الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
The Book of Fasting
15. بَابُ : مَا جَاءَ فِيمَنْ أَفْطَرَ نَاسِيًا
15. باب: روزہ میں بھول کر کھا پی لے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1673
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن عوف ، عن خلاس ، ومحمد بن سيرين ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اكل ناسيا وهو صائم فليتم صومه فإنما اطعمه الله وسقاه".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ خِلَاسٍ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ نَاسِيًا وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھول کر کھا لیا اور وہ روزہ دار ہو تو اپنا روزہ پورا کر لے (توڑے نہیں) اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 26 (1933)، سنن الترمذی/الصوم 26 (722)، (تحفة الأشراف: 12303، 14479)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم 33 (1155)، سنن ابی داود/الصوم 39 (2398)، مسند احمد (2/395، 425، 491، 513)، سنن الدارمی/الصوم 23 (1767) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Whoever eats out of forgetfulness while fasting, let him complete his fast, for it is Allah Who has fed him and given him to drink."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري6669عبد الرحمن بن صخرمن أكل ناسيا وهو صائم فليتم صومه فإنما أطعمه الله وسقاه
   صحيح البخاري1933عبد الرحمن بن صخرإذا نسي فأكل وشرب فليتم صومه فإنما أطعمه الله وسقاه
   صحيح مسلم2716عبد الرحمن بن صخرمن نسي وهو صائم فأكل أو شرب فليتم صومه فإنما أطعمه الله وسقاه
   جامع الترمذي721عبد الرحمن بن صخرمن أكل أو شرب ناسيا فلا يفطر فإنما هو رزق رزقه الله
   سنن أبي داود2398عبد الرحمن بن صخرالله أطعمك وسقاك
   سنن ابن ماجه1673عبد الرحمن بن صخرمن أكل ناسيا وهو صائم فليتم صومه فإنما أطعمه الله وسقاه
   بلوغ المرام544عبد الرحمن بن صخرمن نسى وهو صائم فاكل او شرب فليتم صومه فإنما اطعمه الله وسقاه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6669  
´اگر قسم کھانے کے بعد بھولے سے اس کو توڑ ڈالے تو کفارہ لازم ہو گا یا نہیں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ نَاسِيًا وَهُوَ صَائِمٌ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے روزہ رکھا ہو اور بھول کر کھا لیا ہو تو اسے اپنا روزہ پورا کر لینا چاہئے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6669]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6669 کا باب: «بَابُ إِذَا حَنِثَ نَاسِيًا فِي الأَيْمَانِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں بھولے سے قسم کے توڑنے پر کفارے کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ اس پر کفارہ لازم ہو گا کہ نہیں جبکہ تحت الباب سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی، اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ واضح فرمایا کہ حج کے کاموں میں بھول چوک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کے کفارے کا کوئی حکم نہیں دیا اور نہ ہی کسی فدیہ کا، تو اسی مسئلے پر قیاس کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ یہ مسئلہ اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ اگر قسم بھول چوک کی وجہ سے توڑ ڈالے تو اس پر کفارہ نہ ہو گا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے باب اور حدیث کی مناسبت پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب گیارہ احادیث ذکر فرمائی ہیں، کسی نہ کسی طریقے سے ہر حدیث کا ترجمۃ الباب سے خفی یا جلی طور پر ربط موجود ہے، چنانچہ ان تمام احادیث پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«قال المهلب: حاول البخاري فى إثبات العزر بالجهل و النسيان يسقط الكفارة، و الذى يلائم مقصوده من أحاديث الباب الأول و حديث من أكل ناسيًا و حديث نسيان تشهد الأول و قصة موسى فان الخضر . . . . . و أما بقية أحاديث ففي مساعدتها على مراده نظر قلت: قد يساعده أيضا حديث عبدالله بن عمرو و حديث ابن عباس فى تقديم بعض النسك على بعض فانه لم يأمر فيه بالاعادة بل عذر فاعله بجهل الحكم.» (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے جہل و نسیان کے ساتھ اثبات عزر کی کوشش فرمائی ہے، تاکہ کفارہ ساقط ہو، احادیث باب میں سے ان کے اس مقصود کے مناسبت پہلی اور یہ حدیث ہے: «من أكل ناسيًا»، اسی طرح تشہد اول بھول جانے کی ذکر والی حدیث اور قصہ حضرت موسی علیہ السلام والی روایت ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں نسیان