الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
The Book of Wasaya (Wills and Testaments)
36. بَابُ قَضَاءِ الْوَصِيِّ دُيُونَ الْمَيِّتِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الْوَرَثَةِ:
36. باب: میت پر جو قرضہ ہو وہ اس کا وصی ادا کر سکتا ہے گو دوسرے وارث حاضر نہ ہوں۔
(36) Chapter. The payments of the debts of the deceased by the executor (of the will) in the absence of other inheritors.
حدیث نمبر: 2781
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن سابق، او الفضل بن يعقوب عنه، حدثنا شيبان ابو معاوية، عن فراس، قال: قال الشعبي، حدثني جابر بن عبد الله الانصاري رضي الله عنهما، ان اباه استشهد يوم احد، وترك ست بنات، وترك عليه دينا، فلما حضر جداد النخل، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، قد علمت ان والدي استشهد يوم احد، وترك عليه دينا كثيرا، وإني احب ان يراك الغرماء، قال: اذهب فبيدر كل تمر على ناحيته، ففعلت، ثم دعوته، فلما نظروا إليه اغروا بي تلك الساعة، فلما راى ما يصنعون اطاف حول اعظمها بيدرا ثلاث مرات، ثم جلس عليه، ثم قال: ادع اصحابك، فما زال يكيل لهم حتى ادى الله امانة والدي، وانا والله راض ان يؤدي الله امانة والدي، ولا ارجع إلى اخواتي بتمرة، فسلم والله البيادر كلها حتى اني انظر إلى البيدر الذي عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم كانه لم ينقص تمرة واحدة".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، أَوْ الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْهُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، قَالَ: قَالَ الشَّعْبِيُّ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ، وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا، فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا كَثِيرًا، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ، قَالَ: اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَتِهِ، فَفَعَلْتُ، ثُمَّ دَعَوْتُهُ، فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ، فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ أَصْحَابَكَ، فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، وَأَنَا وَاللَّهِ رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، وَلَا أَرْجِعَ إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ، فَسَلِمَ وَاللَّهِ الْبَيَادِرُ كُلُّهَا حَتَّى أَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْبَيْدَرِ الَّذِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّه لَمْ يَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً".
ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا یا فضل بن یعقوب نے محمد بن سابق سے (یہ شک خود امام بخاری رحمہ اللہ کو ہے) کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن ابومعاویہ نے بیان کیا ‘ ان سے فراس بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شعبی نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے والد (عبداللہ رضی اللہ عنہ) احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے۔ اپنے پیچھے چھ لڑکیاں چھوڑی تھیں اور قرض بھی۔ جب کھجور کے پھل توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد ماجد احد کی لڑائی میں شہید ہو چکے ہیں اور بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں ‘ میں چاہتا تھا کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (تاکہ قرض میں کچھ رعایت کر دیں) لیکن وہ یہودی تھے اور وہ نہیں مانے ‘ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور کھلیان میں ہر قسم کی کھجور الگ الگ کر لو جب میں نے ایسا ہی کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ‘ قرض خواہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا تو سب سے بڑے کھجور کے ڈھیر کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چکر لگائے اور وہیں بیٹھ گئے پھر فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ ناپ کر دینا شروع کیا اور واللہ میرے والد کی تمام امانت ادا کر دی ‘ اللہ گواہ ہے کہ میں اتنے پر بھی راضی تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کا تمام قرض ادا کر دے اور میں اپنی بہنوں کیلئے ایک کھجور بھی اس میں سے نہ لے جاؤں لیکن ہوا یہ کہ ڈھیر کے ڈھیر بچ رہے اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس ڈھیر پر بیٹھے ہوئے تھے اس میں سے تو ایک کھجور بھی نہیں دی گئی تھی۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ «أغروا بي» (حدیث میں الفاظ) کے معنی ہیں کہ مجھ پر بھڑکنے اور سختی کرنے لگے۔ اسی معنی میں قرآن مجید کی آیت «فأغرينا بينهم العداوة والبغضاء» میں «فأغرينا» ہے۔

Narrated Jabir bin `Abdullah Al-Ansari: My father was martyred on the day (of the Ghazwa) of Uhud and left six daughters and some debts to be paid. When the time of plucking the date-fruits came, I went to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! you know that my father was martyred on Uhud's day and owed much debt, and I wish that the creditors would see you." The Prophet said, "Go and collect the various kinds of dates and place them separately in heaps"' I did accordingly and called him. On seeing him, the creditors started claiming their rights pressingly at that time. When the Prophet saw how they behaved, he went round the biggest heap for three times and sat over it and said, "Call your companions (i.e. the creditors)." Then he kept on measuring and giving them, till Allah cleared all my father's debts. By Allah, it would have pleased me that Allah would clear the debts of my father even though I had not taken a single date to my sisters. But by Allah, all the heaps were complete, (as they were) and I looked at the heap where Allah's Apostle was sitting and noticed as if not a single date had been taken thereof.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 40

