الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
11. بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ:
11. باب: ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
(11) Chapter. The characteristics of Iblis (Satan) and his soldiers.
حدیث نمبر: 3294
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد، ان محمد بن سعد بن ابي وقاص اخبره، ان اباه سعد بن ابي وقاص، قال: استاذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساء من قريش يكلمنه ويستكثرنه عالية اصواتهن، فلما استاذن عمر قمن يبتدرن الحجاب، فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال: عمر اضحك الله سنك يا رسول الله، قال: عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب، قال عمر: فانت يا رسول الله كنت احق ان يهبن، ثم قال: اي عدوات انفسهن اتهبنني، ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلن: نعم انت افظ واغلظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان قط سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ: عُمَرُ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ يَهَبْنَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي، وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَ: نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید نے خبر دی، انہیں محمد بن سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) نے خبر دی اور ان سے ان کے والد سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت چند قریشی عورتیں (خود آپ کی بیویاں) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے (خرچ میں) بڑھانے کا سوال کر رہی تھیں۔ خوب آواز بلند کر کے۔ لیکن جونہی عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، وہ خواتین جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو ہنساتا رکھے۔ یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا ابھی ابھی میرے پاس تھیں، لیکن جب تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، لیکن آپ یا رسول اللہ! زیادہ اس کے مستحق تھے کہ آپ سے یہ ڈرتیں، پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں کے دشمنو! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ ازواج مطہرات بولیں کہ واقعہ یہی ہے کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف مزاج میں بہت سخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے، تو جھٹ وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔

Narrated Sa`d bin Abi Waqqas: Once `Umar asked the leave to see Allah's Apostle in whose company there were some Quraishi women who were talking to him and asking him for more financial support raising their voices. When `Umar asked permission to enter the women got up (quickly) hurrying to screen themselves. When Allah's Apostle admitted `Umar, Allah's Apostle was smiling, `Umar asked, "O Allah's Apostle! May Allah keep you gay always." Allah's Apostle said, "I am astonished at these women who were with me. As soon as they heard your voice, they hastened to screen themselves." `Umar said, "O Allah's Apostle! You have more right to be feared by them." Then he addressed (those women) saying, "O enemies of your own souls! Do you fear me and not Allah's Apostle ?" They replied. "Yes, for you are a fearful and fierce man as compared with Allah's Apostle." On that Allah's Apostle said (to `Umar), "By Him in Whose Hands my life is, whenever Satan sees you taking a path, he follows a path other than yours."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 515

   صحيح البخاري6085سعد بن مالكما لقيك الشيطان سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك
   صحيح البخاري3683سعد بن مالكما لقيك الشيطان سالكا فجا قط إلا سلك فجا غير فجك
   صحيح البخاري3294سعد بن مالكما لقيك الشيطان قط سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3294  
3294. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس چند قریشی عورتیں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے محو گفتگو تھیں اور باآواز بلند آپ سے خرچہ بڑھانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ لیکن جونہی حضرت عمر ؓنے اجازت طلب کی تو وہ اٹھیں اور جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسکراتے ہوئے انھیں اجازت دی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے (یہ مسکراہٹ کیسی ہے؟) آپ نے فرمایا: میں ان عورتوں پر تعجب کررہا ہوں جو میرے پاس بیٹھی تھی، جب انھوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے حجاب میں چلی گئی ہیں۔ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اس امر کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ آپ سے ڈریں۔ پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں سے دشمنی کرنے والیو! تم مجھ سے ڈرتی ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3294]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ شیطان حضرت عمر ؓکے سایہ سے بھاگتا ہے۔
رافضیوں نے اس حدیث کی صحت پر اعتراض کیا ہے جو سراسر جہالت اور نفسانیت پر مبنی ہے آنحضرت ﷺ بادشاہ وقت رحمۃ للعالمین تھے اور بادشاہوں کا رحم و کرم اس درجہ ہوتا ہے کہ بدمعاشوں کو بھی بادشاہ سے فضل و کرم کی توقع ہوتی ہے۔
حضرت عمرؓ کوتوال کی طرح تھے۔
کوتوال کا اصلی فرض یہی ہوتا ہے کہ بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کو پکڑے اور بدمعاش جتنا کوتوال سے ڈرتے ہیں، اتنا بادشاہ سے نہیں ڈرتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3294   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3294  
3294. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس چند قریشی عورتیں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے محو گفتگو تھیں اور باآواز بلند آپ سے خرچہ بڑھانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ لیکن جونہی حضرت عمر ؓنے اجازت طلب کی تو وہ اٹھیں اور جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسکراتے ہوئے انھیں اجازت دی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے (یہ مسکراہٹ کیسی ہے؟) آپ نے فرمایا: میں ان عورتوں پر تعجب کررہا ہوں جو میرے پاس بیٹھی تھی، جب انھوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے حجاب میں چلی گئی ہیں۔ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اس امر کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ آپ سے ڈریں۔ پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں سے دشمنی کرنے والیو! تم مجھ سے ڈرتی ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3294]
حدیث حاشیہ:

اس حقیقت کے علاوہ حضرت عمر ؓ کی دوخصوصیات نمایاں تھیں جو حسب ذیل ہیں:
الف۔
آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے میں کسی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے اور نہ اس کی پرواہی کرتے تھے۔
کتب حدیث میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں اور یہ عنوان تو مستقل تصنیف کا تقاضا کرتاہے۔
ب۔
آپ دینی معاملات میں بہت سخت تھے۔
ان دوخصوصیات کی بنا پر آپ کو اللہ کی طرف سے یہ اعزاز ملا کہ شیطان آپ کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے آپ کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو حضرات انبیاء ؑ کا خاصا ہے جس میں اور کوئی شریک نہیں ہے۔

شیطان کے فرار سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ وسوسہ اندازی سے بھی عاجز ہوگیا تھا۔
(فتح الباري: 61/7)

دینی پختگی اور فریضہ امر بالمعروف کی ادائیگی سے کسی حد تک شیطان کی شرارتوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
اگرچہ حضرت عمر ؓ جیسا امتیاز تو حاصل نہیں ہوسکتا، تاہم ان صفات سے شیطانی وساوس پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3294   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.