حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، قال: اخبرني محمد بن زياد، سمعت ابا هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" إذا اتى احدكم خادمه بطعامه، فإن لم يجلسه معه فليناوله لقمة او لقمتين او اكلة او اكلتين، فإنه ولي علاجه".حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ فَليُنَاوِلْهُ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ أَوْ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ، فَإِنَّهُ وَلِيَ عِلَاجَهُ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب کسی کا غلام کھانا لائے اور وہ اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اسے ایک یا دو نوالے ضرور کھلا دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لقمة أو لقمتين» کے بدل «أكلة أو أكلتين» فرمایا (یعنی ایک یا دو لقمے) کیونکہ اسی نے اس کو تیار کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "When your servant brings your meals to you then if he does not let him sit and share the meals, then he should at least give him a mouthful or two mouthfuls of that meal or a meal or two meals, as he has prepared it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 732
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3846
´مالک کے ساتھ خادم کے کھانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کسی کے لیے اس کا خادم کھانا بنائے پھر اسے اس کے پاس لے کر آئے اور اس نے اس کے بنانے میں گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے تو چاہیئے کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ بٹھائے تاکہ وہ بھی کھائے، اور یہ معلوم ہے کہ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس کے ہاتھ پر ایک یا دو لقمہ ہی رکھ دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3846]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ : غلاموں اور خادموں کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کی ہر ممکن دلجوئی اسلامی تہذیب وثقافت کا حصہ ہے۔ ان کا دل توڑنا ان کو حقیر سمجھنا یا ان کی تحقیر کرنا بہت بڑا عیب ہے۔ اور شرعا بھی درست نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3846
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2557
2557. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے پاس اس کاخادم کھانا لے کر آئے تو اگر اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اس کوایک یادو لقمے ضرور کھلادے، یا آپ ﷺ نے (لقمة اور لقمتين کے بجائے) أكلة أو أكلتين فرمایا۔ کیونکہ اس نے اس (کو تیار کرنے) کی زحمت اٹھائی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2557]
حدیث حاشیہ: لفظ خادم میں غلام، نوکر چاکر، شاگرد سب داخل ہو سکتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2557
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2557
2557. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے پاس اس کاخادم کھانا لے کر آئے تو اگر اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اس کوایک یادو لقمے ضرور کھلادے، یا آپ ﷺ نے (لقمة اور لقمتين کے بجائے) أكلة أو أكلتين فرمایا۔ کیونکہ اس نے اس (کو تیار کرنے) کی زحمت اٹھائی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2557]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں مکارم اخلاق کی تعلیم و ترغیب ہے۔ جب کوئی شخص کھانا تیار کرے تو اسے محنت کا پھل دینا چاہیے کیونکہ اس نے آگ کی گرمی اور دھواں وغیرہ برداشت کیا ہے۔ خادم کو اپنے ساتھ بٹھانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک یا دو لقمے اسے ضرور دینے چاہئیں، نیز لفظ خادم میں نوکر چاکر اور شاگرد وغیرہ سب شامل ہو سکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2557