الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مال فی کی تقسیم سے متعلق احکام و مسائل
The Book of Distribution of Al-Fay'
حدیث نمبر: 4146
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: حدثنا محبوب يعني ابن موسى، قال: انبانا ابو إسحاق هو الفزاري، عن شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن عائشة , ان فاطمة ارسلت إلى ابي بكر , تساله ميراثها من النبي صلى الله عليه وسلم من صدقته , ومما ترك من خمس خيبر؟، قال ابو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا نورث".
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق هُوَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ فَاطِمَةَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ , تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَدَقَتِهِ , وَمِمَّا تَرَكَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخمس 1(3092)، فضائل الصحابة 12 (3711)، المغازي 14 (4035، 4036)، 38 (4240، 4241)، الفرائض 3 (6725)، صحیح مسلم/الجہاد 16 (1759)، سنن ابی داود/الخراج 19 (2968، 2969، 2970)، (تحفة الأشراف: 6630)، مسند احمد (1/4، 6، 9، 10) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري6730عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح البخاري4241عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح البخاري4036عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح البخاري3712عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا فهو صدقة
   صحيح البخاري6726عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح مسلم4582عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   صحيح مسلم4579عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا فهو صدقة
   صحيح مسلم4580عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   سنن أبي داود2976عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا فهو صدقة
   سنن أبي داود2968عائشة بنت عبد اللهلا نورث ما تركنا صدقة
   سنن النسائى الصغرى4146عائشة بنت عبد اللهلا نورث
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم326عائشة بنت عبد اللهلا نورث، ما تركنا فهو صدقة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 326  
´حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بے حد احتیاط کرنی چاہئے`
«. . . انها قالت: إن ازواج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم اردن ان يبعثن عثمان بن عفان إلى ابى بكر الصديق فيسالنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت لهن عائشة: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نورث، ما تركنا فهو صدقة . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یہ ارادہ کیا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ن سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 326]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6730، ومسلم 1758/51، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ یہ حدیث ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 100، لقط اللآلي 26، اونظم المتناثر 272]
➋ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک صحیح حدیث کا علم سارے علماء کو ضرور بالضرور ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بعض علماء کو علم کے باوجود وہ حدیث یا دلیل اس وقت یاد نہ ہو پھر جب اس کی ضرورت پڑے یا کسی کے یاد دلانے سے یاد آ جائے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا: میرے علم کے مطابق میرے پاس صرف یہی مال ہے، ۱ دودھ دینے والی اونٹنی، ۲ تلواریں پالش کرنے والا غلام۔ جب میں فوت ہو جاؤں تو یہ (دونوں) عمر کے حوالے کر دینا۔ جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی گئیں تو انہوں نے فرمایا: ابوبکر پر اللہ رحم کرے، انہوں نے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ [طبقات ابن سعد 192/3، وسنده صحيح]
● معلوم ہوا کہ حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بےحد احتیاط کرنی چاہئے تاکہ موت کے بعد ہونے والے مواخذے سے بچ جائیں۔ ہر آدمی کو روز محشر اس کا نامہ اعمال تھما دیا جائے گا جس میں ہر چھوٹا بڑا عمل تفصیل سے درج ہو گا۔
➍ شیعہ اسماء الرجال کی رو سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ابوعبدالله (جعفر بن محمد الصادق) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
«وإن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.» اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم اور دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لے لیا تو اس نے بڑاحصہ لے لیا۔ [الاصول من الكافي للكليني ج 34 باب ثواب العالم والمتعلم ح 1، وسنده صحيح عندالشيعة]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 44   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4146  
´باب:`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4146]
اردو حاشہ:
(1) پیچھے گزر چکا ہے کہ اہل بیت خمس کو اپنا حق سمجھتے تھے جبکہ دیگر صحابہ کے نزدیک خمس بیت المال کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ اس میں سے اہل بیت کے محتاج لوگوں سے تعاون کیا جائے گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خیال کے مطابق خیبر کے خمس، بنو نضیر کی زمینوں، فدک کی زمین اور صدقۃ النبی ﷺ سے وراثت طلب کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وضاحت فرمائی کہ یہ زمینیں آپ کی ذاتی نہیں بلکہ بیت المال کی ملکیت تھیں، لہٰذا ان میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔
(2) نبیﷺ کے صدقہ سے یہ زمین بعد میں اس نام سے مشہور ہوئی ورنہ اگر اسی وقت یہ صدقہ کے نام سے معروف تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سے وراثت طلب نہ فرماتیں۔ بعض دیگر روایات میں آتا ہے کہ یہ زمین ایک یہودی شخص (مخیریق) نے بطور وصیت آپ کے لیے ہبہ کی تھی۔
(3) وراثت نہیں چلتی کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی جائیداد نہیں بنائی، نہ غنیمت سے حصہ لیا بلکہ آپ غنیمت سے خمس وصول فرماتے تھے جس سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے بعد وہ مسملانوں کے مصالح میں صرف ہوتا تھا۔ گویا آپ نے خمس سے صرف ضروریات پوری کی تھیں، اسے اپنی ملکیت نہیں بنایا تھا بلکہ وہ دراصل بیت المال ہی کی ملکیت تھا۔ آپ کا یہ طرز عمل، اس لیے تھا کہ کوئی نابکار منافق یا کافر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے دعوائے نبوت صرف مال جمع کرنے کے لیے کیا ہے۔ جب آپ نے اپنی زندگی میں کوئی جائیداد ہی نہیں بنائی بلکہ جو کچھ آتا تھا، وہ بیت المال میں جمع فرماتے تھے، صرف اپنے ضروی اخراجات وصول فرماتے تھے تو پھر وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاتون ہونے کی وجہ سے اس حقیقت سے واقف نہ تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی آخری دور میں مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں اگر ان حضرات کو یہ بات معلوم نہ ہو سکی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جو کہ راز دار نبوت تھے، اس حقیقت سے مطلع تھے۔ یہ حدیث (ہمارے متروکہ مال میں وراثت نہیں چلتی) حضرت ابوبکر کے علاوہ بعض دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے بڑی دلیل رسول اللہ ﷺ کا اپنی زندگی میں طرز عمل تھا کہ آپ نے نہ کبھی غنیمت میں اپنا حصہ لیا، نہ خمس کو اپنا ذاتی مال سمجھا۔ صرف ضرورت کے لیے استعمال فرمایا۔ وراثت تو اس مال میں ہوتی ہے جو مملوکہ ہو۔ جب یہ مال (زمینیں وغیرہ) آپ کی ملکیت ہی نہیں تھا تو وراثت کیسے جاری ہوتی؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4146   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2968  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2968]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔
اور کوئی حکمران کسی کی خاطر بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام تبدیل نہیں کرسکتا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر مکمل طور پر مطمئین ہوگئے۔
ان کی طرف سے عدم اطمینان کا گمان بھی ان کی شان میں گستاخی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد جب ان اموال کا انتظام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد ان کی اولاد کو تفویض ہوا تو انہوں نے بھی بعینہ اسی طرح اس کا انتظام اور خرچ کیا۔
جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2968   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.