الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
77. بَابُ : الدُّعَاءِ
77. باب: جنازے کی دعا کا بیان۔
Chapter: Supplication
حدیث نمبر: 1985
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، عن ابن وهب، قال: اخبرني عمرو بن الحارث، عن ابي حمزة بن سليم، عن عبد الرحمن بن جبير، عن ابيه، عن عوف بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة يقول:" اللهم اغفر له وارحمه واعف عنه , وعافه واكرم نزله , ووسع مدخله واغسله بماء وثلج وبرد , ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الابيض من الدنس وابدله دارا خيرا من داره واهلا خيرا من اهله وزوجا خيرا من زوجه , وقه عذاب القبر وعذاب النار" , قال عوف: فتمنيت ان لو كنت الميت لدعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم لذلك الميت.
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاعْفُ عَنْهُ , وَعَافِهِ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ , وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ , وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ , وَقِهِ عَذَابَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ" , قَالَ عَوْفٌ: فَتَمَنَّيْتُ أَنْ لَوْ كُنْتُ الْمَيِّتَ لِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ الْمَيِّتِ.
عوف بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ ایک جنازے کی نماز میں کہہ رہے تھے: «اللہم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بماء وثلج وبرد ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وأبدله دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وزوجا خيرا من زوجه وقه عذاب القبر وعذاب النار» اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم کر، اسے معاف کر دے، اسے عافیت دے، اس کی (بہترین) مہمان نوازی فرما، اس کی (قبر) کشادہ کر دے، اسے پانی برف اور اولے سے دھو دے، اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اس کو بدلے میں اس کے گھر سے اچھا گھر، اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے، اور اس کی بیوی سے اچھی بیوی عطا کر، اور اسے عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس میت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا (سن کر) میں نے آرزو کی: کاش! اس کی جگہ میں ہوتا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 62 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
   سنن النسائى الصغرى62عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله...
   سنن النسائى الصغرى1985عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله ...
   سنن النسائى الصغرى1986عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله...
   صحيح مسلم2232عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ...
   صحيح مسلم2234عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله...
   جامع الترمذي1025عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه واغسله بالبرد واغسله كما يغسل الثوب...
   سنن ابن ماجه1500عوف بن مالكاللهم صل عليه واغفر له وارحمه وعافه واعف عنه واغسله...
   بلوغ المرام457عوف بن مالكاللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله...

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 457  
´نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے`
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں سے اتنا حصہ یاد کر لیا اے اللہ! اس کی مغفرت فرما دے، اس پر رحم فرما، اسے عافیت و آرام سے رکھ، اس سے درگزر فرما، اس کی مہمان نوازی اچھی فرما، اس کی قبر کشادہ و فراخ کر دے، اسے پانی، برف اور ژالوں (اولوں) سے دھو دے (بالکل صاف کر دے) اسے گناہوں سے ایسا صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اور اسے دنیاوی گھر سے بہتر اور عمدہ گھر اور اہل و عیال سے بہتر اہل و عیال عطا فرما، اسے جنت میں داخل فرما، اسے قبر کے فتنہ و آزمائش اور عذاب دوزخ سے محفوظ رکھ۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 457]
لغوی تشریح:
«نُزُلَهُ» نون اور زا دونوں پر ضمہ ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ زا ساکن ہو، یعنی مہمان کے سامنے پیش کی جانے والی خورد و نوش کی کوئی چیز۔ اس جگہ اجر و ثواب مراد ہے۔
«وَسّعْ» توسیع سے ماخوذ ہے اور دعا کے لیے امر کا صیغہ ہے۔ کشادہ و وسیع کر۔
«مَدْخَلَهُ» میم پر فتحہ ہے البتہ میم پر ضمہ پڑھنا بھی درست ہے۔ جائے داخلہ، لیکں یہاں قبر مراد ہے۔
«اَلْبَرَدِ» با اور را دونوں پر فتحہ ہے اولے مراد ہیں۔
«نَقّهِ» قاف پر تشدید ہے۔ «تنقية» سے ماخوذ دعائیہ کلمہ ہے کہ پاک کر دے، صاف ستھرا کر دے۔
«اَلدَّنَسِ» دال اور نون دونوں پر فتحہ، میل کچیل۔
«اُبْدِلْهُ» ابدال (باب افعال) سے ماخوذ ہے۔ بدل دے، اس کے عوض عطاکر۔
«وَقَهِ» اس میں واو عطف کی ہے۔ قاف کے نیچے کسرہ ہے جو «وقاية» سے ماخوذ دعائیہ کلمہ ہے اور ہ ضمیر میت کی طرف راجع ہے، یعنی بچا اسے، حفاظت فرما اس کی، محفوظ رکھ اسے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ دعا بھی بلند آواز سے پڑھی تھی، تبھی تو حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اسے یاد کر لیا تھا۔ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں تو صراحتاً منقول ہے کہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه واله وسلم صَلّٰي عَلٰي رَجُلٟ مَنَ الْاَنْصَارِ فَسَمِعْتُهُ . . .» میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کا جنازہ پڑھایا۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔۔۔ [سنن ابن ماجه، الجنائز، باب ماجاء فى الدعاء فى الصلاة على الجنازة، حديث: 1500]
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے نماز جنازہ بآواز بلند پڑھائی تھی، اس لیے مذکورہ حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے جبکہ بعض علماء اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ دعا میں چونکہ افضل یہ ہے کہ آہستہ مانگی جائے۔ اس لیے اکثر فقہاء نے آہستہ پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے اور اکثر احادیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے، البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح بطور تعلیم اونچی آواز سے پڑھا جائے تو اس میں اعتراض کی گنجائش نہیں۔ «والله اعلم»

