الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
61. بَابُ الْبَوْلِ عِنْدَ صَاحِبِهِ وَالتَّسَتُّرِ بِالْحَائِطِ:
61. باب: اپنے (کسی) ساتھی کے قریب پیشاب کرنا اور دیوار کی آڑ لینا۔
(61) Chapter. To urinate beside one’s companion while screened by a wall.
حدیث نمبر: 225
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن حذيفة، قال:" رايتني انا والنبي صلى الله عليه وسلم نتماشى، فاتى سباطة قوم خلف حائط، فقام كما يقوم احدكم فبال، فانتبذت منه، فاشار إلي فجئته، فقمت عند عقبه حتى فرغ".حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ:" رَأَيْتُنِي أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَتَمَاشَى، فَأَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ خَلْفَ حَائِطٍ، فَقَامَ كَمَا يَقُومُ أَحَدُكُمْ فَبَالَ، فَانْتَبَذْتُ مِنْهُ، فَأَشَارَ إِلَيَّ فَجِئْتُهُ، فَقُمْتُ عِنْدَ عَقِبِهِ حَتَّى فَرَغَ".
ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے، وہ حذیفہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جا رہے تھے کہ ایک قوم کی کوڑی پر (جو) ایک دیوار کے پیچھے (تھی) پہنچے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہو گئے جس طرح ہم تم میں سے کوئی (شخص) کھڑا ہوتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا اور میں ایک طرف ہٹ گیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (پردہ کی غرض سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں کے قریب کھڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ ہو گئے۔ (بوقت ضرورت ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔)

Narrated Hudhaifa': The Prophet and I walked till we reached the dumps of some people. He stood, as any one of you stands, behind a wall and urinated. I went away, but he beckoned me to come. So I approached him and stood near his back till he finished.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 225

   صحيح البخاري225حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم خلف حائط فقام كما يقوم أحدكم فبال فانتبذت منه فأشار إلي فجئته فقمت عند عقبه حتى فرغ
   صحيح البخاري2471حذيفة بن حسيلبال قائما
   صحيح البخاري226حذيفة بن حسيلبال قائما
   صحيح مسلم625حذيفة بن حسيلأتى سباطة خلف حائط فقام كما يقوم أحدكم فبال فانتبذت منه فأشار إلي فجئت فقمت عند عقبه حتى فرغ
   سنن النسائى الصغرى28حذيفة بن حسيلمشى إلى سباطة قوم فبال قائما
   سنن النسائى الصغرى26حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم فبال قائما
   سنن النسائى الصغرى27حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم فبال قائما
   سنن ابن ماجه305حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم فبال عليها قائما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 26  
´صحرا (میدان) میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی رخصت۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے کوڑا خانہ پر آئے تو کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 26]
26۔ اردو حاشیہ:
① مذکورہ روایت اور اس کی تفہیہم پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے، سنن نسائي حدیث: 18 یہاں دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔
´قضائے حاجت کے لیے دور نہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہو گیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 18]

18۔ اردو حاشیہ:
➊ سنن نسائي حدیث ۱۸ کی یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انہیں کہا: اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہو گیا۔
➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ [السنن الکبریٰ، للبیھقی: 101/1]
یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: 274، مع شرح النووي]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، «وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……» زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا…… [فتح الباري: 430/1، طبع دارالسلام]
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہو کر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

② سنن نسائي میں اس باب کی پہلی حدیث سلیمان اعمش، ابووائل سے اور وہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور دوسری حدیث میں ابووائل کے شاگرد منصور ہیں، اس میں منصور نے ابووائل سے سماع کی صراحت فرمائی ہے اور تیسری حدیث میں سلیمان اور منصور دونوں ابووائل سے بیان کرتے ہیں لیکن منصور نے صرف آپ کے پیشاب کرنے کا ذکر کیا ہے جبکہ سلیمان نے اس کے بعد موزوں پر مسح کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث305  
´کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حکم کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 305]
اردو حاشہ:
(1)
پیشاب کرنے کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیٹھ کر اس حاجت سے فراغت حاصل کی جائے۔
نبی کریمﷺ کی اکثر عادت مبارکہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی تھی۔

(2)
اس مقام پر نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔
ممکن ہے اس کا سبب امت کو یہ بتانا ہو کہ یہ بھی جائز ہے تاکہ اگر کسی کو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ حرج محسوس نہ کرے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے کوئی ایسی ضرورت محسوس کی ہو، مثلاً:
بیٹھ کر پیشاب کرنے کی صورت میں جسم یا کپڑوں پر چھینٹے پڑنے کا اندیشہ محسوس ہوا ہو۔
یا کسی عذر کی وجہ سے بیٹھنے میں مشقت محسوس ہوئی ہو۔
واللہ أعلم،  تاہم یہ احتیاط ضروری ہے کہ پیشاب کے چھینٹے کپڑے یا جسم پر نہ پڑیں۔

(3)
کچھ لوگوں کی کوڑا پھینکنے کی جگہ کا مطلب یہ ہے کہ اس محلے کے لوگ اپنا کوڑا کرکٹ وہاں پھینکا کرتے تھے۔

(4)
نبیﷺ نے پیشاب کے لیے وہ جگہ اس لیے پسند فرمائی کہ وہاں دیوار کی اوٹ موجود تھی اس لیے پردے کا اہتمام بہتر طور پر ممکن تھا۔ دیکھیے:  (صحیح مسلم، الطھارۃ، باب المسح علی الخفین حدیث: 273)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 305   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:225  
225. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں خود کو اور نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم جا رہے ہیں۔ آپ کسی قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے) پر پہنچے جو ایک دیوار کی پشت پر تھا اور آپ وہاں اس طرح کھڑے ہوئے جس طرح تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہوتا ہے، پھر پیشاب کیا۔ میں آپ کے قریب سے ہٹ گیا۔ آپ نے اشارے سے مجھے بلایا۔ میں حاضر ہوا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تا آنکہ آپ پیشاب سے فارغ ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:225]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تو بہت دور تشریف لے جاتے اورآپ کوکوئی دیکھ نہ سکتاتھا۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 2۔
1)

براز(پاخانے)
کے لیے چونکہ دوطرفہ پردے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آپ دور تشریف لے جایا کرتے تھے۔
پیشاب میں ایک طرف آڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔
لہٰذا براز کی طرح دور جانے کے اہتمام کی ضرورت نہیں۔
وہ لوگوں کی موجودگی میں بلکہ کسی کو پردے کی غرض سے پاس کھڑا کر کے بھی یہ حاجت پوری کی جاسکتی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مقصد کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اورحدیث حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ پیش کیا ہے۔
عرب کے ہاں بول وبراز کے وقت بے حجابی عام تھی، اس کا تعلق اسلامی تہذیب سے نہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسلامی تہذیب کو بایں الفاظ واضح کردیا ہے:
دو شخص اس طرح قضائے حاجت کے لیے نہ نکلیں کہ اس وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنا ستر کھولیں اور آپس میں باتیں کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے نارض ہوتا ہے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 15)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے قریب بلانا اشارے سے تھا، زبان سے بول کر نہیں بلایا تھا۔
اور روایت بخاری کے پیش نظر صحیح مسلم کے الفاظ کو اشارہ غیر لفظیہ پر محمول کریں گے، لہٰذا اس حدیث سے حالت بول میں جواز کلام پر استدلال درست نہیں ہے۔
(فتح الباري: 429/1)
رسول اللہ ﷺ ایسے وقت میں سلام کا جواب بھی نہیں دیتے تھے۔
حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ پیشاب کررہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 225   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.