الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
26. بَابُ أَيَّامِ الْجَاهِلِيَّةِ:
26. باب: جاہلیت کے زمانے کا بیان۔
(26) Chapter. The days of Pre-Islamic Period of Ignorance.
حدیث نمبر: 3834
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن بيان ابي بشر، عن قيس بن ابي حازم، قال: دخل ابو بكر على امراة من احمس، يقال لها زينب فرآها لا تكلم، فقال: ما لها لا تكلم، قالوا: حجت مصمتة، قال: لها تكلمي فإن هذا لا يحل , هذا من عمل الجاهلية , فتكلمت فقالت: من انت؟ قال: امرؤ من المهاجرين، قالت: اي المهاجرين؟ قال: من قريش، قالت: من اي قريش انت؟ قال: إنك لسئول , انا ابو بكر، قالت: ما بقاؤنا على هذا الامر الصالح الذي جاء الله به بعد الجاهلية؟ قال: بقاؤكم عليه ما استقامت بكم ائمتكم، قالت: وما الائمة؟ قال: اما كان لقومك رءوس واشراف يامرونهم فيطيعونهم، قالت: بلى، قال: فهم اولئك على الناس".حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ، يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ، فَقَالَ: مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ، قَالُوا: حَجَّتْ مُصْمِتَةً، قَالَ: لَهَا تَكَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ , هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ , فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ، قَالَتْ: أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ؟ قَالَ: مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَتْ: مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ؟ قَالَ: إِنَّكِ لَسَئُولٌ , أَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ، قَالَتْ: وَمَا الْأَئِمَّةُ؟ قَالَ: أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اجی بات کرو اس طرح حج کرنا تو جاہلیت کی رسم ہے، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو، میں ابوبکر ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطا فرمایا ہے اس پر ہم (مسلمان) کب تک قائم رہ سکیں گے؟ آپ نے فرمایا اس پر تمہارا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہارے امام حاکم سیدھے رہیں گے۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں۔

Narrated Qais bin Abi Hazim: Abu Bakr went to a lady from the Ahmas tribe called Zainab bint Al-Muhajir and found that she refused to speak. He asked, "Why does she not speak." The people said, "She has intended to perform Hajj without speaking." He said to her, "Speak, for it is illegal not to speak, as it is an action of the pre-islamic period of ignorance. So she spoke and said, "Who are you?" He said, "A man from the Emigrants." She asked, "Which Emigrants?" He replied, "From Quraish." She asked, "From what branch of Quraish are you?" He said, "You ask too many questions; I am Abu Bakr." She said, "How long shall we enjoy this good order (i.e. Islamic religion) which Allah has brought after the period of ignorance?" He said, "You will enjoy it as long as your Imams keep on abiding by its rules and regulations." She asked, "What are the Imams?" He said, "Were there not heads and chiefs of your nation who used to order the people and they used to obey them?" She said, "Yes." He said, "So they (i.e. the Imams) are those whom I meant."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 175


