الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
The Book of Cultivation and Agriculture
حدیث نمبر: 2327
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يحيى بن سعيد، عن حنظلة بن قيس الانصاري، سمع رافع بن خديج، قال:" كنا اكثر اهل المدينة مزدرعا، كنا نكري الارض بالناحية منها مسمى لسيد الارض، قال: فمما يصاب ذلك وتسلم الارض، ومما يصاب الارض ويسلم ذلك، فنهينا واما الذهب والورق فلم يكن يومئذ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ، سَمِعَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، قَالَ:" كُنَّا أَكْثَرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مُزْدَرَعًا، كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ بِالنَّاحِيَةِ مِنْهَا مُسَمًّى لِسَيِّدِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَمِمَّا يُصَابُ ذَلِكَ وَتَسْلَمُ الْأَرْضُ، وَمِمَّا يُصَابُ الْأَرْضُ وَيَسْلَمُ ذَلِكَ، فَنُهِينَا وَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ فَلَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں حنظلہ بن قیس انصاری نے، انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مدینہ میں ہمارے پاس کھیت دوسروں سے زیادہ تھے۔ ہم کھیتوں کو اس شرط کے ساتھ دوسروں کو جوتنے اور بونے کے لیے دیا کرتے تھے کہ کھیت کے ایک مقررہ حصے (کی پیداوار) مالک زمین لے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ خاص اسی حصے کی پیداوار ماری جاتی اور سارا کھیت سلامت رہتا۔ اور بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا۔

Narrated Rafi` bin Khadij: We worked on farms more than anybody else in Medina. We used to rent the land at the yield of specific delimited portion of it to be given to the landlord. Sometimes the vegetation of that portion was affected by blights etc., while the rest remained safe and vice versa, so the Prophet forbade this practice. At that time gold or silver were not used (for renting the land). If they provided the seeds, they would get so-and-so much.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 520

   سنن النسائى الصغرى3921رافع بن خديجيزرع ثلاثة رجل له أرض فهو يزرعها رجل منح أرضا فهو يزرع ما منح رجل استكرى أرضا بذهب أو فضة
   سنن أبي داود3400رافع بن خديجيزرع ثلاثة رجل له أرض فهو يزرعها رجل منح أرضا فهو يزرع ما منح رجل استكرى أرضا بذهب أو فضة
   صحيح البخاري2327رافع بن خديجو أما الذهب والورق، فلم يكن يومئذ
   مسندالحميدي260رافع بن خديجما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم منتصرا من مظلمة ظلمها قط ما لم تنتهك محارم الله فإذا انتهك من محارم الله شيء كان أشدهم في ذلك غضبا، وما خير بين أمرين إلا اختار أيسرهما ما لم يكن مأثما
   مسندالحميدي410رافع بن خديجكنا أكثر الأنصار حقلا وكنا نقول للذي نخابره لك هذه القطعة ولنا هذه القطعة يزرعها لنا فربما أخرجت هذه ولم تخرج هذه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 3921  
´نقدی کے عوض زمین کا ٹھیکے`
«. . . إنما يزرع ثلاثة رجل له ارض فهو يزرعها او رجل منح ارضا فهو يزرع ما منح، او رجل استكرى ارضا بذهب او فضة . . .»
. . . کھیتی تین طرح کے لوگ کرتے ہیں: ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو . . . [سنن نسائي/كتاب المزارعة: 3921]

فقہ الحدیث
↰ یہ حدیث ممانعت والی احادیث کے مطلق نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے اور صراحت سے بتاتی ہے کہ نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کا معاملہ بالکل جائز و درست ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث\صفحہ نمبر: 35   
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2327  
´سونا اور چاندی کے عوض زمین کا ٹھیکے`
«. . . ومما يصاب الارض ويسلم ذلك، فنهينا واما الذهب والورق فلم يكن يومئذ . . .»
. . . بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ: 2327]

