الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
7. بَابُ : اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ
7. باب: بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔
حدیث نمبر: 48
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن المنذر ، حدثنا محمد بن فضيل . ح وحدثنا حوثرة بن محمد ، حدثنا محمد بن بشر ، قالا: حدثنا حجاج بن دينار ، عن ابي غالب ، عن ابي امامة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا اوتوا الجدل"، ثم تلا هذه الآية بل هم قوم خصمون سورة الزخرف آية 58 الآية.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ"، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ سورة الزخرف آية 58 الْآيَةَ.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پر رہنے کے بعد گمراہ اس وقت ہوئی جب وہ «جدال» (بحث اور جھگڑے) میں مبتلا ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: «بل هم قوم خصمون» بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں (سورة الزخرف: 58) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/التفسیر 44 (3253)، (تحفة الأشراف: 4936)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/252، 256) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: پوری آیت یوں ہے: «ولما ضرب ابن مريم مثلا إذا قومك منه يصدون (57) وقالوا أآلهتنا خير أم هو ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون» (سورة الزخرف: 58) اور جب عیسی ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ کی قوم اس پر خوشی سے چیخنے چلانے لگی ہے، اور کہتی ہے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ؟ ان کا آپ سے یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ وہ لوگ جھگڑالو ہیں ہی۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابن الزبعری نے رسول اللہ ﷺ سے بحث و مجادلہ کیا تھا، اور اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:  «إنكم وما تعبدون من دون الله حصب جهنم» تم اور تمہارے معبودان باطل جہنم کا ایندھن ہیں (سورة الأنبياء: 98)، تو ابن الزبعری نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں آپ سے بحث و حجت میں جیت گیا، قسم ہے رب کعبہ کی! بھلا دیکھو تو نصاری مسیح کو، اور یہود عزیر کو پوجتے ہیں، اور اسی طرح بنی ملیح فرشتوں کو، سو اگر یہ لوگ جہنم میں ہیں تو چلو ہم بھی راضی ہیں کہ ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ رہیں، سو کفار فجار اس پر بہت ہنسے اور قہقہے لگانے لگے، تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری:  «إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون» بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے، وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے (سورة الأنبياء: 101)۔ حقیقت میں ابن الزبعری کا اعتراض حماقت سے بھرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے  «وما تعبدون»  فرمایا ہے، یعنی جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور لفظ «ما» عربی میں غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے، ملائکہ اور انبیاء ذوی العقول ہیں، اس لئے وہ اس میں کیوں کر داخل ہوں گے، اور باوجود اہل لسان ہونے کے اس کو اس طرف خیال نہ ہوا۔ «جدال» کہتے ہیں حق کے مقابلے میں باطل اور جھوٹی باتیں بنانے کو اور اسی قبیل سے ہے قیاس اور رائے کو دلیل و حجت کے آگے پیش کرنا، یا کسی امام اور عالم کا قول حدیث صحیح کے مقابل میں پیش کرنا، خلاصہ کلام یہ کہ حق کے رد و ابطال میں جو بات بھی پیش کی جائے گی وہ جدال ہے، جس کی قرآن کریم میں بکثرت مذمت وارد ہوئی ہے۔

It was narrated that Abu Umamah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'No people go astray after having followed right guidance, but those who indulge in disputes.' Then he recited the Verse: "Nay! But they are a quarrelsome people.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
   جامع الترمذي3253صدي بن عجلانما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا أوتوا الجدل ثم تلا رسول الله هذه الآية ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون
   سنن ابن ماجه48صدي بن عجلانما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا أوتوا الجدل ثم تلا هذه الآية بل هم قوم خصمون
   مشكوة المصابيح180صدي بن عجلانما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا اوتوا الجدل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 180  
´جھگڑا کس قدر بری چیز ہے`
«. . . وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ» . ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: (مَا ضَرَبُوهُ - [64] - لَكَ إِلَّا جدلا بل هم قوم خصمون) ‏‏‏‏رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہدایت پانے کے بعد کوئی قوم گمراہ نہیں ہوئی، مگر وہ قوم جس کو جدال و جھگڑا دیا گیا ہو۔ (یعنی جھگڑا لو قوم ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہو جاتی ہے۔) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تائید کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی «ماضربوه لك الا جدلا» یہ لوگ آپ سے جھگڑے کی مثال بیان کرتے ہیں اس لیے کہ یہ خود ہی جھگڑالو لوگ ہیں۔ اس حدیث کو احمد و ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 180]

