الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
61. بَابُ : الْمُصَلِّي يَتَنَخَّمُ
61. باب: نمازی کے تھوکنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1022
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن القاسم بن مهران ، عن ابي رافع ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى نخامة في قبلة المسجد، فاقبل على الناس فقال:" ما بال احدكم يقوم مستقبله يعني: ربه، فيتنخع امامه، ايحب احدكم ان يستقبل فيتنخع في وجهه؟ إذا بزق احدكم فليبزقن عن شماله، او ليقل هكذا في ثوبه"، ثم اراني إسماعيل يبزق في ثوبه، ثم يدلكه.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ:" مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يَقُومُ مُسْتَقْبِلَهُ يَعْنِي: رَبَّهُ، فَيَتَنَخَّعُ أَمَامَهُ، أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يُسْتَقْبَلَ فَيُتَنَخَّعَ فِي وَجْهِهِ؟ إِذَا بَزَقَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْزُقَنَّ عَنْ شِمَالِهِ، أَوْ لِيَقُلْ هَكَذَا فِي ثَوْبِهِ"، ثُمَّ أَرَانِي إِسْمَاعِيل يَبْزُقُ فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ يَدْلُكُهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی سمت بلغم دیکھا، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آگے بلغم تھوکتے ہیں؟ کیا تم میں کا کوئی یہ پسند کرے گا کہ دوسرا شخص اس کی طرف منہ کر کے اس کے منہ پر تھوکے؟ جب کوئی شخص نماز کی حالت میں تھوکے تو اپنے بائیں جانب تھوکے، یا اپنے کپڑے میں اس طرح تھوک لے۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ پھر اسماعیل بن علیہ نے مجھے اپنے کپڑے میں تھوک کر پھر مل کر دکھایا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/ المساجد 13 (550)، سنن النسائی/الطہارة 193 (310)، (تحفة الأشراف: 14669)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 35 (408، 409)، سنن ابی داود/الصلاة 22 (477)، مسند احمد (2/250، 251، 260)، سنن الدارمی/الصلاة 116 (1438) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) saw some sputum in the direction of the Qiblah of the mosque. He turned to the people and said: “What is wrong with one of you that he stands facing Him (meaning his Lord) and spits in front of Him? Would anyone like to be faced by someone who spits in his face? If anyone of you needs to spit, then let him spit to his left, or let him do like this in his garment.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح البخاري416عبد الرحمن بن صخرإذا قام أحدكم إلى الصلاة فلا يبصق أمامه فإنما يناجي الله ما دام في مصلاه ولا عن يمينه فإن عن يمينه ملكا ليبصق عن يساره أو تحت قدمه فيدفنها
   صحيح مسلم1228عبد الرحمن بن صخرما بال أحدكم يقوم مستقبل ربه يتنخع أمامه أيحب أحدكم أن يستقبل فيتنخع في وجهه إذا تنخع أحدكم فليتنخع عن يساره تحت قدمه فإن لم يجد فليقل هكذا ووصف القاسم فتفل في ثوبه ثم مسح بعضه على بعض
   سنن أبي داود477عبد الرحمن بن صخرمن دخل هذا المسجد فبزق فيه أو تنخم فليحفر فليدفنه فإن لم يفعل فليبزق في ثوبه ثم ليخرج به
   سنن النسائى الصغرى310عبد الرحمن بن صخرإذا صلى أحدكم فلا يبزق بين يديه ولا عن يمينه لكن عن يساره أو تحت قدمه وإلا فبزق النبي هكذا في ثوبه ودلكه
   سنن ابن ماجه761عبد الرحمن بن صخرإذا تنخم أحدكم فلا يتنخمن قبل وجهه ولا عن يمينه ليبزق عن شماله أو تحت قدمه اليسرى
   سنن ابن ماجه1022عبد الرحمن بن صخرما بال أحدكم يقوم مستقبله يعني ربه يتنخع أمامه أيحب أحدكم أن يستقبل فيتنخع في وجهه إذا بزق أحدكم فليبزقن عن شماله أو ليقل هكذا في ثوبه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 310  
´کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف تھوکے، یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے نہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے میں اس طرح تھوکا ہے اور اسے مل دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 310]
310۔ اردو حاشیہ:
➊ سامنے تھوکنا تو عام حالات میں بھی قبیح ہے۔ نماز میں تو انسان اپنے مالک حقیقی سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یوں سمجھے کہ اللہ تعالیٰ سامنے ہے، لہٰذا سامنے تھوکنا تو سخت گستاخی اور بدتہذیبی ہے۔
➋ دائیں طرف تھوکنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ دائیں طرف فرشتۂ رحمت ہوتا ہے۔
➌ بائیں طرف اس وقت تھوک سکتا ہے جب وہاں کوئی موجود نہ ہو ورنہ وہ اس کی دائیں جانب ہو گی۔ پاؤں کے نیچے بھی تب تھوک سکتا ہے جب مٹی یا ریت پر کھڑا ہو۔ اگر فرش ہے یا صف وغیرہ بچھی ہے تو نیچے تھوکنا بھی منع ہے۔ اس وقت صرف آخری طریقہ قابل عمل ہگا، یعنی کپڑے میں تھوکنے کا، جس کی طرف ورنہ کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے۔
➍ ورنہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بیان کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ ورنہ ایسے کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا تھا۔ آج کل کپڑے کے بجائے ٹشو پیپر کا استعمال بہت مناسب بدل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 310   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث761  
´مسجد میں تھوکنے اور ناک جھاڑنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر رینٹ دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر اسے کھرچ ڈالا، پھر فرمایا: جب کوئی شخص تھوکنا چاہے تو اپنے سامنے اور اپنے دائیں ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 761]
اردو حاشہ:
(1)
مسجد کو صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے۔

