الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 165
´نماز عشاء کے وقت کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اس نماز عشاء کے وقت کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 165]
اردو حاشہ:
1؎:
حدیث جبرائیل میں یہ بات آچکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے،
یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں،
رہی یہ بات کہ اس کا آخری وقت کیا ہے تو صحیح اورصریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجرتک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کا ذکر ہے اس سے مراد اس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاند ڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے،
اسی لیے رسول اللہ ﷺ عموماً اسی وقت نمازِ عشاء پڑھتے تھے،
لیکن مشقت کے پیش نظر امت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔
(دیکھئے اگلی حدیث رقم 167)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 165