الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
The Book of Al-Mazalim
18. بَابُ قِصَاصِ الْمَظْلُومِ إِذَا وَجَدَ مَالَ ظَالِمِهِ:
18. باب: مظلوم کو اگر ظالم کا مال مل جائے تو وہ اپنے مال کے موافق اس میں سے لے سکتا ہے۔
(18) Chapter. The retaliation of the oppressed person if he finds the property of his oppressor.
حدیث نمبر: Q2460
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن سيرين: يقاصه، وقرا وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به سورة النحل آية 126.وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: يُقَاصُّهُ، وَقَرَأَ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ سورة النحل آية 126.
اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کہا اپنا حق برابر لے سکتا ہے۔ پھر انہوں نے (سورۃ النحل کی) یہ آیت پڑھی، «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به‏» اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی جتنا تمہیں ستایا گیا ہو۔

حدیث نمبر: 2460
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني عروة، ان عائشة رضي الله عنها، قالت: جاءت هند بنت عتبة بن ربيعة، فقالت" يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل مسيك، فهل علي حرج ان اطعم من الذي له عيالنا؟ فقال: لا حرج عليك ان تطعميهم بالمعروف".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ هِنْدُ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَقَالَتْ" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟ فَقَالَ: لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُطْعِمِيهِمْ بِالْمَعْرُوفِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند رضی اللہ عنہا حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ابوسفیان (جو ان کے شوہر ہیں وہ) بخیل ہیں۔ تو کیا اس میں کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے لے کر اپنے بال بچوں کو کھلایا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دستور کے مطابق ان کے مال سے لے کر کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

Narrated Aisha: Hind bint `Utba (Abu Sufyan's wife) came and said, "O Allah's Apostle! Abu Sufyan is a miser. Is there any harm if I spend something from his property for our children?" He said, there is no harm for you if you feed them from it justly and reasonably (with no extravagance).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 43, Number 640

   صحيح البخاري5370عائشة بنت عبد اللهخذي بالمعروف
   صحيح البخاري7180عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري2460عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم بالمعروف
   صحيح البخاري7161عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم من معروف
   صحيح البخاري5364عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري5359عائشة بنت عبد اللهلا إلا بالمعروف
   صحيح البخاري2211عائشة بنت عبد اللهخذي أنت وبنوك ما يكفيك بالمعروف
   سنن أبي داود3532عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وبنيك بالمعروف
   سنن أبي داود3533عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تنفقي بالمعروف
   سنن النسائى الصغرى5422عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   سنن ابن ماجه2293عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   بلوغ المرام975عائشة بنت عبد الله خذي من ماله بالمعروف ما يكفيك ويكفي بنيك
   مسندالحميدي244عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2293  
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو سوائے اس کے جو میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (اس کے بارے میں فرمائیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2293]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنا خاوند کا فرض ہے۔

(2)
مسئلہ دریافت کرتے وقت حقیقت حال واضح کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کیا جائے تو یہ غیبت میں شامل نہیں، اس لیےجائز ہے۔