تحقیق الحدیث
اس کی سند حسن ہے۔
اسے حاکم [448/2] اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔
◄ اس روای میں دو راوی حجاج بن دینار اور ابوغالب جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث راوی تھے۔

فقہ الحدیث:
➊ حق کے مقابلے میں مجادلہ کرنا کفار قریش کا طریقہ ہے۔
➋ قرآن و حدیث کے مقابلے میں الزامی اعتراض مردود ہوتا ہے۔
➌ خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔
➍ کفار و مشرکین بھی اپنے باطل عقائد کو ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان کے دلائل باطل ہوتے ہیں۔
➎ اہل حق کا آپس میں ایک دوسرے سے مناظرے کرنا غلط ہے، لیکن یاد رہے کہ اگر اہل باطل سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو عقائد و اصول پر مناظرہ کرنا چاہئیے نہ کہ معمولی معمولی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے رہیں۔
➏ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تفسیر، شرح اور بیان ہیں۔
➐ قرآن و حدیث کو ایک دوسرے سے ٹکرانا گمراہی ہے۔
➑ دین حق میں شبہے پیدا کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے۔ ديكهئے: [مشكوٰة المصابيح مع فوائد غزنويه ج 1ص 232 تحت ح 171]
➒ شرک و کفر کرنے والے لوگ اللہ کے سوا دو قسم کے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں:
اول:
جو اپنی عبادت پر راضی تھے، مشرکین و کفار کے ساتھ یہ معبودان باطلہ بھی جہنم میں ہوں گے۔
دوم:
وہ جو اپنی عبادت پر راضی نہیں تھے بلکہ شرک و کفر کے مخالف تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ جہنم اور عذاب سے بچائے گا اور یہ اپنی عبادت کرنے والوں سے بری ہوں گے۔ مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں سے بری ہوں گے جو انہیں اللہ کا بیٹا اور رب سمجھتے تھے۔
➓ تمام کفار و مشرکین اسی کوشش میں سرگرم ہیں کہ دین حق کو مٹا دیں جبکہ حق کے مقابلے میں یہی لوگ ذلیل و رسوا ہوں گے اور دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 180   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث48  
´بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔`
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پر رہنے کے بعد گمراہ اس وقت ہوئی جب وہ «جدال» (بحث اور جھگڑے) میں مبتلا ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: «بل هم قوم خصمون» بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں (سورة الزخرف: 58) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 48]
اردو حاشہ:
(1)
حق کے مقابلے میں باطل اور جھوٹی گفتگو کرنے کا نام جَدَل ہے۔

(2)
اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام ؑ کو اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ حق و باطل میں امتیاز فرما دیں، پھر کچھ لوگ ایمان لے آتے ہیں کچھ حق واضح ہو جانے کے باوجود باطل پر اڑے رہتے ہیں، پھر مومن کہلانے والوں میں سے بھی بعض پختہ اور کامل ایمان کے حامل ہوتے ہیں، بعض لوگ کمزور ایمان والے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ غلط راستہ اختیار کر لیں گے، اس لیے ایمان والوں کو استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ایمان پر خاتمہ ہو۔

(3)
بعض اوقات پختہ ایمان والوں کی آئندہ نسل کمزور ایمان والی یا ایمان سے محروم بھی ہو سکتی ہے۔
یہ لوگ دنیوی مفاد کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات پر کما حقہ عمل کرنے کی ہمت بھی نہیں پاتے، چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی غلط روی کے جواز کے لیے کسی آیت یا حدیث سے الٹا سیدھا استدلال کر کے اپنے ضمیر کو بھی مطمئن کر لیں اور ناقدین کو بھی خاموش کر دیں لیکن چونکہ ان کے دلائل کمزور ہوتے ہیں، لہذا بحث و مباحثہ کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور ان کی نفس پرستی کی وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔

(4)
اختلافات کے خاتمے کا فطری اور درست طریقہ یہ ہے کہ بحث و مباحثہ اخلاص کے ساتھ حق کی تلاش کے جذبہ سے کیا جائے۔
جب ایک موقف صحیح ثابت ہو جائے تو اسے تسلیم کر لیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 48   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3253  
´سورۃ الزخرف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد جب گمراہ ہو جاتی ہے تو جھگڑا لو اور مناظرہ باز ہو جاتی ہے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی «ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون» یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں (الزخرف: ۵۸)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3253]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں (الزخرف: 58)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3253   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.