الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
10. باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
Chapter: Regarding the Divine Decree (Qadr)
حدیث نمبر: 79
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد الطنافسي , قالا: حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن ربيعة بن عثمان ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" المؤمن القوي خير واحب إلى الله من المؤمن الضعيف، وفي كل خير احرص على ما ينفعك، واستعن بالله، ولا تعجز، فإن اصابك شيء، فلا تقل: لو اني فعلت كذا، وكذا، ولكن قل: قدر الله، وما شاء فعل، فإن لو تفتح عمل الشيطان".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنِ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَلَا تَعْجَزْ، فَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ: لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَذَا، وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ: قَدَّرَ اللَّهُ، وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ۱؎، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ اگر مگر شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/القدر 8 (2664)، سنن النسائی/ في الیوم واللیلة (625)، (تحفة الأشراف: 13965)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 366، 37)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 4168) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کیونکہ وہ عبادت کی ادائیگی اور فرائض و سنن، اور دعوت و تبلیغ اور معاشرتی خدمت وغیرہ امور کے قیام میں کمزور مومن سے زیادہ مستعد اور توانا ہوتا ہے۔ ۲؎: یعنی اگر مگر سے شیطان کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'The strong believer is better and more beloved to Allah than the weak believer, although both are good. Strive for that which will benefit you, seek the help of Allah, and do not feel helpless. If anything befalls you, do not say, "if only I had done such and such" rather say "Qaddara Allahu wa ma sha'a fa'ala (Allah has decreed and whatever he wills, He does)." For (saying) 'If' opens (the door) to the deeds of Satan.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح مسلم6774عبد الرحمن بن صخرالمؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير احرص على ما ينفعك استعن بالله ولا تعجز وإن أصابك شيء لا تقل لو أني فعلت كان كذا وكذا ولكن قل قدر الله وما شاء فعل فإن لو تفتح عمل الشيطان
   سنن ابن ماجه4168عبد الرحمن بن صخرالمؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير احرص على ما ينفعك لا تعجز فإن غلبك أمر فقل قدر الله وما شاء فعل إياك واللو فإن اللو تفتح عمل الشيطان
   سنن ابن ماجه79عبد الرحمن بن صخرالمؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير احرص على ما ينفعك استعن بالله ولا تعجز فإن أصابك شيء فلا تقل لو أني فعلت كذا وكذا ولكن قل قدر الله وما شاء فعل إن لو تفتح عمل الشيطان
   بلوغ المرام1321عبد الرحمن بن صخرالمؤمن القوي خير واحب إلى الله من المؤمن الضعيف
   مسندالحميدي1147عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1321  
جدوجہد کی ترغیب اور نقصان پہنچنے پر تقدیر پر قناعت کی تلقین
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:‏‏‏‏المؤمن القوي خير واحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير احرص على ما ينفعك واستعن بالله ولا تعجز وإن اصابك شيء فلا تقل لو اني فعلت (كذا) كان كذا وكذا ولكن قل قدر الله وما شاء فعل فإن لو تفتح عمل الشيطان اخرجه مسلم.»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللّٰہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں بھلائی موجود ہے جو چیز تجھے نفع دے اس کی حرص کر اور اللّٰہ سے مدد مانگ اور عاجز نہ ہو اور اگر تجھے کوئی (نقصان دہ) چیز پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو اس طرح اور اس طرح ہو جاتا بلکہ یہ کہہ کہ اللہ نے قسمت میں (اسی طرح) لکھا اور جو اس نے چاہا کر دیا کیونکہ «لَو» (اگر) کا لفظ شیطان کے کام کھول دیتا ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1321]
تخریج:
[مسلم القدر/34]،
[تحفته الاشراف 159/01]، [219/01]، [214/10]

مفردات:
«احْرِصَ - حَرَصَ يَحْرِصُ» (ضرب یضرب) سے امر ہے۔ بعض اوقات باب «سمع يسمع» سے بھی آتا ہے۔
«وَلاَ تَعْجَزْ» جیم کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ۔