کی وجہ سے معذور سمجھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باہم مختلف احادیث اس کے تحت نقل فرمائی ہیں، تاکہ فریقین کی ادلہ کے اصول کی طرف اشارہ کریں، سیدنا ابن عمرو اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کی بعض نسک کی بعض پر تقدیم کے بارے میں بھی مساعد ہیں، کیوں کہ آپ نے اعادہ کاحکم نہیں دیا تھا، بلکہ حکم سے نابلد ہونے کی وجہ سے فاعل کو معذور باور کیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام مہلب رحمہ اللہ کے اقتباسات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث اور سیدنا ابن عباسی رضی اللہ عنہما کی حدیث میں سائل کو بھول کی وجہ سے معذور قرار دیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص بھولے میں قسم توڑ ڈالے تو اس پر کفارہ نہ ہو گا۔
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمہ میں کسی قسم کا کوئی حکم مراد نہیں واضح کیا، بلکہ مراد حکم ان اصول کا افادہ کیا ہے، جن پر قیاس کرنا درست اور ممکن ہو گا، یعنی قاری کو نظر و غور و تامل کا موقع ملے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«أورد الأحاديث المتجازبة ليفيد الناظر مظان النظر، ومن ثم لم يذكر الحكم فى الترجمة بل أفاد مراد الحكم والأصول التى تصلح أن يقاس عليها.» (1)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلقا عدم کفارہ کے قائل ہیں، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«و الذى يظهر لي أن البخاري يقول بعدم الكفارة مطلقًا، و توجيه الدلالة من الأحاديث التى ساقها.» (2)
میرے نزدیک یہ بات ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلقا عدم کفارہ کے قائل ہیں، نقل کردہ احادیث سے دلالت کی توجیہ ممکن ہے۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جتنی بھی احادیث پیش فرمائی ہیں، ان سب کی تطبیق ترجمہ سے اس امر پر موقف ہے کہ چاہے وہ جہل ہو، نسیان ہو، اس عذر کے تحت کفارہ ساقط ہو گا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور تحت الباب احادیث میں مطابقت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 236   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1673  
´روزہ میں بھول کر کھا پی لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھول کر کھا لیا اور وہ روزہ دار ہو تو اپنا روزہ پورا کر لے (توڑے نہیں) اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1673]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلام کے احکام میں انسانی فطری کی کمزوری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
بھول جانا انسان کی فطرت ہے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھول کر کئے ہوئے کام کو گناہوں میں شمار نہیں کیا۔
روزے کے بارے میں مزید رحمت فرمائی کہ کھانے پینے کے باوجود روزے کو قائم قراردیا۔
اللہ کے کھلانے پلانے کا یہی مطلب ہے۔

(2)
بھول کر کھانے پینے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ گناہ ہو یا نہ ہو۔
روزہ تو قائم نہیں رہا کیونکہ روزہ تو کھانے پینے سے پرہیز کا نام ہے۔
اور وہ پرہیز ٹوٹ گیا ہے روزہ دار کو چاہیے کہ روزے کا باقی وقت اسی طرح گزارے۔
جس طرح عام حالات میں روزے کی پابندیوں کے ساتھ گزارتا ہے۔
اس کا یہ روزہ شرعاً صحیح ہوگا۔
لہٰذا اس کی قضا لازم نہیں ہوگی۔
نہ کوئی کفارہ ادا کرنا ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1673   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 721  
´روزہ دار بھول کر کچھ کھا پی لے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھول کر کچھ کھا پی لیا، وہ روزہ نہ توڑے، یہ روزی ہے جو اللہ نے اسے دی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 721]
اردو حاشہ:
1؎:
بخاری کی روایت ہے ((فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ))
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 721   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2398  
´جو شخص بھول کر کھا پی لے اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے بھول کر کھا پی لیا، اور میں روزے سے تھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2398]
فوائد ومسائل:
بھول کر کھا پی لے، تو معاف ہے۔
روزے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، بغیر کسی شک و شبہ کے روزہ پورا کرنا چاہیے۔
اور یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس کیفیت کو یوں تعبیر فرمایا کہ اللہ نے تمہیں کھلایا اور پلایا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2398   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.