الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
11. بَابُ : اسْتِئْمَارِ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ
11. باب: کنواری اور غیر کنواری دونوں سے شادی کی اجازت لینے کا بیان۔
Chapter: Seeking the consent of virgins and previously-married women
حدیث نمبر: 1871
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا تنكح الثيب حتى تستامر، ولا البكر حتى تستاذن، وإذنها الصموت".
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر کنواری عورت کا نکاح اس کی واضح اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح بھی اس سے اجازت لے کر کیا جائے، اور کنواری کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/النکاح 9 (1419)، سنن الترمذی/النکاح 17 (1107)، (تحفة الأشراف: 15384)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح 42 (5136)، الحیل 11 (6968، 6970)، سنن النسائی/النکاح 33 (3267)، مسند احمد (2/221، 250، 425، 434، سنن الدارمی/النکاح 13 (2232) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Abu Hurairah that: the Messenger of Allah said: “A previously-married woman should not be married until she is consulted, and a virgin should not be married until her consent is sought, and her consent is her silence.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح البخاري5136عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت
   صحيح البخاري6970عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا كيف إذنها قال أن تسكت
   صحيح البخاري6968عبد الرحمن بن صخرلا تنكح البكر حتى تستأذن لا الثيب حتى تستأمر فقيل يا رسول الله كيف إذنها قال إذا سكتت
   صحيح مسلم3473عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت
   جامع الترمذي1107عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت
   سنن أبي داود2092عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر إلا بإذنها قالوا يا رسول الله وما إذنها قال أن تسكت
   سنن النسائى الصغرى3267عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأذن لا تنكح البكر حتى تستأمر قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال إذنها أن تسكت
   سنن النسائى الصغرى3269عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال أن تسكت
   سنن ابن ماجه1871عبد الرحمن بن صخرلا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت
   بلوغ المرام837عبد الرحمن بن صخر لا تنكح الأيم حتى تستأمر ،‏‏‏‏ ولا تنكح البكر حتى تستأذن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 837  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ عورت کا نکاح اس سے مشورہ لئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس سے اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی اجازت کیسے ہے؟ فرمایا اس کا خاموش رہنا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 837»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاهما، حديث:5136، ومسلم، النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق.....، حديث:1419.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ شریعت کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے۔
وہ عورت جسے اسلام سے پہلے معاشرے میں کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا تھا‘ اسلام نے اسے پستی سے اٹھا کر بلند مقام پر پہنچایا ہے اور اس کی اہمیت کو دوبالا کیا ہے۔
شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو کجا اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت تک نہ تھی۔
سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے نکاح کر دیتے تھے۔
2.شریعت محمدیہ نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیدہ سے مشورہ ضرور کیا جائے اور کنواری سے اس کی اجازت حاصل کی جائے۔
3. شوہر دیدہ کی رضا ومشورے کے بغیر اس کا نکاح نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ولی اپنی سرپرستی میں اس کے مشورے اور اس کی رضامندی کے ساتھ اس کا نکاح کرے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 837   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1107  
´کنواری اور ثیبہ (شوہر دیدہ) سے اجازت لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی ۱؎ حاصل نہ کر لی جائے، اور کنواری ۲؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1107]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رضامندی کا مطلب اذن صریح ہے۔

2؎:
کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔

3؎:
اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے،
عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔ 4؎:
ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بكراً أتت النبي ﷺ فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي ﷺ»  ہے۔

5؎:
ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جوآگے آرہی ہے «الأیم أحق بنفسہامن ولیہا»  کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے،
اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ (کنواری) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1107   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.