبرنا شعبة، حدثنا ابو جمرة، قال:" سالت ابن عباس رضي الله عنهما عن المتعة، فامرني بها، وسالته عن الهدي، فقال: فيها جزور او بقرة او شاة او شرك في دم، قال: وكان ناسا كرهوها فنمت، فرايت في المنام كان إنسانا ينادي حج مبرور ومتعة متقبلة، فاتيت ابن عباس رضي الله عنهما فحدثته، فقال: الله اكبر، سنة ابي القاسم صلى الله عليه وسلم"، قال: وقال آدم ووهب بن جرير وغندر: عن شعبة، عمرة متقبلة وحج مبرور".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ:" سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ الْمُتْعَةِ، فَأَمَرَنِي بِهَا، وَسَأَلْتُهُ عَنِ الْهَدْيِ، فَقَالَ: فِيهَا جَزُورٌ أَوْ بَقَرَةٌ أَوْ شَاةٌ أَوْ شِرْكٌ فِي دَمٍ، قَالَ: وَكَأَنَّ نَاسًا كَرِهُوهَا فَنِمْتُ، فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ إِنْسَانًا يُنَادِي حَجٌّ مَبْرُورٌ وَمُتْعَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ: وَقَالَ آدَمُ وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ وَغُنْدَرٌ: عَنْ شُعْبَةَ، عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ وَحَجٌّ مَبْرُورٌ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہیں نضر بن شمیل نے خبر دی، انہیں شعبہ نے خبر دی، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے) یا کسی قربانی (اونٹ، یا گائے بھینس کی) میں شریک ہو جائے، ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔ پھر میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے یہ حج مبرور ہے اور یہ مقبول تمتع ہے۔ اب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ اکبر! یہ تو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ کہا کہ وہب بن جریر اور غندر نے شعبہ کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے «عمرة متقبلة،‏‏‏‏ وحج مبرور‏» (اس میں عمرہ کا ذکر پہلے ہے یعنی یہ عمرہ مقبول اور حج مبرور ہے)۔

Narrated Abu Jamra: I asked Ibn `Abbas about Hajj-at-Tamattu`. He ordered me to perform it. I asked him about the Hadi (sacrifice). He said, "You have to slaughter a camel, a cow or a sheep, or you may share the Hadi with the others." It seemed that some people disliked it (Hajj-at-Tamattu`). I slept and dreamt as if a person was announcing: "Hajj Mabrur and accepted Mut'ah (Hajj-at-Tamattu`)" I went to Ibn `Abbas and narrated it to him. He said, "Allah is Greater. (That was) the tradition of Abu Al-Qasim (i.e. Prophet). Narrated Shu`ba that the call in the dream was. "An accepted `Umra and Hajj-Mabrur. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 747

   صحيح البخاري1688عبد الله بن عباسسألت ابن عباس عن المتعة فأمرني بها سألته عن الهدي فقال فيها جزور أو بقرة أو شاة أو شرك في دم
   صحيح البخاري1567عبد الله بن عباستمتعت فنهاني ناس
   صحيح مسلم3014عبد الله بن عباسهذه عمرة استمتعنا بها فمن لم يكن عنده الهدي فليحل الحل كله العمرة قد دخلت في الحج إلى يوم القيامة
   صحيح مسلم3015عبد الله بن عباستمتعت سنة أبي القاسم
   جامع الترمذي932عبد الله بن عباسدخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة
   جامع الترمذي824عبد الله بن عباستمتع رسول الله
   سنن أبي داود1790عبد الله بن عباسعمرة استمتعنا بها فمن لم يكن عنده هدي فليحل الحل كله وقد دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة
   سنن النسائى الصغرى2738عبد الله بن عباستمتع النبي
   سنن النسائى الصغرى2817عبد الله بن عباسهذه عمرة استمتعناها فمن لم يكن عنده هدي فليحل الحل كله قد دخلت العمرة في الحج

