الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
The Book of Penalty For Hunting
14. بَابُ الاِغْتِسَالِ لِلْمُحْرِمِ:
14. باب: محرم کو غسل کرنا کیسا ہے؟
(14) Chapter. The taking of a bath by a Muhrim.
حدیث نمبر: Q1840
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عباس رضي الله عنه: يدخل المحرم الحمام، ولم ير ابن عمر، وعائشة بالحك باسا.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَدْخُلُ الْمُحْرِمُ الْحَمَّامَ، وَلَمْ يَرَ ابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةُ بِالْحَكِّ بَأْسًا.
‏‏‏‏ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ محرم (غسل کے لیے) حمام میں جا سکتا ہے۔ ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم بدن کو کھجانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

حدیث نمبر: 1840
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن زيد بن اسلم، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين، عن ابيه، ان عبد الله بن العباس، والمسور بن مخرمة اختلفا بالابواء، فقال عبد الله بن عباس: يغسل المحرم راسه؟ وقال المسور: لا يغسل المحرم راسه، فارسلني عبد الله بن العباس إلى ابي ايوب الانصاري فوجدته يغتسل بين القرنين وهو يستر بثوب، فسلمت عليه، فقال: من هذا؟ فقلت: انا عبد الله بن حنين، ارسلني إليك عبد الله بن العباس اسالك،" كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغسل راسه وهو محرم؟ فوضع ابو ايوب يده على الثوب، فطاطاه حتى بدا لي راسه، ثم قال لإنسان يصب عليه اصبب: فصب على راسه، ثم حرك راسه بيديه فاقبل بهما وادبر، وقال: هكذا رايته صلى الله عليه وسلم يفعل.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْعَبَّاسِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ اخْتَلَفَا بِالْأَبْوَاءِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ؟ وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ وَهُوَ يُسْتَرُ بِثَوْبٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ، أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ أَسْأَلُكَ،" كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ، فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَيْهِ اصْبُبْ: فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، وَقَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں ابراہیم بن عبداللہ بن حنین نے، انہیں ان کے والد نے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کا مقام ابواء میں (ایک مسئلہ پر) اختلاف ہوا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے ابوایوب رضی اللہ عنہ کے یہاں (مسئلہ پوچھنے کے لیے) بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کنوئیں کے دو لکڑیوں کے بیچ غسل کر رہے تھے، ایک کپڑے سے انہوں نے پردہ کر رکھا تھا میں نے پہنچ کر سلام کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ کون ہو؟ میں نے عرض کی کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں، آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھیجا ہے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ احرام کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک کس طرح دھوتے تھے۔ یہ سن کر انہوں نے کپڑے پر (جس سے پردہ تھا) ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کیا۔ اب آپ کا سر دکھائی دے رہا تھا، جو شخص ان کے بدن پر پانی ڈال رہا تھا، اس سے انہوں نے پانی ڈالنے کے لیے کہا۔ اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر انہوں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھ سے ہلایا اور دونوں ہاتھ آگے لے گئے اور پھر پیچھے لائے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (احرام کی حالت میں) اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔

Narrated `Abdullah bin Hunain: `Abdullah bin Al-Abbas and Al-Miswar bin Makhrama differed at Al-Abwa'; Ibn `Abbas said that a Muhrim could wash his head; while Al-Miswar maintained that he should not do so. `Abdullah bin `Abbas sent me to Abu Aiyub Al-Ansari and I found him bathing between the two wooden posts (of the well) and was screened with a sheet of cloth. I greeted him and he asked who I was. I replied, "I am `Abdullah bin Hunain and I have been sent to you by Ibn `Abbas to ask you how Allah's Apostle used to wash his head while in the state of lhram." Abu Aiyub Al-Ansari caught hold of the sheet of cloth and lowered it till his head appeared before me, and then told somebody to pour water on his head. He poured water on his head, and he (Abu Aiyub) rubbed his head with his hands by bringing them from back to front and from front to back and said, "I saw the Prophet doing like this."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 29, Number 66

   سنن النسائى الصغرى2666خالد بن زيدلإنسان يصب على رأسه ثم حرك رأسه بيديه فأقبل بهما وأدبر
   صحيح البخاري1840خالد بن زيدصب على رأسه ثم حرك رأسه بيديه فأقبل بهما وأدبر
   سنن أبي داود1840خالد بن زيدصب على رأسه ثم حرك أبو أيوب رأسه بيديه فأقبل بهما وأدبر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم307خالد بن زيدلإنسان يصب عليه: اصبب، فصب على راسه، ثم حرك راسه بيديه
   مسندالحميدي383خالد بن زيدبيديه في رأسه فأقبل بهما وأدبر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 307  
´حالت احرام میں سر دھونا جائز ہے`
«. . . عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين عن ابيه ان عبد الله بن عباس والمسور بن مخرمة اختلفا بالابواء. فقال عبد الله بن عباس: يغسل المحرم راسه. . .»
