الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
33. بَابُ الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الإِنْسَانِ:
33. باب: جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
(33) Chapter. What is said regarding the water with which human hair has been washed.
حدیث نمبر: 171
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، قال: اخبرنا سعيد بن سليمان، قال: حدثنا عباد، عن ابن عون، عن ابن سيرين، عن انس،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما حلق راسه كان ابو طلحة اول من اخذ من شعره".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَلَقَ رَأْسَهُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَوَّلَ مَنْ أَخَذَ مِنْ شَعَرِهِ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی انہوں نے، کہا ہم سے عباد نے ابن عون کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابن سیرین سے، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع میں) جب سر کے بال منڈوائے تو سب سے پہلے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال لیے تھے۔

Narrated Anas: When Allah's Apostle got his head shaved, Abu- Talha was the first to take some of his hair.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 172

   صحيح البخاري171أنس بن مالكلما حلق رأسه كان أبو طلحة أول من أخذ من شعره
   صحيح مسلم3154أنس بن مالكرمى جمرة العقبة انصرف إلى البدن فنحرها الحجام جالس وقال بيده عن رأسه حلق شقه الأيمن فقسمه فيمن يليه ثم قال احلق الشق الآخر
   صحيح مسلم3155أنس بن مالكلما رمى رسول الله الجمرة نحر نسكه حلق ناول الحالق شقه الأيمن فحلقه ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه ثم ناوله الشق الأيسر فقال احلق فحلقه فأعطاه أبا طلحة فقال اقسمه بين الناس
   صحيح مسلم6043أنس بن مالكالحلاق يحلقه وأطاف به أصحابه فما يريدون أن تقع شعرة إلا في يد رجل
   صحيح مسلم3152أنس بن مالكأتى منى فأتى الجمرة فرماها أتى منزله بمنى ونحر ثم قال للحلاق خذ وأشار إلى جانبه الأيمن ثم الأيسر ثم جعل يعطيه الناس
   سنن أبي داود1981أنس بن مالكها هنا أبو طلحة فدفعه إلى أبي طلحة
   مسندالحميدي1254أنس بن مالكأن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رمى الجمرة، ونحر نسكه، ناول الحالق شقه الأيمن، فحلقه، ثم ناوله رسول الله صلى الله عليه وسلم شقه الأيسر، فحلقه، ثم ناوله أبا طلحة وأمره أن يقسمه بين الناس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 171  
´جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟`
«. . . قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَلَقَ رَأْسَهُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَوَّلَ مَنْ أَخَذَ مِنْ شَعَرِهِ " . . . .»
. . . ہم سے عباد نے ابن عون کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابن سیرین سے، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع میں) جب سر کے بال منڈوائے تو سب سے پہلے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال لیے تھے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الإِنْسَانِ:: 171]

تشریح:
سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس حدیث سے انسان کے بالوں کی پاکی اور طہارت بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو تبرک کے لیے لوگوں میں تقسیم فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 171   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 171  
171. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جب نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر منڈوایا تو سب سے پہلے حضرت ابوطلحہ ؓ نے آپ کے موئے مبارک لیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:171]
حدیث حاشیہ:
سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس حدیث سے انسان کے بالوں کی پاکی اور طہارت بیان کرنا مقصود ہے۔
پھر ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو تبرک کے لیے لوگوں میں تقسیم فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1981  
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ابوطلحہ یہاں ہیں؟ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1981]
1981. اردو حاشیہ:
➊ حجامت کے مسئلے میں بھی شرعی ہدایت یہی ہے کہ پہلے دائیں جانب سے بال کاٹے جائیں۔
➋ رسول اللہ ﷺ کےبال مبارک بال تھے جو صحابہ میں بطور تبرک متداول رہے۔ ان سے شفا بھی حاصل کی جاتی تھی۔ اور یہ صفت صرف اور صرف آپ ﷺ ہی کے بالوں کوحاصل رہی ہے۔ آج کل کئی مقامات پر سوئے مبارک بیان کیے جاتے ہیں چاہے کہ ان کی موثوق سند پیش کی جائے۔ مگر فی الواقع اس کا پیش کیا جانا ناممکن ہے۔
➌ حصول تبرک کوئی قیاس اور من پسند مسئلہ نہیں اس کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ مبارک اشیا مبارک مقامات اور مبارک اوقات وہی ہیں جو احادیث صحیحہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو تبرک کےمعاملے میں متنبہ اور حساس ہونا چاہے۔ یعنی جس بزرگ سمجھ لیا اس کی ہر چیز کو متبرک سمجھنا شروع کردیا یہ یکسر غلط ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے بڑھ کر امتیوں میں کون بزرگ ہو سکتاہے؟کوئی نہیں۔ لیکن صحابہ نے صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے بالوں وغیرہ کو متبرک سمجھا اور آپ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق تک کی کسی چیز کومتبرک نہیں سمجھا۔ اور فہم دین صحابہ ہی کا معتبر ہے نہ کہ آج کل کے شرک وبدعت زدہ لوگوں کا۔
➍ رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک کی اہمیت کا اندازہ جلیل القدر مخضرم تابعی امام عبیدہ بن عمرو سلمان ﷫ کے اس قول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو امام المجدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری ﷫ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: «لان تكون عندي شعرة منه احب الي من الدنيا ومافيها» (صحيح البخاري، الوضوء، حدیث170) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک میرے پاس ہو تو یہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ اکبرکبیرا-ہم ان پاکیزہ جذبات واحساسات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، نہ ان کی قدرو منزلت کااندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ یہ معیار کمال درجے کا معیار محبت ہے۔ یا اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں بھی ایسی ہی کمال درجے کی محبت عطا فرما۔آمین۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس خوبصورت قول پر جو عمدہ تعلیق لگائی ہے۔ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے(تفصیل کےلیے دیکھیئے: (سیراعلام النبلاء جلد4 ص42، 43]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1981   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:171  
171. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جب نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر منڈوایا تو سب سے پہلے حضرت ابوطلحہ ؓ نے آپ کے موئے مبارک لیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:171]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ انسان کے بال بدن سے الگ ہونے کے بعد بھی پاک ہیں، اگر پانی میں گرجائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا تھا کہ ان سے سوت اور رسیاں بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
احناف کے ہاں بھی بال پاک تو ہیں لیکن ان کی حرمت وتعظیم کی بنا پر ان کے استعمال کی اجازت نہیں۔
بالوں کی طہارت کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اب ایک مرفوع روایت پیش کی ہے۔
جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے تبرکات کا ذکر ہے۔
استدلال بایں طور ہے کہ اگر بال ناپاک ہوتے تو اسے بطور تبرک کیوں رکھا جاتا، لیکن اس استدلال پر اشکال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے عام انسانی بالوں کی طہارت کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ دعویٰ عام اوردلیل خاص ہے۔
اس بنا پر یہ تقریب ناتمام ہے۔
لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مذاقِ استدلال کے اعتبار سے یہ درست ہے کیونکہ یہاں دو باتیں ہیں، ایک بالوں کی طہارت اور دوسرا ان سے تبرک حاصل کرنا۔
اب یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی طہارت، آپ کی خصوصیت ہے، اس خصوصیت کے لیے دلیل درکار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے وقت بھی اس خصوصیت کا ذکر نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کے بال جسم سے الگ ہو کر پاک رہتے ہیں۔
رہا تبرک کا معاملہ تو مخصوص تبرک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص رہے گا۔