فوائد:
قوی مومن ضعیف مومن سے بہتر ہے:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ محبوب ہے اگرچہ کمزور مومن بھی خیر سے خالی نہیں کیونکہ وہ صاحب ایمان ہے اور ایمان بہت بڑی خیر ہے اس کے علاوہ اس میں امانت، علم، تقویٰ اور دوسرے وصف ہو سکتے ہیں۔ البتہ قوی مومن زیادہ قوت کے ساتھ دین پر عمل کر سکتا ہے۔
امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، صلوۃ، صیام، حج اور اللّٰہ تعالیٰ اور بندوں کے دوسرے حقوق جس طرح قوی مومن ادا کر سکتا ہے کمزور ادا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کمزور کی کارکردگی بھی کمزور ہو گی اللّٰہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی میزبان لڑکی کا قول نقل فرمایا:
«إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ» [28-القصص:26 ]
بہترین شخص جسے تم مزدور رکھو قوی اور امانت والا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کا مطالبہ بھی یہ ہے کہ اس کی دی ہوئی شریعت پر پوری طاقت سے عمل کیا جائے بنی اسرائیل کو حکم دیا:
«خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ» [2-البقرة:63 ]
ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اسے قوت کے ساتھ پکڑو۔
اور یحییٰ علیہ السلام سے فرمایا:
«يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ» [19-مريم:12 ]
اے یحییٰ! کتاب کو قوت سے پکڑ۔
قوت سے کیا مراد ہے؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قوت ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے مثلاً جنگ میں قوت کا دارومدار دل کی شجاعت اور جنگی تجربہ پر ہے۔ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت قوت سے مراد یہ ہے کہ اسے کتاب و سنت کا مضبوط علم حاصل ہو، قوت فیصلہ مضبوط ہو اور اپنے احکام نافذ کرنے کی قدرت ہو۔
قوت کے ساتھ امانت کا ہونا بھی ضروری ہے، مگر یہ دونوں وصف ایک جگہ بہت کم پائے جاتے ہیں۔ ذمہ داری سونپتے وقت کسی شخص میں دونوں وصف مل جائیں تو کیا ہی کہنا ورنہ ذمہ داری کی نوعیت کے مطابق قوت یا امانت میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے گی۔ مثلاً جنگ کی امارت کے لیے قوت کو خاص طور پر مدنظر رکھا جائے گا اور مالی ذمہ داریوں کے لیے امانت کو۔ البتہ جب لوگوں سے زکوٰۃ اور دوسرے اموال وصول کرنے کا معاملہ ہو تو قوت و امانت دونوں ضروری ہیں۔
وقتی طور پر قوت و امانت میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا ایک مجبوری ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کے احوال کی اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیئے تاکہ صاحبِ قوت لوگ امانت کے وصف سے متصف ہو جائیں اور صاحب امانت لوگوں کا ضعف دور ہو جائے اور وہ قوی بن جائیں۔ [السياسة الشرعيه لابن تيميه]
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 248   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث79  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ۱؎، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ اگر مگر شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 79]
اردو حاشہ:
(1)
جسمانی، ذہنی اور مالی قوت اللہ کی ایک نعمت ہے، اس نعمت کو نیکی کے کاموں میں استعمال کرنا چاہیے۔

(2)
جو شخص کسی قسم کی قوت میں دوسروں سے کم تر ہے وہ بھی خیر سے محروم نہیں۔
ممکن ہے کہ ایک قوت کے لحاظ سے کمزور شخص، دوسری قوت کے لحاظ سے قوی ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے کسی کو جو صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہو، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا اور اسے نیکی کے حصول و فروغ اور برائی سے بچنے اور بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

(3)
دنیوی فوائد کے حصول کی کوشش کرنا توکل کے منافی نہیں، البتہ اس کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنا، یا دنیوی فوائد کی حرص کو ذہن پر اس طرح سوار کر لینا کہ زیادہ توجہ ادھر ہی رہے، درست نہیں ہے۔

(4)
شریعت میں یہ چیز مطلوب نہیں کہ کوئی شخص خود محنت کر کے کمانے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے دوسروں پر بوجھ بن کر بیٹھ جائے۔
اس رویہ کو توکل قرار دینا غلط ہے، البتہ جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے روزی نہیں کما سکتا، وہ معذور ہے اور مسلمان معاشرے کا فرض ہے کہ اس کی ضروریات پوری کرے۔