(2)
ایسی حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے جو مسجد کی صفائی کے منافی ہوں۔

(3)
اگر مسجد کی زمین کچی ہو اور اس پر چٹائی وغیرہ بچھی ہوئی نہ ہو تو پاؤں کے نیچا تھوکنا جائز ہے کیونکہ پاؤں سے رگڑے جانے پر وہ زمین میں جذب ہو جائے گا۔

(4)
بائیں طرف تھوکنا اس وقت جائز ہے جب اس طرف کوئی دوسرا نمازی نہ ہو ورنہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے۔

(5)
پختہ فرش پر اور چٹائی اور قالین پر تھوکنا جائز نہیں کیونکہ یہ صفائی کے منافی ہے، البتہ رومال وغیرہ میں تھوک سکتا ہے۔
اگر نماز میں مشغول نہ ہو تو وضو کی جگہ جا کر اس قسم کی ضرورت پوری کرنی چاہیے۔

(6)
سفر وغیرہ میں آج کل بھی یہ صورت پیش آ سکتی ہے کہ کوئی انسان کھلی جگہ میں نماز پڑھ لے جب کہ کوئی مسجد قریب نہ ہو۔
اس صورت میں اگر زمین پر کوئی کپڑا نہیں بچھایا گیا تو زیر مطالعہ حدیث کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔

(7)
رسول اللہﷺ کا اپنے ہاتھ سے دیوار صاف کردینا اعلی اخلاق اور تواضع کی بہترین مثال ہے کیونکہ آپ ﷺنے اس غلطی کا ارتکاب کرنے والے کا تعین کرنا یا اس سے مخاطب ہونا مناسب نہیں سمجھا۔
نبیﷺ کے خود صفائی کردینے سے دیکھنے والوں کو اور خود غلطی کرنے والے کو یقیناً زبردست تنبیہ ہوگئی۔

(8)
چونکہ دیوار کچی تھی اس لیے صفائی کے لیے کنکری سے کھرچ دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 761   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.