الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”یہ رسول تو تم کو بس ایک سخت عذاب (دوزخ) کے آنے سے پہلے ڈرانے والے ہیں“۔
(2) Chapter. “...He (Muhammad ) is only a warner to you in face of a severe torment.” (V.34:46)
حدیث نمبر: 4801
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن خازم، حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: صعد النبي صلى الله عليه وسلم الصفا ذات يوم، فقال:" يا صباحاه، فاجتمعت إليه قريش، قالوا: ما لك؟ قال: ارايتم لو اخبرتكم ان العدو يصبحكم او يمسيكم اما كنتم تصدقوني؟ قالوا: بلى، قال: فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد"، فقال ابو لهب: تبا لك الهذا جمعتنا، فانزل الله: تبت يدا ابي لهب سورة المسد آية 1".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ:" يَا صَبَاحَاهْ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ، قَالُوا: مَا لَكَ؟ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ يُصَبِّحُكُمْ أَوْ يُمَسِّيكُمْ أَمَا كُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ"، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ سورة المسد آية 1".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا: یا صباحاہ! (لوگو دوڑو) اس آواز پر قریش جمع ہو گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تم کو سخت ترین عذاب (دوزخ) سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ ابولہب (مردود) بولا تو ہلاک ہو جا، کیا تو نے اسی لیے ہمیں بلایا تھا۔ اس پر اللہ پاک نے آیت «تبت يدا أبي لهب‏» نازل فرمائی۔

Narrated Ibn `Abbas: One day the Prophet ascended Safa mountain and said, "Oh Sabah! " All the Quraish gathered round him and said, "What is the matter?" He said, Look, if I told you that an enemy is going to attack you in the morning or in the evening, would you not believe me?" They said, "Yes, we will believe you." He said, "I am a warner to you in face of a terrible punishment." On that Abu Lahab said, "May you perish ! Is it for this thing that you have gathered us?" So Allah revealed: 'Perish the hands of Abu Lahab!...' (111.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 325

   صحيح البخاري4770عبد الله بن عباسأرأيتكم لو أخبرتكم أن خيلا بالوادي تريد أن تغير عليكم أكنتم مصدقي قالوا نعم ما جربنا عليك إلا صدقا قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك سائر اليوم ألهذا جمعتنا نزلت تبت يدا أبي لهب وتب ما أغنى عنه ماله وما كسب
   صحيح البخاري4801عبد الله بن عباسأرأيتم لو أخبرتكم أن العدو يصبحكم أو يمسيكم أما كنتم تصدقوني قالوا بلى قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك ألهذا جمعتنا فأنزل الله تبت يدا أبي لهب
   صحيح البخاري4971عبد الله بن عباسأرأيتم إن أخبرتكم أن خيلا تخرج من سفح هذا الجبل أكنتم مصدقي قالوا ما جربنا عليك كذبا قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد
   صحيح البخاري4972عبد الله بن عباسأرأيتم إن حدثتكم أن العدو مصبحكم أو ممسيكم أكنتم تصدقوني قالوا نعم قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد
   جامع الترمذي3363عبد الله بن عباسإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد أرأيتم لو أني أخبرتكم أن العدو ممسيكم أو مصبحكم أكنتم تصدقوني فقال أبو لهب ألهذا جمعتنا تبا لك أنزل الله تبت يدا أبي لهب وتب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4971  
´اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانا`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/بَابٌ: 4971]

تخريج الحديث:
[124۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 1 باب حدثنا يوسف 4971، مسلم 208]
لغوی توضیح:
«الصَّفَا» مکہ میں ایک مقام کا نام۔
«يَا صَبَاحَاه» یہ وہ کلمہ ہے جو فریاد کرنے والا پکارتا ہے یا لوگوں کو کسی اہم کام کے لیے جمع کرنے کی غرض سے پکارا جاتا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 124   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3363  
´سورۃ «تبت یدا» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه» ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3363]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اوراہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔

2؎:
دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپﷺ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے،
یا نہیں؟ اس پر انھوں نے کہا،
کیوں نہیں کریں گے،
آپﷺ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں،
اس پر آپ ﷺنے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔

3؎:
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا (تبت: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3363   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4801  
4801. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور فرمایا: یا صباحاہ، یعنی صبح کے وقت تم پر دشمن حملہ آور ہونے والا ہے۔ یہ سن کر قریش جمع ہو گئے اور آپ سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خٰيال کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر سن لو کہ میں شدید عذاب آنے سے پہلے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب (تنک کر) بولا: تیرے لیے ہلاکت ہو! کیا تو نے اسی لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالٰی نے اس کے جواب میں سورہ لہب نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4801]
حدیث حاشیہ:
ابو لہب کی بد دعا الٹی اسی کے اوپر پڑی۔
اللہ نے اسے بڑی ذلت کی موت مارا۔
اس کا مال اس کا خاندان کوئی چیز اس کے کام نہیں آئی۔
اللہ والوں کے ستانے والوں کا آخری انجام ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔
الحمد اللہ کہ اللہ کی مدد اور شائقین کرام کی پر خلوص دعاؤں سے یہ پارہ 19ختم ہوا اپنی ہر امکانی کوشش اسے بہتر سے بہتر بنانے اور ترجمہ اور تشریحات لکھنے میں صرف کی گئی ہے اور سفر و حضر شب و روز میں اس کے متن و ترجمہ و تشریحات کا بار بار مطالعہ کیا گیا ہے پھر بھی انسان سے خطا و نسیان کا ہر وقت امکان ہے۔
اللہ پاک ہر لغزش کو معاف فرمائے اور مخلصین ماہرین علم حدیث بھی چشم عفو سے کام لیتے ہوئے امکانی لغزشوں پر مطلع فرما کر مشکور کریں تا کہ طبع ثانی میں اصلاح کر دی جائے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک احادیث نبوی کے اس پاکیزہ ذخیرہ سے مطالعہ فرمانے والے مسلمان بھائیوں بہنوں کو رشد و ہدایت سے مالا مال فرمائے اور اس پارے کے بعد والے پاروں کو بھی تکمیل تک پہنچانے میں مجھ ناچیز خادم کی مدد کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4801   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4801  
4801. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور فرمایا: یا صباحاہ، یعنی صبح کے وقت تم پر دشمن حملہ آور ہونے والا ہے۔ یہ سن کر قریش جمع ہو گئے اور آپ سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خٰيال کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر سن لو کہ میں شدید عذاب آنے سے پہلے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب (تنک کر) بولا: تیرے لیے ہلاکت ہو! کیا تو نے اسی لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالٰی نے اس کے جواب میں سورہ لہب نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4801]
حدیث حاشیہ:
قریش مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ کہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے خیال کے مطابق میں اس لیے دیوانہ ہوں کہ میں تمھیں اس بات سے آگاہ کر رہا ہوں کہ جو طریق زندگی تم نے اختیار کیا ہے۔
وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور اس کے برے انجام سے میں تمھیں ڈرا رہا ہوں اور اگر میں اس کے برعکس یہ کہہ دیتا کہ تم لوگ بہت ٹھیک جا رہے ہوتب تم مجھے فرزانہ قرار دیتے اور اگر میں تمھیں چند ٹھوس حقائق کی اطلاع دیتا ہوں تو تم مجھے دیوانہ کہنے لگےہو۔
خدارا! کچھ غور و فکر اورعقل کے ناخن لو۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4801   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.