   صحيح البخاري4053جابر بن عبد اللهوالدي قد استشهد يوم أحد وترك دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء فقال اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنهم أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون أطاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال ادع لي أصحابك
   صحيح البخاري2395جابر بن عبد اللهأباه قتل يوم أحد شهيدا وعليه دين فاشتد الغرماء في حقوقهم فأتيت النبي فسألهم أن يقبلوا تمر حائطي ويحللوا أبي فأبوا فلم يعطهم النبي حائطي وقال سنغدو عليك فغدا علينا حين أصبح فطاف في النخل ودعا في ثمرها بالبركة فجددت
   صحيح البخاري5443جابر بن عبد اللهامشوا نستنظر لجابر من اليهودي فجاءوني في نخلي فجعل النبي يكلم اليهودي فيقول أبا القاسم لا أنظره فلما رأى النبي قام فطاف في النخل ثم جاءه فكلمه فأبى فقمت فجئت بقليل رطب فوضعته بين يدي النبي فأكل ثم
   صحيح البخاري2781جابر بن عبد اللهوالدي استشهد يوم أحد وترك عليه دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء قال اذهب فبيدر كل تمر على ناحيته ففعلت ثم دعوته
   صحيح البخاري2601جابر بن عبد اللهأباه قتل يوم أحد شهيدا فاشتد الغرماء في حقوقهم فأتيت رسول الله فكلمته فسألهم أن يقبلوا ثمر حائطي ويحللوا أبي فأبوا فلم يعطهم رسول الله حائطي ولم يكسره لهم ولكن قال سأغدو عليك إن شاء الله فغدا علينا حين أصبح
   صحيح البخاري2709جابر بن عبد اللهتوفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذوا التمر
   صحيح البخاري2396جابر بن عبد اللهأباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من اليهود فاستنظره جابر فأبى أن ينظره فكلم جابر رسول الله ليشفع له إليه فجاء رسول الله وكلم اليهودي ليأخذ ثمر نخله بالذي له فأبى فدخل رسول الله النخل فمشى فيها ثم قال لجابر جد له فأوف له الذي له فجده بعدما رجع رسول الل
   سنن أبي داود2884جابر بن عبد اللهأباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من يهود فاستنظره جابر فأبى فكلم جابر النبي أن يشفع له إليه فجاء رسول الله وكلم اليهودي ليأخذ ثمر نخله بالذي له عليه فأبى عليه وكلمه رسول الله أن ينظره فأبى
   سنن النسائى الصغرى3670جابر بن عبد اللهتوفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذوا الثمرة بما عليه فأبوا ولم يروا فيه وفاء فأتيت رسول الله فذكرت ذلك له قال إذا جددته فوضعته في المربد فآذني فلما جددته ووضعته في المربد أتيت رسول الله فجاء ومعه أبو بكر وعمر فجلس عليه ودعا بالبركة ثم قال ادع غرم
   سنن النسائى الصغرى3666جابر بن عبد اللهوالدي استشهد يوم أحد وترك دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء قال اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنما أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون أطاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال ادع أصحابك فما زال يكيل لهم حتى أد
   سنن ابن ماجه2434جابر بن عبد اللهجد له فأوفه الذي له فجد له بعد ما رجع رسول الله ثلاثين وسقا وفضل له اثنا عشر وسقا فجاء جابر رسول الله ليخبره بالذي كان فوجد رسول الله غائبا فلما انصرف رسول الله جاءه فأخبره أنه قد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2434  
´میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ صلی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئےتھے۔

(2)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد پر اور بھی بہت سے لوگوں کا قرض تھا۔
ان کے بارے میں دوسری احادیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
یہ یہودی ان قرض خواہوں میں سے ایک تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستقراض واداء الدیون .......، باب إذا قضی دون حقه أو حلله فھو جائز، حدیث: 2395)

(3)
اس یہودی کےسوا دوسرے قرض خواہوں کو ادائیگی کرتےوقت خود نبیﷺنےماپ کر ہر ایک کو اس كا قرض ادا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الاستقراض، باب الشفاعة فی وضع الدین حدیث: 2405)

(4)
کھانے پینے کی چیزوں میں يہ برکت رسول اللہ ﷺکا معجزہ ہے جو متعدد مواقع پرظاہر ہوا۔

(5)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایمان اتنا زیادہ تھا کہ انھیں معجزہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی یقین ہو گیا کہ یہ واقعہ یوں پيشں آئے گا۔
اس سےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت اورشان کا اظہار ہوتا ہے۔

