الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
15. بَابُ كَسْبِ الرَّجُلِ وَعَمَلِهِ بِيَدِهِ:
15. باب: انسان کا کمانا اور اپنے ہاتھوں سے محنت کرنا۔
(15) Chapter. The earnings of a person and his manual labour.
حدیث نمبر: 2071
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني محمد، حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد، قال: حدثني ابو الاسود، عن عروة، قال: قالت عائشة رضي الله عنها،"كان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عمال انفسهم، وكان يكون لهم ارواح، فقيل لهم: لو اغتسلتم"، رواه همام، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة.حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،"كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَّالَ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانَ يَكُونُ لَهُمْ أَرْوَاحٌ، فَقِيلَ لَهُمْ: لَوِ اغْتَسَلْتُمْ"، رَوَاهُ هَمَّامٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ.
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے بیان کیا، ان سے عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے کام اپنے ہی ہاتھوں سے کیا کرتے تھے اور (زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے) ان کے جسم سے (پسینے کی) بو آ جاتی تھی۔ اس لیے ان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہو گا۔ اس کی روایت ہمام نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے۔

Narrated Aisha: The companions of Allah's Apostle used to practice manual labor, so their sweat used to smell, and they were advised to take a bath.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 285


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2071  
2071. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین خود محنت مزدوری کرتے تھے، جس کی بنا پر ان کے جسم سے پسینے وغیرہ کی بو آتی تھی۔ ایسے حالات میں ان سے کہا گیا: اگر تم غسل کرلیتے تو بہتر ہوتا۔ اسے ہمام نے ہشام سے، انھوں نے اپنے باپ(عروہ) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2071]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ ہجرت کرنے کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم گزر اوقات کے لیے خود مشقت کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے تجارت، زراعت اور محنت و مزدوری کرتے تھے۔
چونکہ اس وقت غربت کا دور تھا،اس لیے وہ اون کے موٹے کپڑے پہنتے، جب انھی کپڑوں میں جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد آتے تو پسینہ آنے کی وجہ سے ان کے جسم سے ناگوار قسم کی بو آتی،اس لیے انھیں تلقین کی گئی کہ اگر غسل کرلیا جائے تو بہتر ہے تاکہ اس ناگوار بو سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خود محنت ومشقت کرتے تھے،دوسروں پر بوجھ بننا انھیں گوارا نہ تھا۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. كسب الرجل بيده (المعاملات)
2. غسل الجمعة (العبادات)
3. الاغتسال لصلاة الجمعة (العبادات)
موضوعات 1. اپنے ہاتھ سے محنت و کمائی کرنا (معاملات)
2. غسل جمعہ (عبادات)
3. نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا (عبادات)
Topics 1. Earning with one's own hands (Matters)
2. Taking bath on Friday (Prayers/Ibadaat)
3. Taking bath for Jumma prayer (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/2071 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
ترجمۃ الباب:
یعنی علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ افضل کسب کو ن سا ہے۔
ماوردی نے کہا کہ کسب کے تین اصولی طریقے ہیں۔
زراعت، تجارت، اور صنعت و حرفت۔
اور امام شافعی کے قول میں افضل کسب تجار ت ہے۔
مگر ماوردی کہتے ہیں کہ میں زراعت کو ترجیح دیتا ہوں کہ یہ توکل سے قریب ہے۔
اور نووی نے اس پر تعاقب کیا ہے اور درست بات یہ ہے کہ بہترین پاکیزہ کسب وہ ہے جس میں اپنے ہاتھ کو دخل زیادہ ہو۔
اگر زراعت کو افضل کسب مانا جائے تو بجا ہے کیوں کہ اس میں انسان زیادہ تر اپنے ہاتھ سے محنت کرتا ہے اس میں توکل بھی ہے اور انسانوں اور حیوانوں کے لیے عام نفع بھی ہے۔
اس میں بغیر کسی معاوضہ کے حاصل ہوئے غلہ سے کھایا جاتا ہے۔
اس لیے زراعت بہترین کسب ہے بشرطیکہ کامیاب زراعت ہو ورنہ عام طور پر زراعت پیشہ لوگ مقروض، تنگ دست، پریشان حال ملتے ہیں۔
اس لیے کہ نہ تو ان کے پاس زراعت کے قابل کافی زمین ہوتی ہے نہ دیگر وسائل بفراخی مہیا ہوتے ہیں، نتیجہ یہ کہ ان کا افلاس دن بدن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، ایسی حالت میں زراعت کو بہترین کسب نہیں کہا جاسکتا۔
ان حالات میں مزدوری بھی بہتر ہے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کے تحت تین حدیثیں ذکر کی ہیں۔
جن میں سے پہلی تجارت سے متعلق ہے دوسری زراعت سے اور تیسری صنعت سے متعلق ہے۔
پہلی حدیث میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے پیشہ تجارت کا ذکر ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں لما مرض ابوبکر مرضہ الذی مات فیہ قال انظروا ما زاد فی مالی منذ دخلت الامارۃ فابعثوا بہ الی الخلیفہ بعدی الخ یعنی جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو آپ نے اپنے گھر والوں کو وصیت فرمائی کہ میرے مال کی پڑتال کرنا اور خلیفہ بننے کے بعد جو کچھ بھی میرے مال میں زیادتی نظر آئے اسے بیت المال میں داخل کرنے کے لیے خلفیۃ المسلمین کے پاس بھیج دینا، چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد جائزہ لیا گیا تو ایک غلام زائد پایا گیا جو بال بچوں کو کھلایا کرتا تھا اور ایک اونٹ جس سے مرحوم کے باغ کو پانی دیا جاتا تھا۔
