Narrated Abu Jamra: Ibn `Abbas said to us, "Shall I tell you the story of Abu Dhar's conversion to Islam?" We said, "Yes." He said, "Abu Dhar said: I was a man from the tribe of Ghifar. We heard that a man had appeared in Mecca, claiming to be a Prophet. ! said to my brother, 'Go to that man and talk to him and bring me his news.' He set out, met him and returned. I asked him, 'What is the news with you?' He said, 'By Allah, I saw a man enjoining what is good and forbidding what is evil.' I said to him, 'You have not satisfied me with this little information.' So, I took a waterskin and a stick and proceeded towards Mecca. Neither did I know him (i.e. the Prophet ), nor did I like to ask anyone about him. I Kept on drinking Zam zam water and staying in the Mosque. Then `Ali passed by me and said, 'It seems you are a stranger?' I said, 'Yes.' He proceeded to his house and I accompanied him. Neither did he ask me anything, nor did I tell him anything. Next morning I went to the Mosque to ask about the Prophet but no-one told me anything about him. `Ali passed by me again and asked, 'Hasn't the man recognized his dwelling place yet' I said, 'No.' He said, 'Come along with me.' He asked me, 'What is your business? What has brought you to this town?' I said to him, 'If you keep my secret, I will tell you.' He said, 'I will do,' I said to him, 'We have heard that a person has appeared here, claiming to be a Prophet. I sent my brother to speak to him and when he returned, he did not bring a satisfactory report; so I thought of meeting him personally.' `Ali said (to Abu Dhar), 'You have reached your goal; I am going to him just now, so follow me, and wherever I enter, enter after me. If I should see someone who may cause you trouble, I will stand near a wall pretending to mend my shoes (as a warning), and you should go away then.' `Ali proceeded and I accompanied him till he entered a place, and I entered with him to the Prophet to whom I said, 'Present (the principles of) Islam to me.' When he did, I embraced Islam 'immediately. He said to me, 'O Abu Dhar! Keep your conversion as a secret and return to your town; and when you hear of our victory, return to us. ' I said, 'By H him Who has sent you with the Truth, I will announce my conversion to Islam publicly amongst them (i.e. the infidels),' Abu Dhar went to the Mosque, where some people from Quraish were present, and said, 'O folk of Quraish ! I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and I (also) testify that Muhammad is Allah's Slave and His Apostle.' (Hearing that) the Quraishi men said, 'Get at this Sabi (i.e. Muslim) !' They got up and beat me nearly to death. Al `Abbas saw me and threw himself over me to protect me. He then faced them and said, 'Woe to you! You want to kill a man from the tribe of Ghifar, although your trade and your communications are through the territory of Ghifar?' They therefore left me. The next morning I returned (to the Mosque) and said the same as I have said on the previous day. They again said, 'Get at this Sabi!' I was treated in the same way as on the previous day, and again Al-Abbas found me and threw himself over me to protect me and told them the same as he had said the day before.' So, that was the conversion of Abu Dhar (may Allah be Merciful to him) to Islam."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 725
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3522
3522. (م) ابو حمزہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں حضرت ابن عباس ؓنے فرمایا: کیا میں تمھیں حضرت ابو ذر ؓ کے اسلام کی خبر نہ دوں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں قبیلہ غفار کا ایک شخص تھا۔ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو نبوت کا مدعی ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا: تم جا کر ان سے ملاقات کرو اور ان سے گفتگو کر کےمجھے حقیقت حال سے آگاہ کرو، چنانچہ وہ گئے اور انھوں نے آپ ﷺ سے ملاقات کی۔ پھر واپس آئے تو میں نے ان سے کہا: بتاؤ کیا خبر لائےہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھی بات کا حکم دیتا ہے اور بری بات سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا: اتنی سی خبرسےتو میری تسلی نہیں ہوتی۔ آخر میں نے ایک سامان کی تھیلی اور ایک لاٹھی اٹھائی اور خود مکہ کی طرف روانہ ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3522]