. . . عبداللہ بن حنین (تابعی) سے روایت ہے کہ ابواءکے مقام پر عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہو گیا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: احرام باندھنے والا پنا سر دھوئے گا اور مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: احرام باندھنے والا سر نہیں دھوئے گا. . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 307]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 1840، و مسلم 1205، من حديث مالك به]
تفقہ:
① لوگوں کے سامنے ننگے ہو کر نہانا ممنوع و حرام ہے اور اگر ننگا نہ ہو تو جائز ہے۔
② اگر صحابہ میں اختلاف ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
③ حالت احرام میں کسی عذر یا ضرورت کی وجہ سے سر دھونا جائز ہے۔
④ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ عمرے یا حج کی حالت میں جب مکے میں داخل ہوتے تو داخل ہونے سے پہلے غسل کرتے تھے۔ [الموطا 324/1 ح 722 وسنده صحيح]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ حالت احرام میں سر نہیں دھوتے تھے الا یہ کہ آپ حالت احتلام میں ہوتے [الموطا 324 ح 723 و سنده صحيح]
⑥ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سُنی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ کی قسم! میں آپ کے ساتھ کبھی جھگڑا نہیں کروں گا۔ [التمهيد 4/263 وسنده صحيح]
⑦ ابن عبدالبر نے کہا: امت اگر کسی چیز پر اجماع کرلے تو یہ اجماع حجت ہے، یہ حق ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ [التمهيد 4/267]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 179   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1840  
´محرم غسل کرے تو کیسا ہے؟`
عبداللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کے مابین مقام ابواء میں اختلاف ہو گیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم سر دھو سکتا ہے، مسور نے کہا: محرم سر نہیں دھو سکتا، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں (ابن حنین کو) ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو آپ نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان کپڑے کی آڑ لیے ہوئے نہاتے پایا، ابن حنین کہتے ہیں: میں نے سلام کیا تو انہوں نے پوچھا: کون؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے آپ کے پاس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے معلوم کروں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے اس قدر جھکایا کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا، پھر ایک آدمی سے جو ان پر پانی ڈال رہا تھا، کہا: پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر ایوب نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور بولے ایسا ہی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1840]
1840. اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ محرم نہاسکتاہے۔اور اپنا سر بھی دھوسکتا ہے۔یعنی حالت احرام میں غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔خواہ غسل واجبی ہو یا ویسے ہی راحت کےلئے۔اور سرکے بالوں کو ملتے ہوئے جو بال فطری انداز میں گر جایئں ان کا کوئی حرج نہیں۔
➋ تحقیق مسائل میں پختہ کار اور قابل اعتماد علماء کی طرف رجوع کرناچاہیے۔ <قرآن> (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) کے یہی معنی ہیں۔مگر ان پر بھی لازم ہے کہ <قرآن> (بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ) کی بنیاد پر بادلائل حق کو واضح کریں۔(دیکھئے تفسیر آیت مذکورہ سورۃ النحل آیت۔4
➍ 4
➌)

➌ خبر واحد حجت ہے۔نیز اہل حق کا شیوہ ہے۔کہ وہ اختلاف کے وقت نص (قرآن اور حدیث) کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
➍ صحیح حدیث معلوم ہوجانے کے بعد اجتہاد اور قیاس کو ترک کرنا فرض ہے۔
➎ وضو اور غسل کرنے والے کو سلام کہا جاسکتا ہے۔
➏ نہانے میں دوسرے شخص سے مدد لی جاسکتی ہے۔
➐ نہانے اور وضو کرنے کے دوران میں بوقت ضرورت بات چیت کرنا بھی جائز ہے۔واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1840   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1840  
