حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن سلمة بن كهيل ، عن سويد بن غفلة ، قال: خرجت مع زيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة حتى إذا كنا بالعذيب التقطت سوطا، فقالا لي: القه، فابيت، فلما قدمنا المدينة اتيت ابي بن كعب فذكرت ذلك له، فقال: اصبت، التقطت مائة دينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالته، فقال:" عرفها سنة"، فعرفتها فلم اجد احدا يعرفها، فسالته، فقال:" عرفها". فعرفتها، فلم اجد احدا يعرفها، فقال:" اعرف وعاءها ووكاءها وعددها، ثم عرفها سنة، فإن جاء من يعرفها، وإلا، فهي كسبيل مالك". حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعُذَيْبِ الْتَقَطْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِي: أَلْقِهِ، فَأَبَيْتُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَصَبْتَ، الْتَقَطْتُ مِائَةَ دِينَارٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً"، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يَعْرِفُهَا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا". فَعَرَّفْتُهَا، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يَعْرِفُهَا، فَقَالَ:" اعْرِفْ وِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ مَنْ يَعْرِفُهَا، وَإِلَّا، فَهِيَ كَسَبِيلِ مَالِكَ".
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو“، میں پتا کرتا رہا، لیکن کسی کو نہ پایا جو انہیں پہچانتا ہو، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا تھیلا، بندھن اور اس کی تعداد یاد رکھو، پھر سال بھر اس کے مالک کا پتا کرتے رہو، اگر اس کا جا ننے والا آ جائے تو خیر، ورنہ وہ تمہارے مال کی طرح ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کی روایت میں ہے: «ثمَّ عرِّفها سنةً، فإن جاء صاحبُها وإلا فشأنكَ بها» سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر اس کا جاننے والا آ جائے تو خیر ورنہ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
عرفها حولا فعرفتها حولا ثم أتيته فقال عرفها حولا فعرفتها حولا ثم أتيته فقال عرفها حولا فعرفتها حولا ثم أتيته فقلت لم أجد من يعرفها فقال احفظ عددها ووكاءها ووعاءها فإن جاء صاحبها وإلا فاستمتع بها وقال ولا أدري أثلاثا قال عرفها أو مرة واحدة
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2506
´راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔` سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو“، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2506]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عام قیمتی چیز کےلیےاعلان کی مدت ایک سال ہے جب کہ زیادہ قیمتی چیز کا اس سے زیادہ مدت تک اعلان کرنا بہتر ہے۔
(2) معمولی چیز جس کے گم ہونے کی زیادہ پروا نہیں کی جاتی اس کا اعلان نہ کرنا درست ہے۔
(3) اعلان ایسے متعدد مقامات پرکرنا چاہیے جہاں سے توقع ہو کہ اگر مالک تلاش میں وہاں آیا ہوا ہو تو خود سن لے گا یا اگر اس نے آسں پاس کے لوگوں سے پوچھا ہوگا توان میں سے کوئی نہ کوئی سن کر بتا دے گا کہ فلاں شخص کا مال گم ہوا ہے۔
(4) آج کل اخبار اور ریڈیو میں اعلان کرنا بھی درست ہے۔ جب مالک آئے تواس سے اعلان کا خرچ وصول کرکے اس کی گم شدہ رقم وغیرہ اسے دے دے۔
(5) ایک سال کےاعلان کے باوجود اگر مالک نہ آیا تو یہ اعلان کافی ہے اور رقم کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بعد میں کبھی مالک آ جائے تو بھی اسے اتنی رقم ادا کرنی چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں صراحت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2506
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1374
´گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔` سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1374]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا، اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشہ میں دیکھیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1374