الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
56. بَابُ : الْغَيْرَةِ
56. باب: غیرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1999
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابو اليمان ، انبانا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني علي بن الحسين ، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان علي بن ابي طالب خطب بنت ابي جهل وعنده فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم، فلما سمعت بذلك فاطمة اتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: إن قومك يتحدثون، انك لا تغضب لبناتك، وهذا علي ناكحا ابنة ابي جهل، قال المسور: فقام النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعته حين تشهد، ثم قال:" اما بعد، فإني قد انكحت ابا العاص بن الربيع، فحدثني فصدقني، وإن فاطمة بنت محمد بضعة مني وانا اكره ان تفتنوها، وإنها والله لا تجتمع بنت رسول الله، وبنت عدو الله عند رجل واحد ابدا، قال: فنزل علي عن الخطبة".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ، أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحًا ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي قَدْ أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ بَضْعَةٌ مِنِّي وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ تَفْتِنُوهَا، وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَ عَلِيٌّ عَنِ الْخِطْبَةِ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام دیا جب کہ ان کے عقد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی فاطمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا، اب علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ مسور کہتے ہیں: یہ خبر سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر پر) کھڑے ہوئے، جس وقت آپ نے خطبہ پڑھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: امابعد، میں نے اپنی بیٹی زینب کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، انہوں نے جو بات کہی تھی اس کو سچ کر دکھایا ۱؎ میری بیٹی فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، اور مجھے ناپسند ہے کہ تم لوگ اسے فتنے میں ڈالو، قسم اللہ کی، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی دونوں ایک شخص کے نکاح میں کبھی اکٹھی نہ ہوں گی، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ شادی کے پیغام سے باز آ گئے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11278) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کفر کے باوجود انہوں نے زینب رضی اللہ عنہا کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا پھر بھیج دیا۔
۲؎: یعنی علی رضی اللہ عنہ نے یہ شادی نہیں کی، اور شادی کیوں کرتے آپ تو نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار اور آپ کی مرضی کے تابع تھے، اس واقعہ کی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ پر کوئی طعن نہیں ہو سکتا جیسے خوارج کیا کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے لاعلمی میں یہ خیال کر کے کہ ہر مرد کو چار شادی کا حق ہے، یہ پیغام دیا تھا، جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کی مرضی کے خلاف ہے تو فوراً اس سے رک گئے۔

'Ali bin Husain said that Miswar bin Makhramah told him that: 'Ali bin Abu Talib proposed to the daughter of Abu Jahl, when he was married to Fatimah the daughter of the Prophet. When Fatimah heard of that she went to the Prophet, and said: "Your people are saying that you do not feel angry for your daughters. This 'Ali is going to marry the daughter of Abu Jahl." Miswar said: "The Prophet stood up, and I heard him when he bore witness (i.e., said the Shahadah), then he said: 'I married my daughter (Zainab) to Abul-As bin Rabi', and he spoke to me and was speaking the truth. Fatimah bint Muhammad is a part of me, and I hate to see her faced with troubles. By Allah, the daughter of the Messenger of Allah and the daughter of the enemy of Allah will never be joined together in marriage to one man." He said: So, 'Ali abandoned the marriage proposal.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
   صحيح البخاري5230مسور بن مخرمةاستأذنوا في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   صحيح البخاري3714مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح البخاري5278مسور بن مخرمةاستأذنوا في أن ينكح علي ابنتهم فلا آذن
   صحيح البخاري3729مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني أكره أن يسوءها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد
   صحيح البخاري3110مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله أبدا
   صحيح البخاري3767مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح مسلم6309مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فأوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   صحيح مسلم6308مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني يؤذيني ما آذاها
   صحيح مسلم6310مسور بن مخرمةأنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني فصدقني فاطمة بنت محمد مضغة مني أكره أن يفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   صحيح مسلم6307مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يحب ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   جامع الترمذي3867مسور بن مخرمةاستأذنوني في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داود2071مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم من علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داود2069مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   سنن ابن ماجه1999مسور بن مخرمةفاطمة بنت محمد بضعة مني أكره أن تفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   سنن ابن ماجه1998مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يريد علي بن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   المعجم الصغير للطبراني491مسور بن مخرمة أن على بن أبى طالب ، خطب بنت أبى جهل ، فقال النبى صلى الله عليه وآله وسلم : إن كنت تزوجها ، فرد علينا ابنتنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5278  
´اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان`
«. . . عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ بَنِي الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يَنْكِحَ عَلِيٌّ ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ . . .»
. . . مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5278]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5278 کا باب: «بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں میاں بیوی کے مابین ناچاکی اور نااتفاقی کے امور کی وضاحت فرمائی ہے , جبکہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ وارد نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔

علامہ کرمانی رقمطراز ہیں:
«توخز مطابقة الترجمة من كون فاطمۃ ما كانت ترضيٰ بذالك، فكان الشقاق بينهما وبين على متوقعاً فاراد رضى الله عنه دفع وقوعه.» [شرح كرماني: 159/19]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس نکاح پر راضی نہ تھیں، اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نکاح کر لیتے تو دونوں کے مابین شقاق اور اختلافات کا خدشہ پیدا ہوتا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نکاح سے روک کر دونوں کے درمیان واقع ہونے والے شقاق و اختلاف کو روک دیا ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ اس عورت سے نکاح کر لیتے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے درمیان شدید اختلافات نمودار ہو جاتے، لہٰذا اس اختلافات کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، امام کرمانی کی تطبیق پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهي مناسبة جيدة.» [فتح الباري لابن حجر: 345/90]
یہ ایک بہترین مناسبت ہے۔
ابن التین میں ترجمۃ الباب پر اعتراض فرمایا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ:
«واعترضه ابن التين بأنه ليس فيه دلالة على ترجم به، ونقل ابن بطال قبله عن المهلب قال: انما حاول البخاري يايراده ان يجعل قول النبى صلى الله عليه وسلم فلا اذن» [فتح الباري لابن حجر: 340/10]

ابن التین نے ترجمۃ الباب پر یہ کہا کہ حدیث سے اس کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے، اس کو ابن بطال اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ ابن مہلب نے فرمایا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ارادے سے اس حدیث کو پیش فرمایا ہے تحت الترجمۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت اسی وجہ سے نہیں دے رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کو ان میاں بیوی میں ناچاکی اور نااتفاقی کا اندیشہ تھا، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ نے بھی یہی مناسب دی ہے۔ دیکھیے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 327/24]

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کا احتمال (ترجمۃ الباب سے) اس حدیث پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، «فلا أذن لهم» پس یہ اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے اس عورت سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔ [المتوري: ص 299]

دراصل وہ حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب فرمایا ہے اس حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح میں درج کیا ہے، حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب تطبیق میں مزید اضافہ ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا ڈر اس چیز پر منحصر نہیں تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسرا نکاح کر رہے تھے کیونکہ اس دور میں آدمی کا دوسری یا تیسری شادی کرنا ایک عام رجحان تھا لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناپسندیدگی کا اظہار اس عمل پر موقوف تھا کہ وہ لڑکی ابوجہل کی بیٹی تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے دوست کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کس طرح سے جمع ہو سکتی تھیں؟
یہی وجہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 105   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1999  
´غیرت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام دیا جب کہ ان کے عقد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی فاطمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا، اب علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ مسور کہتے ہیں: یہ خبر سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر پر) کھڑے ہوئے، جس وقت آپ نے خطبہ پڑھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اماب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1999]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
حضرت ابوالعاص بن ربیع رسول اللہ کی بیٹی حضرت زینت رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے جو ان کے خالہ زاد تھے۔
ان کی والدہ کا نام ہالہ بنت خویلد ہے۔ (سیرأعلام النبلاء: 1؍441)

ہراہم موقع پر عوام سے خطاب کرتے وقت کلام کو اللہ کی حمد و ثنا اوردرود شریف سے شروع کرنا مسنون ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1999   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1998  
´غیرت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۱؎ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1998]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔

(2)
  رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔
اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔
گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔

(3)
منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔
اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔
اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔

(4)
  اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور شفقت کا ثبوت ہے۔
اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1998   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2069  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2069]
فوائد ومسائل:
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسول ﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لئے ہلاکت کا باعث ہوتی۔
اس لیے انہیں بطورخاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول ﷺکو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔
قرآن مجید میں ہے کہ (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ) (الأحزاب:35) تمہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو۔

2:عترت رسول ﷺکو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول ﷺکی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضی کو مستلزم ہے۔
مگر لازمی شرط ہے کہ آل رسول کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔

3: حضرت فاطمہ رضی اللہ رسول ﷺکی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول ﷺاور حضرت فاطمہ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغوقیاس ہے۔

5: صاحب فضل داماد کی مدح وتوصیف کی جاسکتی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2069   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.