حدیث حاشیہ:
قریش کے لوگ ہرسال تجارت اور سوداگری کے لیے ملک شام کو جایا کرتے تھے اور راستہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان غفار کی قوم پڑتی تھی۔
حضرت عباس نے ان کو ڈرایا کہ اگر اس کو مار ڈالو گے تو ساری غفار کی قوم برہم ہوجائے گی اور ہماری سوداگری اور آمد ورفت میں خلل ہوجائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3522
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3522
3522. (م) ابو حمزہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں حضرت ابن عباس ؓنے فرمایا: کیا میں تمھیں حضرت ابو ذر ؓ کے اسلام کی خبر نہ دوں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں قبیلہ غفار کا ایک شخص تھا۔ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو نبوت کا مدعی ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا: تم جا کر ان سے ملاقات کرو اور ان سے گفتگو کر کےمجھے حقیقت حال سے آگاہ کرو، چنانچہ وہ گئے اور انھوں نے آپ ﷺ سے ملاقات کی۔ پھر واپس آئے تو میں نے ان سے کہا: بتاؤ کیا خبر لائےہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھی بات کا حکم دیتا ہے اور بری بات سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا: اتنی سی خبرسےتو میری تسلی نہیں ہوتی۔ آخر میں نے ایک سامان کی تھیلی اور ایک لاٹھی اٹھائی اور خود مکہ کی طرف روانہ ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3522]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام جندب تھا۔
اسلام میں داخل ہونے والے پانچویں شخص ہیں۔
ان کے بھائی کا نام انیس تھا جو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے۔
قبیلہ غفار کی نسبت سے ان کی سرگزشت بیان کی گئی ہے۔
اعلان نبوت کے طویل عرصے بعد مسلمان ہوئے۔
انھوں نے اسلام کا اظہار ڈنکے کی چوٹ کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایسا کرنے سے روکا بھی تھا۔
بہرحال انھیں آثار وقرائن سے معلوم ہوگیا کہ آپ کا یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا نعرہ حق سن کر خاموش ہوگئے اور انھیں اس پر کوئی ملامت نہیں کی۔
2۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی سے نہیں پوچھتے تھے کیونکہ قریش ہر اس شخص کو تکلیف پہنچاتے تھے جو آپ کا ارادہ کرتا اور اس لیے بھی مارتے تھے کہ کہیں ان کا دین پھیل نہ جائے،اس لیے وہ کسی سائل کی رہنمائی نہیں کرتے تھے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کو جمع ہی ہونے دیتے تھے،دھوکا دے کر اسے واپس ہونے پر مجبور کردیتے تھے۔
3۔
واضح رہے کہ قریش کے لوگ تجارت کے لیے سال میں دومرتبہ شام کے علاقے میں جایا کرتے تھے اور راستے میں مکہ ومدینہ کے درمیان قبیلہ غفار رہتا تھا۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کو خبردار کیا کہ اگرتم نے اس کو مارڈالا تو قوم غفار برہم ہوجائے گی،پھر تمہاری تجارت متاثر ہوگی اور وہاں سے گزرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اس طرح قریش نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان بخشی کی۔
4۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد حرام میں رہتے ہوئے کئی دن تک صرف زمزم کے پانی سے گزارا کرتے رہے اور اس بابرکت پانی نے ان کو کھانے اور پینے دونوں کا کام دیا۔
اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قصہ زمزم کا عنوان قائم کیا ہے۔
درحقیقت زمزم کے پانی پر اس طرح گزارا کرتے رہے اور اس بابرکت پانی نے ان کو کھانے اور پینے دونوں کا کام دیا۔
اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قصہ زمزم کا عنوان قائم کیا ہے۔
درحقیقت زمزم کے پانی پر اس طرح گزارا کرنا بھی حضرت ابوزرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس طرح پانی نوش کرنے سے خوب موٹے تازے ہوگئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے واقعی اس بابرکت پانی میں یہ تاثیر رکھتی ہے کہ اسے پینے سے کھانا کھانے کی ضرورت نہیں رہتی۔
5۔
دورحاضر میں حکومت سعودیہ نے زمزم کا بہت وسیع نظام کررکھاہے کہ یہ ہرحاجی مرد ہو یا عورت جب چاہے آسانی کے ساتھ تازہ اور ٹھنڈا زمزم پی سکتا ہے۔
اب تو مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی میں بھی آب زمزم کے ٹھنڈے اورتازہ کولر پڑے ہیں۔
نمازی جب چاہے اپنے دائیں بائیں سے پانی پی سکتا ہے۔
واقعی حکومت سعودیہ کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے جس کے لیے جس قدر بھی دعائیں کی جائیں کم ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو مزید استحکام اور ترقی عنایت فرمائے۔
ہم نے وہاں قیام کے دوران میں ایسا وقت بھی دیکھا ہے کہ یمنی حضرات ایک ریال کے عوض آب زمزم کی چھوٹی سی پیالی بھر کردیتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3522