◈ امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«فيه دليل على جواز إجارة الأراضي، و ذهب عامة أهل العلم إلي جوازها بالدراهم و الدنانيز، و غيرها من صنوف الأموال، سواء كانت مما تنبت الأرض، أولا تنبت، إذا كان معلوما بالعيان، إو بالوصف، كما يجوز إجارة غير الأراضي من العبيد و الدواب و غيرها، و جملته إن ما جاز بيعه، جاز أن يجعل أجرة فى الإجازة۔»
اس حدیث میں زمین کو ٹھیکے پر لینے دینے کی دلیل ہے۔ اکثر اہل علم سونے، چاندی (نقدی) اور مال کی دوسری اقسام کے عوض زمین کے ٹھیکے کے جواز کے قائل ہیں، خواہ وہ چیز زمین سے اگتی ہو یا نہ اگتی ہو، بشرطیکہ اس کی مقدار اور کیفیت معلوم ہو۔ یہ (زمین کا کرایہ پر لینا دینا) اسی طرح جائز ہے، جیسے زمین کے علاوہ دوسری چیزیں، مثلا غلام، جانور وغیرہ کو کرائے پر لینا دینا جائز ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے، اس کو اجرت کے بدلے کرائے پر لینا دینا بھی جائز ہے۔۔۔ [شرح السنة للبغوي: 263/8]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«و ذهب جميع فقهاء الحديث الجامعون لطرقه كلهم، كأحمد بن حنبل و أصحابه كلهم من المتقدمين، والمتأخرين، وإسحاق بن راهويه، وأبي بكر أبي شبية، وسليمان بن داود الهاشمي، و أبي خيثمة زهير بن حرب، و أكثر فقهاء الكوفيين، كسفيان الثوري، و محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي، و أبي داوٗد، وجماهير فقهاء الحديث من المتأخرين: كابن المنذر، وابن خزيمة، والخطابي، وغيرهم، و أهل الظاهر، و أكثر أصحاب أبي حنيفة إلي جواز المزراعة والمؤعة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أصحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين»
سنت رسول، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل، سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث، مثلا امام احمد بن حنبل، آپ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام سلیمان بن داؤد ہاشمی، امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اکثر فقہائے کوفہ، جیساکہ امام سفیان ثوری، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد، امام بخاری، امام ابوداؤد اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث، مثلا امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ، خطابی اور اہل ظاہر، امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے۔۔۔۔ [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 95-94/29، القواعد النوانية الفقهية: 163]

◈ شیخ اسلام ثانی، عالم ربانی، امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و قال ابن المنذر: قد جائت الأخبار عن رافع بعلل، تدل على أن النهي كان بتلك العلل»
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے آنے والی (ٹھیکے کی ممانعت والی) روایات میں کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹھیکے کی ممانعت انہی وجوہات کی وجہ سے تھی (مطلق طور پر ٹھیکے کا معاملہ حرام نہ تھا)۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داود: 186/9]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«المخابرة التى نهاهم عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم هي التى كانوا يفعلونها من المخابرة الظالمة الجائزة، و هي التى جائت مفسرة فى أحاديثهم» ۔
زمین کے جس معاملے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، وہ اس معاملے کی وہ صورتیں ہیں، جو ظلم و زیادتی پر منبی تھیں، ان کی وضاحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث میں آ گئی ہے۔۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داوٗد: 193/9]