(3)
جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(4)
مناسب حد کا تعین حالات، ماحول، خاوند کی مالی حالت اور ضرورت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2293   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 975  
´نفقات کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہند بنت عتبہ، ابوسفیان کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہے۔ مجھے وہ اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کیلئے کافی ہو مگر یہ کہ میں پوشیدہ طور پر کچھ لے لوں تو ایسا کرنے میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلے طریقے سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے کافی ہو۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 975»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل فللمرأة أن تأخذ بغير علمه...، حديث:5364، ومسلم، الأقضية، باب قضية هند، حديث"1714.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند اگر استطاعت کے باوجود اخراجات پورے ادا نہ کرے تو بیوی اسے بتائے بغیر اتنا خرچہ اس کے مال میں سے لے سکتی ہے جس سے اس کی جائز ضروریات پوری ہو سکتی ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اپنا جائز حق جس طرح وصول ہو سکتا ہو‘ کیا جا سکتا ہے۔
اور ناانصافی کے ازالے کی غرض سے شکوہ کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں آتا۔
2. بیوی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں اپنے شوہر کی شکایت لے جانے کی مجاز ہے۔
یہ شکایت بھی غیبت میں شمار نہیں‘ اگر یہ غیبت کی تعریف میں آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہند کو منع فرما دیتے۔
وضاحت: «حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے شوہر ابوسفیان کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلام قبول کیا۔
ان کا والد عتبہ‘ چچا شیبہ اور بھائی ولید غزوۂ بدر کے روز قتل کیے گئے تھے۔
یہ واقعہ ان کی طبیعت پر بڑا شاق گزرا‘ چنانچہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو انھوں نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکال کر چبایا‘ پھر اسے باہر پھینک دیا۔
محرم ۱۴ ہجری میں وفات پائی۔
سن وفات کے متعلق دیگر اقوال بھی ہیں۔
«حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکہ آرائی میں کفار کے علمبردار‘ قائد اور سپہ سالار ہوتے تھے۔
فتح مکہ کے موقع پر اسلام اس وقت قبول کیا جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنی پناہ و حفاظت میں انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ دخول مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔
ان کا اسلام بہت عمدہ اور خوب رہا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 975   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3532  
´کیا کسی آدمی کا ماتحت اس کے مال سے اپنا حق لے سکتا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) کہا: ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خرچ کے لیے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لیے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3532]
فوائد ومسائل:

بیوی اور بچوں کا خرچ شوہر کے ذمے ہے۔
اور اس پر واجب ہے۔
کہ دستور کے مطابق مہیا کرے۔


مصلحت کی غرض سے زوجین یا احباب ایک دوسرے کے بعض عیب ذکر کریں تو جائز ہے۔


بعض اوقات قاضی اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر گواہ طلب کئے بغیر بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔


اگر کوئی شخص کسی کا حق ادا نہ کر رہا ہو تو جائز ہے۔
کہ اس کے امانتی مال میں سے اپنے حق کے برابر ل لے۔
(خطابی نیز دیکھئے حدیث 3534)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3532   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2460  
2460. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہندبنت عتبہ ربیعہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ابو سفیان ؓ بڑے کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں ان کے مال میں سے کچھ لے کر اپنے بال بچوں کو کھلاؤں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر تم بچوں کو رواج کے مطابق کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2460]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام شافعی ؒ نے اسی حدیث پر فتوی دیا ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مل جائے مظلوم اپنے مال کی مقدار میں اسے لے سکتا ہے، متاخرین احناف کا بھی فتوی یہی ہے۔
(تفہیم البخاری،پ: 9، ص: 124)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2460   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2460  
2460. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہندبنت عتبہ ربیعہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ابو سفیان ؓ بڑے کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں ان کے مال میں سے کچھ لے کر اپنے بال بچوں کو کھلاؤں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر تم بچوں کو رواج کے مطابق کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2460]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مظلوم کو مل جائے وہ اپنے مال کی حقدار کے مطابق اس سے لے سکتا ہے۔
انہوں نے اپنے مسلک کی ترجیح کے لیے امام ابن سیرین ؒ کا قول بھی حسب عادت ذکر کیا ہے۔
ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ جب کسی کو قاضی کے ذریعے سے اپنا حق لینا ممکن نہ ہو اور انکار کی صورت میں صاحب حق کے پاس گواہ بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی طریقے سے اپنا حق وصول کر سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہند ؓ کو معروف اور دستور کے مطابق ابو سفیان ؓ کے مال سے بچوں کا خرچہ لینے کی اجازت دی۔
(2)
دستور کے مطابق ہونے کا تعلق ترازو سے نہیں بلکہ جسے سمجھ دار آدمی کہے کہ اتنا ہے تو وہ لے لینا چاہیے۔
وہ معروف کے مطابق ہو گا۔
اس کی آڑ میں شاہ خرچیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2460   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.