الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
The Chapters on Rulings
19. بَابُ : مَنِ اشْتَرَطَ الْخَلاَصَ
19. باب: (خرید و فروخت میں) خلاصی کی شرط لگانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2344
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا ابو الوليد ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة بن جندب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا بيع البيع من رجلين فالبيع للاول"، قال ابو الوليد في هذا الحديث: إبطال الخلاص.
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا بِيعَ الْبَيْعُ مِنْ رَجُلَيْنِ فَالْبَيْعُ لِلْأَوَّلِ"، قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: إِبْطَالُ الْخَلَاصِ.
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مال دو آدمیوں کے ہاتھ بیچا جائے تو وہ مال اس شخص کا ہو گا جس نے پہلے خریدا ۱؎۔ ابوالولید کہتے ہیں کہ اس حدیث سے خلاصی کی شرط باطل ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4582، 9918)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/النکاح 20 (1110)، سنن النسائی/البیوع 94 (4686)، مسند احمد (5/8، 11، 12، 18، 22)، سنن الدارمی/النکاح 15 (2239) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے)

وضاحت:
۱؎: یعنی اگر دوسرے خریدار نے اپنے بائع سے یہ شرط لگائی تھی کہ جس طرح تم سے ہو سکے یہ مال چھڑا کر مجھ کو دینا تو یہ شرط مفید نہ ہو گی اور بائع پہلے خریدار سے اس کے چھڑانے پر مجبور نہ کیا جائے گا، مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید کے پاس ایک گھوڑا تھا، زید نے اس کو عمرو کے ہاتھ بیچ دیا، اس کے بعد زید کے وکیل (ایجنٹ) نے اس کو بکر کے ہاتھ بیچ دیا اور بکر نے وکیل سے شرط لگائی کہ اس گھوڑے کو چھڑا کر میرے حوالہ کرنا تمہارے ذمہ ہے، اس نے قبول کیا جب بھی وہ گھوڑا عمرو ہی کو ملے گا کیونکہ اس کی بیع پہلی تھی اور بکر کی بیع دوبارہ صحیح نہیں ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
   جامع الترمذي1110سمرة بن جندبأيما امرأة زوجها وليان فهي للأول منهما من باع بيعا من رجلين فهو للأول منهما
   سنن أبي داود2088سمرة بن جندبزوجها وليان فهي للأول منهما أيما رجل باع بيعا من رجلين فهو للأول منهما
   سنن ابن ماجه2191سمرة بن جندبإذا باع المجيزان فهو للأول
   سنن ابن ماجه2344سمرة بن جندبإذا بيع البيع من رجلين فالبيع للأول
   سنن النسائى الصغرى4686سمرة بن جندبأيما امرأة زوجها وليان فهي للأول منهما من باع بيعا من رجلين فهو للأول منهما
   بلوغ المرام842سمرة بن جندب أيما امرأة زوجها وليان فهي للأول منهما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2191  
´جب دو بااختیار شخص کسی چیز کو بیچیں تو پہلے بیچنے والے کی بات معتبر ہو گی۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو اختیار رکھنے والے ایک چیز کی بیع کریں تو جس نے پہلے بیع کی، اس کا اعتبار ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2191]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  صاحب اختیار سے مراد یتیم یا نابالغ کا سرپرست ہے جسے اس کی طرف سے خریدو فروخت کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ (النہایۃ)
اس سے مراد وہ عام شخص بھی ہے جس کی خریدو فروخت قانوناً اور شرعاً جائز ہے۔

(2)
دو افراد کے بیع کرنے کی مثال یہ ہے کہ ایک چیز دو افراد کی مشترکہ تھی۔
ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو بتائے بغیر الگ الگ بیع کی، یا مثلاً:
وکیل نے بیع کی اور مؤکل (مالک)
نے بھی اس کو اطلاع دیے بغیر وہی چیز کسی اور کو بیچ دی تو جس نے پہلے بیع کی ہے، اس کی بیع صحیح قرار دی جائے گی، دوسرے کی بیع کالعدم ہو جائے گی۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2191   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 842  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا حسن (بصری) رحمہ اللہ، سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ جس عورت کا نکاح دو ولی کر دیں تو یہ خاتون پہلے خاوند کی ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 842»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب إذا أنكاح الوليان، حديث:2088، والترمذي، النكاح.حديث:1110، والنسائي، البيوع، حديث:4686، وابن ماجه، التجارات، حديث:2190، وأحمد:5 /8، 18.»
تشریح:
1.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک خاتون کے دو ولی جب دو مختلف آدمیوں سے مختلف اوقات میں نکاح کر دیں تو وہ عورت اس آدمی کی بیوی قرار پائے گی جس سے پہلے نکاح کیا گیا ہو اور دوسرا نکاح ازخود باطل قرار پائے گا کیونکہ شریعت نے نکاح پر نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے۔
اور اگر دونوں نکاح بیک وقت کیے جائیں تو دونوں باطل قرار پائیں گے‘ کوئی بھی صحیح نہیں ہوگا۔
2. ہاں‘ اگر عورت دونوں نکاحوں میں سے کسی نکاح کو باقی رکھنا چاہے یا دونوں شخصوں میں سے کوئی ایک‘ عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے خلوت صحیحہ کر چکا ہو تو وہ نکاح برقرار رہ سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 842   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1110  
´کسی لڑکی کی اگر دو ولی (الگ الگ جگہ) شادی کر دیں تو کیا حکم ہے؟`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کر دیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہو گی، اور جو شخص کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوئی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1110]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے،
نیز حسن کے سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے علاوہ دیگر احادیث کے سماع میں اختلاف ہے،
مگر دیگر نصوص سے مسئلہ ثابت ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1110   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.