راوی حدیث:
[ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ] شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔ قبیلہ اشجع سے تعلق کی وجہ سے اشجعی کہلائے۔ غزوہ خیبر میں پہلی مرتبہ شریک جہاد ہوئے۔ فتح مکہ کے روز قبیلہ اشجع کا علم ان کے ہاتھ میں تھا۔ شام میں سکونت اختیار کی۔ ۷۳ ہجری میں وہیں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 457   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1985  
´جنازے کی دعا کا بیان۔`
عوف بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ ایک جنازے کی نماز میں کہہ رہے تھے: «اللہم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بماء وثلج وبرد ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وأبدله دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وزوجا خيرا من زوجه وقه عذاب القبر وعذاب النار» اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم کر، اسے معاف کر دے، اسے عافیت دے، اس کی (بہترین) مہمان نوازی فرما، اس کی (قبر) کشادہ کر دے، اسے پانی برف اور اولے سے دھو دے، اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اس کو بدلے میں اس کے گھر سے اچھا گھر، اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے، اور اس کی بیوی سے اچھی بیوی عطا کر، اور اسے عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا۔‏‏‏‏ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس میت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا (سن کر) میں نے آرزو کی: کاش! اس کی جگہ میں ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1985]
1985۔ اردو حاشیہ:
سنا معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ بلند آواز سے پڑھ رہے تھے، لہٰذا جنازے میں جہر جائز ہے۔ ظاہر یہی ہے کہ مکمل جنازہ جہراً تھا، مگر کہا: جا سکتا ہے کہ اس حدیث سے صرف دعا کا جہر ثابت ہوتا ہے، البتہ یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ قرأت آہستہ ہو مگر دعا جہر کے ساتھ، جبکہ نماز میں تو دعا آہستہ ہونے کے باوجود بعض صورتوں میں قرأت جہراً ہوتی ہے، نیز درود بھی تو دعا ہی ہے، لہٰذا دعا کا جہر قرأت اور درود کے جہر کو بھی مستلزم ہے۔
سفید کپڑا کیونکہ سفید کپڑا اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے ورنہ اس پر داغ دھبے نمایاں ہوں گے۔ اس تمثیل سے مراد معافی میں مبالغہ ہے۔
جوڑے یہ معنی اس لیے کیا گیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہو سکے۔ مرد کے لیے بیوی جوڑا ہے اور عورت کے لیے خاوند۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ عورت کے جنازے میں یہ لفظ: «وزوجا خیرا من زوجھا» نہ کہا جائے کیونکہ ہو سکتا ہے، اس کا دنیوی خاوند ہی آخرت میں بھی اس کا خاوند ہو اور خاوند ایک سے زائد نہیں ہو سکتے جبکہ بیویاں ایک سے زائد ہوں گی مگر یہ غیر ضروری تکلف ہے کیونکہ جنتی خاوند، خواہ سابقہ ہی ہو، دنیوی خاوند سے رتبے اور درجے میں بہرصورت بہتر ہو گا ورنہ دنیوی بیوی بھی جنت میں بیوی نہ بن سکے گی۔ جبکہ احادیث میں نیک دنیوی بیوی کے آخرت میں اسی شخص کی بیوی ہونے کی صراحت ہے۔
➍ جمہور اہل علم کے نزدیک پہلی تکبیر کے بعد ثنا، سورۂ فاتحہ اور قرأت، دوسری کے بعد درود، تیسری کے بعد دعا اور چوتھی کے بعد سلام ہو گا۔ پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھنے کے متعلق اس کتاب کا ابتدائیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔
➎ بعض اہل علم عید کی زائد تکبیرات کی طرح جنازے کی چاروں تکبیروں کو بھی شروع میں اکٹھا کہنے کے قائل ہیں، یعنی چاروں تکبیرات کہنے کے بعد مسلسل ثنا، سورۂ فاتحہ، قرأت، درود اور دعا و سلام ہوں گے مگر اس طریقے سے نماز جنازہ نماز عید کے مشابہ ہو جائے گی اور نماز جنازہ کا امتیاز ختم ہو جائے گا، لہٰذا پہلا طریقہ ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1985   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1500  
´نماز جنازہ کی دعا۔`
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری شخص کی نماز جنازہ پڑھائی، میں حاضر تھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا: «اللهم صل عليه واغفر له وارحمه وعافه واعف عنه واغسله بماء وثلج وبرد ونقه من الذنوب والخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وأبدله بداره دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وقه فتنة القبر وعذاب النار» اے اللہ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما، اسے بخش دے، اس پر رحم کر، اسے اپنی عافیت میں رکھ، اسے معاف کر دے، اور اس کے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے، اور اسے غلطیوں اور گناہوں سے ایس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1500]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ دعا بھی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں صرف میت کے لئے دعا ہے جو نماز جنازہ کا اصل مقصود ہے۔

(2)
پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھونے سے اس کی کامل صفائی اور طہارت سے مراد ہے۔
چونکہ گناہوں کا شیطان سے اور جہنم کی آگ سے تعلق ہے۔
اس لئے گناہوں کا اثر ختم کرنے کےلئے ٹھنڈی چیزوں کاذکر کیا گیا۔

(3)
دنیا کے گھر سے بہتر گھر جنت کا گھر ہے اور دنیا کے اہل وعیال سے بہتراہل وعیال جنت کی حوریں ہیں۔
اس لحاظ سے یہ اس کے لئے دخول جنت کی دعا ہے۔

(4)
اس میں عذاب قبر کا ثبوت ہے۔

(5)
اس میں نماز جنازہ جہری آواز سے پڑھنے کا بھی ثبوت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1500   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.