(5)
کوئی کام کرنے سے پہلے غوروفکر کرنا چاہیے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور اور مشورہ کر لینا چاہیے، لیکن اگر بعد میں کسی وجہ سے نتائج توقع کے خلاف نکلیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں اور سمجھ لیں کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہو گی، اگر مگر کہنے سے تقدیر الہی کے انکار کا پہلو نکلتا ہے اور یہ شیطانی فعل ہے کہ آدمی کو خلاف توقع نتیجہ نکلنے پر حسرت دلواتا ہے اور تقدیر کا منکر بناتا ہے۔

(6)
کسی کام کا نتیجہ خلاف توقع نکلنے کے بعد جب اس کی تلافی ممکن نہ ہو، تو منفی سوچوں میں گھر جانا، نہ صرف بے فائدہ بلکہ نقصان دہ ہے۔
بعد میں یہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں:
کاش میں نے فلاں کام یوں کر لیا ہوتا، کاش میں فلاں کام اس طرح نہ کرتا۔
البتہ اپنے کام کا تنقیدی جائزہ لینا درست ہے تاکہ جو غلطی ہوئی ہے، دوبارہ اس سے بچا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 79   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1321  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ محبوب ہے ضعیف و کمزور مومن کی نسبت سے۔ ہر مومن میں بھلائی اور اچھائی ہے۔ جو چیز تیرے لئے منافع بخش ہے اس کی حرص و لالچ کر۔ مدد صرف اللہ سے طلب کر، عاجز و درماندہ بن کر نہ بیٹھ اور اگر تجھے چیز حاصل ہو تو اس طرح مت کہو کہ اگر فلاں کام میں نے اس طرح سر انجام دیا ہوتا تو اس سے مجھے یہ اور یہ فوائد حاصل ہوتے۔ بلکہ اس طرح کہا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر میں جو چاہا۔ کیونکہ لفظ «لو» (یعنی اگر) شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1321»
تخریج:
«أخرجه مسلم، القدر، باب في الأمر بالقوة وترك العجز...، حديث:2664.»
تشریح:
1. اس حدیث میں لفظ لو (جس کے معنی اگر کے ہوتے ہیں) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے جبکہ بعض احادیث سے اس کے استعمال کی گنجائش نظر آتی ہے‘ لہٰذا یہ ممانعت تنزیہی ہے‘ تحریمی نہیں۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔
مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر لو کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اگر میں فلاں کام اس طرح انجام دیتا تو یقینا اس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوتا تو اس طور پر لفظ لَو کااستعمال حرام ہے۔
اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہی ہو کر رہنا تھا جو ہو چکا ہے اور ہوگا بھی وہی جو تقدیر الٰہی میں ہے تو ایسی صورت میں لفظ لَوْ کا استعمال درست ہوگا‘ ممنوع نہیں ہوگا۔
2. اسی طرح اگر دین اسلام کی اتباع نہ کرنے یا کم اجر والا کام کرنے اور زیادہ اجر والا کام رہ جانے پر تاسف اور اظہار افسوس کی صورت میں لَوْکہتا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔
نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: «‏‏‏‏لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْھَدْيَ» اگر مجھے اس بات کا پہلے پتہ چل جاتا جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا۔
(صحیح البخاري، التمني، حدیث: ۷۲۲۹) یعنی عمرہ کر کے حلال ہوجاتا پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام نئے سرے سے باندھتا، یعنی حج تمتع کرتا۔
3. اسی طرح اس حدیث سے پتہ چلا کہ قوی و مضبوط مومن کو اللہ تعالیٰ‘ ضعیف و کمزور کے مقابلے میں محبوب رکھتا ہے کیونکہ جہاد میں قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔
تندرست و صحت مند آدمی ‘بیمار و کمزور آدمی کے مقابلے میں دین کی خدمت زیادہ کر سکتا ہے اور عبادت میں زیادہ محنت کر سکتا ہے‘ نیز غرباء و مساکین ‘ ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی خدمت بھی زیادہ کر سکتا ہے۔
لیکن قوت و ہمت کے باوجود انسان اسی وقت کچھ کر سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو‘ اس لیے اس میں حکم ہے کہ بہرنوع اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔
وہی تمھارا کارساز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1321   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.