(6)
وسق ساٹھ صاع کےبرابر ہوتا ہے جس کی کل مقدار ہمارے یہاں کےاعتبار سےتقریباً چار من بنتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2434   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2884  
´مال چھوڑ کر مرنے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2884]
فوائد ومسائل:

میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔
مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔
اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔


صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔
حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔
اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔
جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔
تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔
آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔
(اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔
اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔
کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔
خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔
چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔
اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔
ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔
اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔
بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔
جعلنا اللہ منھم، آمین۔


وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔
اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2884   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2781  
2781. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کردیے گئے۔ انھوں نے پسماندگان میں چھ بیٹیاں اور کافی قرض چھوڑا۔ جب کھجوریں توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت قرض چھوڑگئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (تاکہ قرض میں کچھ رعایت کریں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤتمام کھجوریں ایک طرف اکٹھی کردو اور ہرقسم الگ الگ رکھو۔ جب میں نے ایسا کر لیا تو پھر رسول اللہ ﷺ کو تشریف لانے کے لیے عرض کیا۔ قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کردی۔ آپ ﷺ نے جب ان کا یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا تو آپ نے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین چکرلگائے، پھر اس پر بیٹھ گے، پھر فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ چنانچہ آپ نے انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2781]
حدیث حاشیہ:
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے یہود اورنصاریٰ کے درمیان عداوت اور بغض کو بھڑکا دیا۔
حدیث کا لفظ أغروا بي‘ أغرینا ہی کے معنی میں ہے۔
جابر ؓ تو آنحضرت ﷺ کو اس لئے لے گئے تھے کہ آپ ﷺ کودیکھ کر قرض خواہ نرمی کریں گے مگر ہو ایہ کہ وہ قرض خواہ اور زیادہ پیچھے پڑ گئے کہ ہمارا سب قرض اداکرو۔
انہوں نے یہ خیال کیا کہ جب آنحضرت ﷺ جابر ؓ کے پاس تشریف لائے ہیں تو اگر جابر سے کل قرضہ ادا نہ ہو سکے گا تو آنحضرت ﷺ ادا کردیں گے یا ذمہ داری لے لیں گے۔
اس غلط خیال کی بنا پر انہوں نے قرض وصول کرنے کے سلسلے میں اور زیادہ سخت رویہ اختیار کیا جس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے باغ میں دعافرمائی اور جو بھی ظاہر ہوا وہ آپ کا کھلا معجزہ تھا۔
یہ حدیث اوپر کئی بار گزر چکی ہے اور حضرت مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے اس سے کئی ایک مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
یہاں باب کا مطلب یوں نکلا کہ جابر ؓ جو اپنے باپ کے وصی تھے‘ انہوں نے اپنے باپ کا قرض ادا کیا‘ اس وقت دوسرے وارث ان کی بہنیں موجود تھیں ان قرض خواہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو کئی بار سمجھایا کہ تم اپنے قرض کے بدل یہ ساری کجھوریں لے لو‘ انہوں نے کجھوروں کو کم سمجھ کر قبول نہ کیا۔
الحمدللہ کہ کتاب الشروط ختم ہو کر آگے کتاب الجہاد شروع ہو رہی ہے۔
جس میں حضرت امام بخاری ؒ نے مسئلہ جہاد کے اوپر پوری پوری روشنی ڈالی ہے۔
اللہ پاک خیریت کے ساتھ کتاب الجہاد کو ختم کرائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2781   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2781  
2781. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کردیے گئے۔ انھوں نے پسماندگان میں چھ بیٹیاں اور کافی قرض چھوڑا۔ جب کھجوریں توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت قرض چھوڑگئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (تاکہ قرض میں کچھ رعایت کریں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤتمام کھجوریں ایک طرف اکٹھی کردو اور ہرقسم الگ الگ رکھو۔ جب میں نے ایسا کر لیا تو پھر رسول اللہ ﷺ کو تشریف لانے کے لیے عرض کیا۔ قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کردی۔ آپ ﷺ نے جب ان کا یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا تو آپ نے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین چکرلگائے، پھر اس پر بیٹھ گے، پھر فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ چنانچہ آپ نے انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2781]
حدیث حاشیہ:
(1)
میت کے قرضوں کی ادائیگی تقسیم ترکہ سے پہلے ضروری ہے۔
ادائیگئ قرض کے وقت ورثاء کا موجود ہونا ضروری نہیں۔
وہ لوگ اجنبیوں کی طرح ہیں۔
مال کا معاملہ وصی کے سپرد ہے۔
ورثاء کو اس میں دخل اندازی کی اجازت نہیں۔
چنانچہ حضرت جابر ؓ نے اپنی بہنوں کی عدم موجودگی میں اپنے باپ کے ذمے قرض ادا کر دیا اور انہیں اطلاع تک نہ دی۔
علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں۔
(عمدة القاري: 55/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2781   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.