الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
17. باب الأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ
17. باب: نومولود کے کان میں اذان کہنے کا بیان۔
Chapter: The Adhan In The Ear Of The Newborn
حدیث نمبر: 1516
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا عبد الرزاق , عن ابن جريج , اخبرنا عبيد الله بن ابي يزيد , عن سباع بن ثابت , ان محمد بن ثابت بن سباع اخبره , ان ام كرز اخبرته , انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة , فقال: " عنالغلام شاتان , وعن الانثى واحدة , ولا يضركم ذكرانا كن ام إناثا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ , عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ , أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ سِبَاعٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أُمَّ كُرْزٍ أَخْبَرَتْهُ , أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ , فَقَالَ: " عَنْالْغُلَامِ شَاتَانِ , وَعَنِ الْأُنْثَى وَاحِدَةٌ , وَلَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام کرز رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 21 (28834-2835)، سنن النسائی/العقیقة 2 (4220)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3162)، (تحفة الأشراف: 18351)، و مسند احمد (6/381، 422) سنن الدارمی/الأضاحي 9 (2009) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (4 / 391)
   جامع الترمذي1516أم كرزشاتان عن الجارية واحدة
   جامع الترمذي1516أم كرزشاتان عن الأنثى واحدة
   سنن أبي داود2834أم كرزشاتان مكافئتان عن الجارية شاة
   سنن أبي داود2835أم كرزعن الغلام شاتان عن الجارية شاة لا يضركم أذكرانا أو إناثا
   سنن أبي داود2836أم كرزشاتان مثلان عن الجارية شاة
   سنن ابن ماجه3162أم كرزشاتان متكافئتان عن الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرى4220أم كرزفي الغلام شاتان مكافأتان في الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرى4221أم كرزشاتان مكافأتان عن الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرى4222أم كرزعلى الغلام شاتان على الجارية شاة لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا
   سنن النسائى الصغرى4223أم كرزشاتان عن الجارية شاة
   بلوغ المرام1169أم كرزشاتان مكافئتان وعن الجارية شاة
   مسندالحميدي348أم كرزعن الغلام شاتان، وعن الجارية شاة لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا
   مسندالحميدي349أم كرزفي العقيقة عن الغلام شاتان مكافأتان، وعن الجارية شاة
   مسندالحميدي350أم كرزأقروا الطير على مكناتها
   جامع الترمذي1516أم كرزشاتان عن الجارية واحدة
   جامع الترمذي1516أم كرزشاتان عن الأنثى واحدة
   سنن أبي داود2834أم كرزشاتان مكافئتان عن الجارية شاة
   سنن أبي داود2835أم كرزعن الغلام شاتان عن الجارية شاة لا يضركم أذكرانا أو إناثا
   سنن أبي داود2836أم كرزشاتان مثلان عن الجارية شاة
   سنن ابن ماجه3162أم كرزشاتان متكافئتان عن الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرى4220أم كرزفي الغلام شاتان مكافأتان في الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرى4221أم كرزشاتان مكافأتان عن الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرى4222أم كرزعلى الغلام شاتان على الجارية شاة لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا
   سنن النسائى الصغرى4223أم كرزشاتان عن الجارية شاة
   بلوغ المرام1169أم كرزشاتان مكافئتان وعن الجارية شاة
   مسندالحميدي348أم كرزعن الغلام شاتان، وعن الجارية شاة لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا
   مسندالحميدي349أم كرزفي العقيقة عن الغلام شاتان مكافأتان، وعن الجارية شاة
   مسندالحميدي350أم كرزأقروا الطير على مكناتها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3162  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3162]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بچے یا بچی کی ولادت پر عقیقہ کرنا سنت ہے۔
یہ اولاد کی نعمت پر اللہ کے شکر کا اظہار ہے، تاہم یہ فرض یا واجب نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے:
'جس کے ہاں بچہ پیدا ہواگروہ اپنے بچے کا عقیقہ کرناچاہے تو کرلے۔ (موطا إمام مالك، العقيقة، ماجاء في العقيقة، حديث: 1 وصحيح سنن أبي داؤد للألباني، حديث: 2842)

(2) (مكافئتان)
كی تشریح میں مختلف اقوال ہیں:

(ا)
ہم عمر اور ہم جنس۔

(ب)
ذبح ہونے میں برابر، یعنی دونوں اکھٹی ذبح کی جائیں۔ (مثلاً یہ نہ ہو کہ ایک صبح کو ذبح کی جائے اور دوسری شام کو)

(ج)
قربانی کے جانور کے برابر۔
حافظ ابن حجر ؒنے دوسرے قول کواچھا قراردیا ہے۔ (فتح الباری: 9/ 733)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3162   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3162  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3162]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بچے یا بچی کی ولادت پر عقیقہ کرنا سنت ہے۔
یہ اولاد کی نعمت پر اللہ کے شکر کا اظہار ہے، تاہم یہ فرض یا واجب نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے:
'جس کے ہاں بچہ پیدا ہواگروہ اپنے بچے کا عقیقہ کرناچاہے تو کرلے۔ (موطا إمام مالك، العقيقة، ماجاء في العقيقة، حديث: 1 وصحيح سنن أبي داؤد للألباني، حديث: 2842)