مدعیان تدبر کی طرف سے احادیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا ہے:
امام صاحب نے جو باب باندھا تھا وہ اس پانی کے بارے میں تھا جس سے بال دھوئے جائیں یا جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہو، روایتوں میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
(تدبر حدیث: 274/1)
پہلی بات تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان اشیاء سے متعلق جو وقتاً فوقتاً پانی میں گرتی رہتی ہیں شرعی حکم بتانا ہے کہ ایسی چیزیں پانی میں گرا کر اسے نجس کردیتی ہیں یا نہیں؟ یہاں پانی کا ذکرمحل وقوع کے اعتبار سے تبعاً آگیا ہے، پانی کے مسائل بیان کرنا اصل مقصود نہیں کیونکہ پانی سے متعلقہ مسائل آئندہ بیان کریں گے۔
چونکہ عام طور پر یہ چیزیں پانی میں گرتی ہیں اس لیے یہاں پانی کا ذکر کر دیا ورنہ یہ چیزیں پانی کی طرح کھانے کی چیزوں یا دودھ وغیرہ میں بھی گرتی رہتی ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں بالوں کامسئلہ بیان کیا ہے، خواہ وہ پانی میں گریں یاکھانے میں۔
دوسری بات یہ ہے کہ پانی میں بالوں کے گرنے یا ڈالنے کا ذکر دوسری روایات میں موجود ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا کیونکہ ان کے پاس ایک خوبصورت چاندی کی ڈبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک محفوظ تھے۔
آپ انھیں پانی میں ڈال کر ہلاتیں پھر وہ پانی نظر بد یا بخار والے مریض کو پلایا جاتا۔
میں نے اس وقت ڈبیہ میں سرخ رنگ کے موئے مبارک دیکھے تھے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5896)
باقی رہا کتے کا پانی میں منہ ڈالنے کا معاملہ، تو اس پرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب در باب کے طور پرآئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےاور اس کے متعلق روایات بھی ذکر کی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کے متعلق اس طرح کا والہانہ اظہار عقیدت حضرات تدبر کی مزعومہ عقلیت پسندی کے خلاف تھا، اس لیے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرجذباتی اور جوشیلے ہونے کی پھبتی کسی ہے کیونکہ انھوں نے آپ کے بالوں کو محفوظ کیا تھا۔
اور جن روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں بال تقسیم کرنے پر مامور کیا تھا اور انھیں موئے مبارک اس مقصد کے لیے عطا فرمائے تھے وہ تمام روایات ان کے نزدیک محل نظر ہیں۔
(تدبرحدیث: 273/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے یہ حسن عقیدت تنہا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تھی بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی قسم کے جذبات تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ حجام آپ کے سرمبارک کو صاف کررہا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے گرد تھے، وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال زمین پر گرنے کے بجائے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔
(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6043(2325)
بلکہ عروہ بن مسعود کا بیان اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے کیونکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت وعقیدت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے ہیں تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زمین پر گرنے والے پانی کو لینے دوڑ پڑتے ہیں جب آپ لعاب دہن تھوکتے ہیں توجلدی سے اسے اپنے ہاتھوں اورچہروں پرمل لیتے ہیں اور جب کبھی آپ کا موئے مبارک گرتا ہے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731،2732، و مسند احمد: 324/4)
اس مسئلہ کی مزید تفصیل كتاب اللباس میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 171   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.