◈ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«فيه دليل على جواز كراء الأرض بالذهب والورق، وقد جاءت أحاديث مطلقة فى النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق»
اس حدیث میں زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے کا جواز موجود ہے۔ کچھ مطلق احادیث زمین کے ٹھیکے سے ممانعت کے بارے میں آئی ہیں، یہ حدیث اس اطلاق کی تفسیر و تقیید کرتی ہے (یعنی بتاتی ہے کہ ٹھیکہ نا جائز نہیں)۔۔۔۔ [احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: ص 380]
↰ معلوم ہوا کہ ٹھیکے کی غلط صورتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، نہ کہ مطلق ٹھیکے سے، کیونکہ خود راویٔ حدیث سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ انصار ٹھیکے کے وقت جگہ مقرر کر لیتے تھے کہ زمین کے اس ٹکڑے کی پیدوار ٹھیکے والے کو اور اس ٹکڑے کی مالک کو ملے گی، یوں کبھی ٹھیکے والے کو نقصان ہو جاتا کبھی مالک کو۔ اسی طرح معاملہ یوں طے پاتا کہ زمین سے پیداوار کم ہو یا زیادہ، مالک نے مقررہ مقدار غلہ لینا ہے۔ اس صورت میں بھی ایک فریق کو نقصان کا خدشہ ہوتا تھا، اس لیے اسے بھی شریعت نے ممنوع ٹھہرایا۔ رہی نقدی کے عوض ٹھیکے کی صورت تو یہ اس دور میں تھی ہی نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ممنوع کیسے ہو سکتی ہے؟ فقہائے کرام اور محدثین عظام کا فہم بھی یہی ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2327  
2327. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ تمام اہل مدینہ سے ہمارے کھیت زیادہ تھے اور ہم زمین کو بایں شرط بٹائی پر دیا کرتے تھے کہ زمین کے ایک خاص حصے کی پیداوار مالک زمین کی ہوگی، چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھیت کے اس معین حصے پر آفت آجاتی اور باقی زمین کی پیداوار اچھی رہتی اور کبھی باقی کھیت پر آفت آجاتی اور معین قطعہ سالم رہتا بنا بریں ہمیں اس معاملے سے روک دیاگیا۔ اورسونے چاندی کے عوض (ٹھیکے پر) دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2327]
حدیث حاشیہ:
نقدی کرایہ کا معاملہ اس وقت نہیں ہوا کرتا تھا۔
اس صورت مذکورہ میں مالک اور کاشتکار ہر دو کے لیے نفع کے ساتھ نقصان کا بھی ہر وقت احتمال تھا۔
اس لیے اس صورت سے اس معاملہ کو منع کر دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2327   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2327  
2327. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ تمام اہل مدینہ سے ہمارے کھیت زیادہ تھے اور ہم زمین کو بایں شرط بٹائی پر دیا کرتے تھے کہ زمین کے ایک خاص حصے کی پیداوار مالک زمین کی ہوگی، چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھیت کے اس معین حصے پر آفت آجاتی اور باقی زمین کی پیداوار اچھی رہتی اور کبھی باقی کھیت پر آفت آجاتی اور معین قطعہ سالم رہتا بنا بریں ہمیں اس معاملے سے روک دیاگیا۔ اورسونے چاندی کے عوض (ٹھیکے پر) دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2327]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، گویا عنوان سابق سے ایک گونہ تعلق ہے، وہ اس طرح کہ زمین کو کچھ مدت تک بٹائی پر لیا، اب اسے حق ہے کہ اس میں جو چاہے کاشت کرے لیکن جب مدت ختم ہو جائے گی تو مالک زمین کو حق ہو گا کہ وہ اپنے درخت اکھاڑ کر یا فصل اٹھا کر خاص زمین مالک کے حوالے کرے، اس لحاظ سے عنوان سابق "قطع اشجار" سے کچھ مناسبت ہے۔
امام بخاری ؒ کے مزاج کے مطابق اس قدر مناسبت ہی کافی ہے۔
(عمدة القاري: 16/9) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بٹائی پر زمین دینا جائز ہے لیکن زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار لینے کی شرط لگانا جائز نہیں۔
(3)
نقدی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج راوی کے بیان کے مطابق اس وقت نہیں تھا لیکن اسی راوی کا بیان ہے کہ درہم و دینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔
(صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2346)
اس موضوع پر مکمل بحث آئندہ ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2327   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.