(2) (مكافئتان)
كی تشریح میں مختلف اقوال ہیں:

(ا)
ہم عمر اور ہم جنس۔

(ب)
ذبح ہونے میں برابر، یعنی دونوں اکھٹی ذبح کی جائیں۔ (مثلاً یہ نہ ہو کہ ایک صبح کو ذبح کی جائے اور دوسری شام کو)

(ج)
قربانی کے جانور کے برابر۔
حافظ ابن حجر ؒنے دوسرے قول کواچھا قراردیا ہے۔ (فتح الباری: 9/ 733)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3162   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1169  
´عقیقہ کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے، احمد اور چاروں نے ام کرز کعبیہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1169»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، حديث:1513، وابن حبان (الموارد)، حديث:1058، وحديث أم كرز: أخرجه أبوداود، الضحايا، حديث:2834، والترمذي، الأضاحي، حديث:1516، والنسائي، القيقة، حديث:4221، وابن ماجه، الذبائح، حديث:3162، وأحمد:6 /422 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
مذکورہ روایت میں بچے کی طرف سے دو جانور اور بچی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا ذکر ہے جبکہ گزشتہ روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک جانور عقیقہ کے طور پر ذبح کیا۔
ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں بلکہ علمائے کرام اس کی بابت فرماتے ہیں کہ افضل اور مستحب یہی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے‘ تاہم لڑکے کی طرف سے بھی ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث سے ثابت ہے۔
بنابریں اگر کسی کے پاس دو جانور نہ ہوں تو لڑکے کی طرف سے بھی عقیقے میں ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راوئ حدیث «ام کُرز کعبیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ بنو خزاعہ قبیلے سے تھیں‘ اس لیے خزاعیہ کہلائیں۔
شرف صحابیت سے مشرف تھیں۔
ان سے کئی احادیث منقول ہیں۔
کرز کے کاف پر ضمہ اور را ساکن ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1169   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1169  
´عقیقہ کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے، احمد اور چاروں نے ام کرز کعبیہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1169»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، حديث:1513، وابن حبان (الموارد)، حديث:1058، وحديث أم كرز: أخرجه أبوداود، الضحايا، حديث:2834، والترمذي، الأضاحي، حديث:1516، والنسائي، القيقة، حديث:4221، وابن ماجه، الذبائح، حديث:3162، وأحمد:6 /422 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
مذکورہ روایت میں بچے کی طرف سے دو جانور اور بچی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا ذکر ہے جبکہ گزشتہ روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک جانور عقیقہ کے طور پر ذبح کیا۔
ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں بلکہ علمائے کرام اس کی بابت فرماتے ہیں کہ افضل اور مستحب یہی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے‘ تاہم لڑکے کی طرف سے بھی ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث سے ثابت ہے۔
بنابریں اگر کسی کے پاس دو جانور نہ ہوں تو لڑکے کی طرف سے بھی عقیقے میں ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راوئ حدیث «ام کُرز کعبیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ بنو خزاعہ قبیلے سے تھیں‘ اس لیے خزاعیہ کہلائیں۔
شرف صحابیت سے مشرف تھیں۔
ان سے کئی احادیث منقول ہیں۔
کرز کے کاف پر ضمہ اور را ساکن ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1169   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2834  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: (عقیقہ) میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد نے «مكافئتان» کے معنی یہ کئے ہیں کہ دونوں (عمر میں) برابر ہوں یا قریب قریب ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2834]
فوائد ومسائل:

وہ جانور جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے۔
اسے عقیقہ کہتے ہیں۔
لغت میں ا س کے معنی ہیں۔
کاٹنا اور شق کرنا، یہ لفظ بچوں کے سر کے بالوں پر بھی بولا جاتا ہے۔
اور اسی مناسبت سے اس ذبیحہ کو عقیقہ کہتے ہیں۔
فقہی طور پر اس کا حکم سنت مؤکدہ کا ہے۔


(مکافئتان) کا تقاضا ہے۔
کہ دونوں جانوروں کی نوع بھی ایک ہو، یعنی دونوں بکریاں ہوں۔
یا بھیڑیں یا مینڈھے یہ نہیں کہ ایک بکری ہو اور دوسری بھیڑ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2834   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2834  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: (عقیقہ) میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد نے «مكافئتان» کے معنی یہ کئے ہیں کہ دونوں (عمر میں) برابر ہوں یا قریب قریب ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2834]
فوائد ومسائل:

وہ جانور جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے۔
اسے عقیقہ کہتے ہیں۔
لغت میں ا س کے معنی ہیں۔
کاٹنا اور شق کرنا، یہ لفظ بچوں کے سر کے بالوں پر بھی بولا جاتا ہے۔
اور اسی مناسبت سے اس ذبیحہ کو عقیقہ کہتے ہیں۔
فقہی طور پر اس کا حکم سنت مؤکدہ کا ہے۔


(مکافئتان) کا تقاضا ہے۔
کہ دونوں جانوروں کی نوع بھی ایک ہو، یعنی دونوں بکریاں ہوں۔
یا بھیڑیں یا مینڈھے یہ نہیں کہ ایک بکری ہو اور دوسری بھیڑ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2834   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.