حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا معاوية بن هشام، حدثنا سفيان الثوري، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقرا علي، فقلت: يا رسول الله اقرا عليك وعليك انزل؟ قال: إني احب ان اسمعه من غيري، فقرات سورة النساء حتى إذا بلغت وجئنا بك على هؤلاء شهيدا سورة النساء آية 41 قال: فرايت عيني النبي صلى الله عليه وسلم تهملان "، قال ابو عيسى: هذا اصح من حديث ابي الاحوص.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي، فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41 قَالَ: فَرَأَيْتُ عَيْنَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَهْمِلَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ“۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟، آپ نے فرمایا: ”اپنے سے ہٹ کر دوسرے سے سننا چاہتا ہوں“، تو میں نے سورۃ نساء پڑھی، جب میں آیت: «وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوالا ٔحوص کی روایت سے صحیح تر ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر النساء 9 (4582)، وفضائل القرآن 32 (5049)، و33 (5050)، و35 (5055)، صحیح مسلم/المسافرین 40 (800)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 9402)، و مسند احمد (1/380) (صحیح)»
أمرني رسول الله أن أقرأ عليه وهو على المنبر فقرأت عليه من سورة النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا غمزني رسول الله يده فنظرت إليه وعيناه تدمعان
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4194
´غمگین ہونے اور رونے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو“، تو میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا»”تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور پھر ہم تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے“(سورة النساء: 41) پر پہنچا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4194]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) جس طرح قرآن کی تلاوت بڑی نیکی ہے اس طرح قرآن سننا بھی ضروری ہے۔
(2) قرآن کی تلاوت کا دل پر ایک خاص روحانی اثر ہوتا ہے۔
(3) قرآن کا ترجمہ سیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ تلاوت کا دل پر صحیح اثر ہوسکے۔
(4) قرآن مجید کی تلاوت یا سننے کا اصل مقصد اس کے مطابق اپنی زندگی بنانے کی کوشش ہے۔
(5) حدیث میں مذکور آیت میں قیامت کا ایک منظر پیش کی گیا ہے۔ اور قیامت خود ایک عبرت انگیز موضوع ہے۔ ضروری ہے کہ وعظ و نصیحت میں اس موضوع کو اہمیت دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4194
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3024
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء میں سے تلاوت کی، جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا»۱؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ بس کرو، آگے نہ پڑھو) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3024]
اردو حاشہ: وضاحت:
1؎: ”پس کیا حال ہوگا اس وقت کہ جب ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے“(النساء: 41)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3024
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3668
´وعظ و نصیحت اور قصہ گوئی کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھ پر سورۃ نساء پڑھو“ میں نے عرض کیا: کیا میں آپ کو پڑھ کے سناؤں؟ جب کہ وہ آپ پر اتاری گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ میں اوروں سے سنوں“ پھر میں نے آپ کو «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد»”اس وقت کیا ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے“(سورة النساء: ۴۱) تک پڑھ کر سنایا، اور اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3668]
فوائد ومسائل: 1۔ قرآن مجید سننا سنانا سب سے عمدہ وعظ ہے۔ بشرط یہ کہ انسان اس کے فہم سے آشنا ہو۔
2۔ رسول اللہ ﷺ رونا غالبا اس بنا پر تھا۔ کہ آپﷺ امت پر گواہ ہوں گے۔ جب کہ لوگ نا معلوم کیسے عمل کر کے آئیں گے۔ آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے۔ پھر ان کا کیا حال ہوگا۔ جس وقت ہم ہر امت میں سے گواہ لایئں گے۔ اور آپ کو اس امت پر گواہ بنایئں گے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3668