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 932  
´حج سے متعلق ایک اور باب۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 932]
اردو حاشہ:
1؎:
مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے،
امام رحمہ اللہ نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔
نوٹ:
(سند میں یزید بن ابی زیادضعیف ہیں،
لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 932   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1790  
´حج افراد کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پوری طرح سے حلال ہو جائے، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ (مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1790]
1790. اردو حاشیہ:
➊ امام ابن القیم فرماتے ہیں: امام ابو داؤد کا مذکورہ بالا حدیث کو منکر کہنا صحیح نہیں۔کیونکہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یہ جرح در اصل اگلی حدیث (1791پر ہے۔ (عون المعبود)
➋ چونکہ قبل از اسلام لوگ ایام حج میں عمرہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ممانعت کرتے ہوئے شریعت اسلام کی بات تاکید کے ساتھ نافذ فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1790   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1688  
1688. حضرت ابو جمرہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے تمتع کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اسے عمل میں لانے کا حکم دیا۔ اور میں نے ہدی کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تمتع میں اونٹ، گائے یا بکری کافی ہے اور قربانی میں شرکت بھی ہوسکتی ہے۔ ابو جمرہ کہتے ہیں: لوگوں نے تو اسے مکروہ خیال کیا، چنانچہ میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باآواز بلند پکاررہاہے۔ حج مبروراورتمتع قبول ہے۔ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان سے خواب بیان کیا تو انھوں نے فرمایا: اللہ أکبر! یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آدم، وہب بن جریر اور غندرنے شعبہ سے بایں الفاظ اس حدیث کو بیا ن کیاہے کہ عمرہ قبول اور حج مبرور ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1688]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر اور عثمان غنی ؓ سے تمتع کی کراہیت منقول ہے لیکن ان کا قول احادیث صحیحہ اور خود نص قرآنی کے برخلاف ہے، اس لیے ترک کیا گیا اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔
جب حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کی رائے جو خلفائے راشدین میں سے ہیں حدیث کے خلاف مقبول نہ ہو تو اور مجتہد یا مولوی کس شمار میں ہیں۔
ان کا فتوی حدیث کے برخلاف لچر اور پوچ ہے۔
(وحیدی)
اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ صحیح مرفوع احادیث کے مقابلہ پر قول امام کو ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے پس اللہ کے ہاں جس دن حساب کے لیے کھڑے ہوں گے ان کا کیا جواب ہو سکے گا۔
صد افسوس کہ یہود و نصاریٰ میں تقلید شخصی کی بیماری تھی جس نے مسلمانوں کو بھی پکڑ لیا اور وہ بھی ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبة: 31)
کے مصداق بن گئے یعنی ان لوگوں نے اپنے مولویوں درویشوں کو خدا کے سوا اپنا رب ٹھہرا لیا، یعنی خدا کی طرح ان کی فرمانبرداری کو اپنے لیے لازم قرار دے لیا۔
اسی کا نام تقلید جامد ہے جو سب بیماریوں کی جڑ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1688   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1688  
1688. حضرت ابو جمرہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے تمتع کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اسے عمل میں لانے کا حکم دیا۔ اور میں نے ہدی کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تمتع میں اونٹ، گائے یا بکری کافی ہے اور قربانی میں شرکت بھی ہوسکتی ہے۔ ابو جمرہ کہتے ہیں: لوگوں نے تو اسے مکروہ خیال کیا، چنانچہ میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باآواز بلند پکاررہاہے۔ حج مبروراورتمتع قبول ہے۔ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان سے خواب بیان کیا تو انھوں نے فرمایا: اللہ أکبر! یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آدم، وہب بن جریر اور غندرنے شعبہ سے بایں الفاظ اس حدیث کو بیا ن کیاہے کہ عمرہ قبول اور حج مبرور ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1688]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒنے آیت کریمہ کو عنوان بنایا ہے۔
اس آیت میں کئی ایک مسائل ہیں لیکن امام بخاری نے ہدی اور تمتع کا حکم بیان کیا ہے۔
ایک سفر میں دو عبادتوں حج اور عمرے کو ادا کرنا تمتع ہے، اس لیے ہدی سے مراد تمتع کی ہدی اور قران کی ہدی دونوں ہیں۔
آیت کریمہ میں اگرچہ ہدی تمتع کا ذکر ہے لیکن ہدی قران بھی اس سے مراد لی جا سکتی ہے۔
حج تمتع میں عمرے کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے اور بیوی سے ہم بستری کرنا بھی جائز ہوتا ہے۔
اور حج قران میں عمرے کو حج کے ساتھ جمع کرنا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک ہدی سے مراد بکری ہے۔
اس میں اشتراک نہیں ہو سکتا، البتہ اونٹ اور گائے میں حصہ رکھا جا سکتا ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ اگرچہ اس کے قائل نہیں تھے لیکن انہوں نے رجوع کر لیا تھا، چنانچہ شعبی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا:
آیا اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ان میں سات جانیں ہوتی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے کافی قرار دیا ہے۔
انہوں نے فرمایا:
واقعی ایسا ہے؟ میں نے کہا:
ہاں۔
انہوں نے فرمایا:
مجھے اس کا علم نہیں۔
(مسند أحمد: 409/5 وإسنادہ ضعیف) (3)
آدم کی روایت کو امام بخاری نے، وہب بن جریر کے طریق کو امام بیہقی ؒ نے اور غندر کی روایت کو امام احمد نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 676/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1688   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.