ہر دو کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا گیا جن کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رحمۃ اللہ علی ابی بکر لقد اتعب من بعدہ یعنی اللہ پاک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین خود محنت مزدوری کرتے تھے، جس کی بنا پر ان کے جسم سے پسینے وغیرہ کی بو آتی تھی۔
ایسے حالات میں ان سے کہا گیا:
اگر تم غسل کرلیتے تو بہتر ہوتا۔
اسے ہمام نے ہشام سے، انھوں نے اپنے باپ(عروہ)
سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ ہجرت کرنے کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم گزر اوقات کے لیے خود مشقت کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے تجارت، زراعت اور محنت و مزدوری کرتے تھے۔
چونکہ اس وقت غربت کا دور تھا،اس لیے وہ اون کے موٹے کپڑے پہنتے، جب انھی کپڑوں میں جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد آتے تو پسینہ آنے کی وجہ سے ان کے جسم سے ناگوار قسم کی بو آتی،اس لیے انھیں تلقین کی گئی کہ اگر غسل کرلیا جائے تو بہتر ہے تاکہ اس ناگوار بو سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خود محنت ومشقت کرتے تھے،دوسروں پر بوجھ بننا انھیں گوارا نہ تھا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے بیان کیا، ان سے عروہ نے کہ حضرت عائشہ ؓا نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓم اپنے کام اپنے ہی ہاتھوں سے کیا کرتے تھے اور (زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے)
ان کے جسم سے (پسینے کی)
بو آجاتی تھی۔
اس لئے ان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہوگا۔
اس کی روایت ہمام نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے عائشہ‬ ؓ س‬ے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA)
:
The companions of Allah's Apostle (ﷺ) used to practise manual labor, so their sweat used to smell, and they were advised to take a bath. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2089٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2071٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1929٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2071٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
1965٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2010٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2071٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2071١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2071 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔
اور سود کو حرام قراردیا ہے۔
" نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)
" فائدہ:
سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔
جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔
اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔
اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔
اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔
دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔
انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔
معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔
لفظ بيوع بيع کی جمع ہے۔
اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔
بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔
یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں:
(1)
مشتری (خریدار) (2)
بائع (فروخت کار) (3)
بیع(مال تجارت) (4)
بیع (معاہدۂ تجارت)
۔
قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾ )
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔
"(النساء29: 4)
باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔
اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔
اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:
(1)
فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔
(2)
خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
(3)
قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
(4)
فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔
(5)
کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔
(6)
اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔
(7)
اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔
کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔
ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔
عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔
معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔
(عمدۃ القاری: 8/291)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔
(فتح الباری: 4/364)
امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔
ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔
مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔
ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔
قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔
آمين سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:
" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔
اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔
(عمدۃ القاری: 8/292)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2071   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.