1840. حضرت عبد اللہ بن حنین سے روایت ہے کہ مقام ابواء میں عبداللہ بن عباس ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ کا ایک مسئلے میں اختلاف ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: محرم آدمی اپنا سر دھوسکتا ہے اور حضرت مسور ؓ کہا کہ محرم انسان اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے مجھے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا تو میں نے انھیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے دیکھا جبکہ ان پر کپڑے کا پردہ کیا ہواتھا۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: یہ کون ہے؟میں نے عرض کیاکہ عبداللہ بن حنین ہوں۔ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے ایک مسئلے کی تحقیق کروں۔ (وہ یہ ہے کہ) رسول اللہ ﷺ بحالت احرام اپنا سر مبارک کیسے دھویا کرتے تھے؟حضرت ابو ایوب ؓ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے نیچے کیا یہاں تک کہ میرے سامنے ان کا سر ظاہر ہوا۔ پھر انھوں نے کسی شخص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1840]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
و في الحدیث من الفوائد مناظرة الصحابة في الأحکام و رجوعهم إلی النصوص و قبولهم لخبر الواحد و لو کان تابعیا و إن قول بعضهم لیس بحجة علی بعض الخ۔
اس حدیث کے فوائد میں سے صحابہ کرام کا باہمی طور پر مسائل احکام سے متعلق مناظرہ کرنا، پھر نص کی طرف رجوع کرنا اور ان کا خبر واحد کو قبول کرلینا بھی ہے اگرچہ وہ تابعی ہی کیوں نہ ہو اوریہ اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ ان کے بعض کا کوئی محض قول بعض کے لیے حجت نہیں گردانا جاتا تھا۔
انہیں سطروں کو لکھتے وقت ایک صاحب جو دیوبند مسلک رکھتے ہیں ان کا مضمون پڑھ رہا ہوں جنہوں نے بزور قلم ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام تقلید شخصی کیا کرتے تھے، لہٰذا تقلیدشخصی کا جواز بلکہ وجوب ثابت ہوا۔
اس دعویٰ پر انہوں نے جو دلائل واقعات کی شکل میں پیش فرمائے ہیں وہ متنازعہ تقلید شخصی کی تعریف میں بالکل نہیں آتے مگر تقلید شخصی کے اس حامی بزرگ کو قدم قدم پر یہی نظر آرہا ہے کہ تقلید شخصی صحابہ میں عام طور پر مروج تھی۔
حافظ ابن حجر کا مذکورہ بیان ایسے کمزور دلائل کے جواب کے لیے کافی وافی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1840   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1840  
1840. حضرت عبد اللہ بن حنین سے روایت ہے کہ مقام ابواء میں عبداللہ بن عباس ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ کا ایک مسئلے میں اختلاف ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: محرم آدمی اپنا سر دھوسکتا ہے اور حضرت مسور ؓ کہا کہ محرم انسان اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے مجھے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا تو میں نے انھیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے دیکھا جبکہ ان پر کپڑے کا پردہ کیا ہواتھا۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: یہ کون ہے؟میں نے عرض کیاکہ عبداللہ بن حنین ہوں۔ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے ایک مسئلے کی تحقیق کروں۔ (وہ یہ ہے کہ) رسول اللہ ﷺ بحالت احرام اپنا سر مبارک کیسے دھویا کرتے تھے؟حضرت ابو ایوب ؓ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے نیچے کیا یہاں تک کہ میرے سامنے ان کا سر ظاہر ہوا۔ پھر انھوں نے کسی شخص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1840]
حدیث حاشیہ:
(1)
محرم کے لیے غسل جنابت تو بالاتفاق جائز ہے، البتہ غسل نظافت میں اختلاف ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان سے امام مالک کے موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
وہ محرم کے لیے پانی میں ڈبکی لگانے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔
مؤطا میں حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حالت احرام میں اپنا سر نہیں دھوتے تھے، البتہ غسل جنابت ضرور کرتے تھے۔
(الموطأ للإمام مالك، الحج: 298/1) (2)
حضرت ابن عباس ؓ کے پاس اس مسئلے کے متعلق نص موجود تھی، اس لیے انہوں نے عبداللہ بن حنین کو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا کہ وہ محرم کے لیے سر دھونے کا طریقہ معلوم کرے۔
سر کے متعلق اس لیے سوال کیا کہ محل اختلاف سر ہی ہے کیونکہ اس کے دھونے سے بال وغیرہ اکھڑنے کا اندیشہ ہے۔
جب انہوں نے حضرت ابو ایوب ؓ کو سر دھوتے دیکھا تو واپس جا کر حقیقت حال سے آگاہ کیا۔
اس کے بعد حضرت مسور ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا:
آئندہ میں آپ سے کسی مسئلے میں نہیں الجھوں گا۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام ؓ اختلاف کے وقت حق کی طرف رجوع کرتے تھے۔
(فتح الباري: 74/4) (4)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی غسل کر سکتا ہے اور اپنے بال بھی دھو سکتا ہے۔
جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1840   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.