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3834  
3834. حضرت قیس بن ابوحازم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر ؓ قبیلہ احمس کی ایک عورت کے پاس گئے جسے زینب بنت مہاجر کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ بات نہیں کرتی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے دریافت کیا: اسے کیا ہے یہ بات کیوں نہیں کرتی؟ لوگوں نے کہا کہ یہ خاموش رہ کر حج کرتی ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اسے کہا: بات کرو، چپ رہنا جائز نہیں بلکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے، تو وہ بول پڑی۔ پوچھنے لگی: آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں مہاجرین میں سے ہوں۔ اس نے کہا: کون سے مہاجرین سے ہو؟ آپ نے فرمایا: قریش میں سے۔ اس نے کہا: قریش کے کس قبیلے سے ہو؟ فرمایا: تو بہت سوال کرتی ہے۔ میں ابوبکر ہوں۔ اس نے کہا: اس نیک امر پر جو اللہ نے ہمیں جاہلیت کے بعد عطا کیا ہے ہم کتنا عرصہ باقی رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری بقا اس پر اس وقت تک ہے جب تک تمہارے امام درست رہیں گے۔ اس نے پوچھا: امام کون ہیں؟ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3834]
حدیث حاشیہ:
اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے اس عورت نے کہا ہم میں اور ہماری قوم میں جاہلیت کے زمانہ میں کچھ فساد ہوا تھا تومیں نے قسم کھا ئی تھی کہ اگر اللہ نے مجھ کو اس سے بچادیا تو میں جب تک حج نہ کرلوں گی کسی سے بات نہیں کروں گی۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا اسلام ان باتوں کو مٹا دیتا ہے تم بات کرو۔
حافظ نے کہا حضرت ابو بکر ؓ کے اس قول سے یہ نکلا کہ ایسی غلط قسم کا توڑ دینا مستحب ہے۔
حدیث ابو اسرائیل بھی ایسی ہے جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی منت مانی تھی۔
آنحضرت ﷺ نے اس کو سواری پر چلنے کا حکم فرمایا اور اس منت کو توڑ وا دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3834   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3834  
3834. حضرت قیس بن ابوحازم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر ؓ قبیلہ احمس کی ایک عورت کے پاس گئے جسے زینب بنت مہاجر کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ بات نہیں کرتی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے دریافت کیا: اسے کیا ہے یہ بات کیوں نہیں کرتی؟ لوگوں نے کہا کہ یہ خاموش رہ کر حج کرتی ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اسے کہا: بات کرو، چپ رہنا جائز نہیں بلکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے، تو وہ بول پڑی۔ پوچھنے لگی: آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں مہاجرین میں سے ہوں۔ اس نے کہا: کون سے مہاجرین سے ہو؟ آپ نے فرمایا: قریش میں سے۔ اس نے کہا: قریش کے کس قبیلے سے ہو؟ فرمایا: تو بہت سوال کرتی ہے۔ میں ابوبکر ہوں۔ اس نے کہا: اس نیک امر پر جو اللہ نے ہمیں جاہلیت کے بعد عطا کیا ہے ہم کتنا عرصہ باقی رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری بقا اس پر اس وقت تک ہے جب تک تمہارے امام درست رہیں گے۔ اس نے پوچھا: امام کون ہیں؟ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3834]
حدیث حاشیہ:

وہ عورت بڑی صاحب بصیرت اور عقلمند تھی۔
اسے پتہ تھا کہ وہ کثرت کلام کی عادی ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر ؓ نے اس کے طرز عمل پر تبصرہ فرمایا تھا، اس نے نذر مانی کہ خاموشی سے حج کرے گی اور یہ التزام اس کے لیے بہتر ہے۔
چونکہ یہ عمل شریعت میں جائز نہ تھا کیونکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے کہ چپ کا روزہ رکھ کر حج کرتے تھے جیسا کہ کتب حدیث میں ابو اسرائیل کا واقعہ ہے جس نے نذرمانی تھی کہ وہ خاموش رہ کر حج کرے گا اور سواری سایہ دار چیز استعمال نہیں کرے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے منع فرما دیا۔
اسی طرح حضرت ابو بکر ؓ نے بھی جاہلیت پر مبنی ایک امر کو ختم کرنے کا حکم دیا۔

حدیث میں امر صالح سے مراد اسلام ہے اور آئمہ کی بقا سے مراد یہ ہے کہ ان کی استقامت سے حدود قائم ہوں لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں اور ہر چیز مناسب مقام پر ہو بہر حال جب تک قوم کے سردار اور حکمران دین اسلام پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں گے تو دین اسلام باقی رہے گا بصورت دیگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا جیسا کہ آج اسلامی دنیا کا حال ہے کہ ان میں دین حق بے کس و بے سہارا ہے۔
اسلامی ممالک کے حکمران فروغ اسلام میں دلچسپی نہیں رکھتے صرف ایک سعودی حکومت ہے جسے ان حالات میں اسلام کی نشرو اشاعت کا خیال ہے اور اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ تادیر اسے قائم رکھے آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3834   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.