الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
91. سورة {وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا} :
91. باب: سورۃ «والشمس وضحاها» کی تفسیر۔
(91) SURAT ASH-SHAMS (The Sun)
حدیث نمبر: Q4942
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مجاهد: بطغواها: بمعاصيها، ولا يخاف عقباها: عقبى احد.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بِطَغْوَاهَا: بِمَعَاصِيهَا، وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا: عُقْبَى أَحَدٍ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا کہ «بطغواها‏» اپنے گناہوں کی وجہ سے۔ «ولا يخاف عقباها‏» یعنی اللہ کو کسی کا ڈر نہیں کہ کوئی اس سے بدلہ لے سکے گا۔

حدیث نمبر: 4942
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا هشام، عن ابيه، انه اخبره عبد الله بن زمعة، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يخطب وذكر الناقة والذي عقر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذ انبعث اشقاها سورة الشمس آية 12" انبعث لها رجل عزيز عارم منيع في رهطه مثل ابي زمعة، وذكر النساء، فقال:" يعمد احدكم فيجلد امراته جلد العبد، فلعله يضاجعها من آخر يومه، ثم وعظهم في ضحكهم من الضرطة، وقال: لم يضحك احدكم مما يفعل"، وقال ابو معاوية: حدثنا هشام، عن ابيه، عن عبد الله بن زمعة، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" مثل ابي زمعة عم الزبير بن العوام".حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ وَذَكَرَ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12" انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَزِيزٌ عَارِمٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ، وَذَكَرَ النِّسَاءَ، فَقَالَ:" يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ، فَلَعَلَّهُ يُضَاجِعُهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ، ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ، وَقَالَ: لِمَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ"، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ عَمِّ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر فرمایا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «إذ انبعث أشقاها‏» یعنی اس اونٹنی کو مار ڈالنے کے لیے ایک مفسد بدبخت (قدار نامی) کو اپنی قوم میں ابوزمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا اٹھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا کہ تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہمبستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے انہیں ریاح خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ ایک کام جو تم میں ہر شخص کرتا ہے اسی پر تم دوسروں پر کس طرح ہنستے ہو۔ ابومعاویہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ بن زبیر نے، ان سے عبداللہ بن زمعہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس حدیث میں) یوں فرمایا ابوزمعہ کی طرح جو زبیر بن عوام کا چچا تھا۔

Narrated `Abdullah bin Zama: That he heard the Prophet delivering a sermon, and he mentioned the shecamel and the one who hamstrung it. Allah's Messenger recited:-- 'When, the most wicked man among them went forth (to hamstrung the she-camel).' (91.12.) Then he said, "A tough man whose equal was rare and who enjoyed the protection of his people, like Abi Zama went forth to (hamstrung) it." The Prophet then mentioned about the women (in his sermon). "It is not wise for anyone of you to lash his wife like a slave, for he might sleep with her the same evening." Then he advised them not to laugh when somebody breaks wind and said, "Why should anybody laugh at what he himself does?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 466

   صحيح البخاري4942عبد الله بن زمعةإذ انبعث أشقاها
   صحيح البخاري3377عبد الله بن زمعةوذكر الذي عقر الناقة قال انتدب لها رجل ذو عز ومنعة في قوة كأبي زمعة
   صحيح مسلم7191عبد الله بن زمعةإذ انبعث أشقاها انبعث بها رجل عزيز عارم منيع في رهطه مثل أبي زمعة إلام يجلد أحدكم امرأته جلد الأمة ولعله يضاجعها من آخر يومه وعظهم في ضحكهم من الضرطة فقال إلام يضحك أحدكم مما يفعل
   جامع الترمذي3343عبد الله بن زمعةإذ انبعث أشقاها
   المعجم الصغير للطبراني703عبد الله بن زمعة وعظ فى الضحك من الضرطة ، قال : على ما يضحك أحدكم مما يصنع

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3343  
´سورۃ «والشمس وضحاھا» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت «إذ انبعث أشقاها» تلاوت کی، اس کام کے لیے ایک «شرِّ» سخت دل طاقتور، قبیلے کا قوی و مضبوط شخص اٹھا، مضبوط و قوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3343]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے۔ 1۔
اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور 2۔
مجلس میں کسی کی ریاح زورسے خارج ہو جانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ،
کس حکیمانہ پیرائے میں آپﷺ نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے! قابلِ غور ہے،
فداہ أبي وأمي۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3343   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4942  
4942. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے اپنے ایک خطبے میں حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے (إِذِ ٱنۢبَعَثَ أَشْقَىٰهَا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس اونٹنی کو مارنے کے لیے ایک بدبخت اور فسادی اٹھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا۔ پھر آپ ﷺ نے اس مجلس میں عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ اپنی بیویوں کو نوکروں اور غلاموں کی طرح پیٹتے ہیں، پھر دن کے اختتام پر اس سے ہم بستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے پادنے (انسانی ہوا کے خارج ہونے) پر ہنسنے سے منع کیا اور فرمایا: تم میں سے کوئی اس فعل پر کیوں ہنستا ہے جو وہ خود بھی کرتا ہے۔ ابو معاویہ نے کہا: ہمیں ہشام نے بتایا: وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن زمعہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ابو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4942]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ ابو زمعہ مطلب بن اسد کا بیٹا تھا اور زبیر بن عوام بن خویلد بن اسد کے بیٹے تھے تو ابو زمعہ عوام کا چچا زاد بھائی تھا جو زبیر کا چچا ہوا۔
اس روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند میں وصل کیا ہے۔
سورۃ والشمس مکہ میں اتری حدیث میں ہے آپ عشاء کی نماز میں یہ سورت اوراسی کے برابر کی سورت پڑھتے۔
(و القمرِ إِذَا تَلاھَا)
اور چاند جب کہ اس کے پیچھے آئے یعنی سورج چھپ جائے اور چاند چمکنے لگے پھر دن کی قسم کھائی جب کہ وہ منور ہو جائے۔
امام جریر فرماتے ہیں کہ ان سب میں ضمیر ھا کا مرجع شمس ہے کیونکہ ا س کا ذکر چل رہا ہے۔
ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ جب رات آتی ہے تواللہ پاک فرماتا ہے میرے بندوں کو میری ایک بہت بڑی خلق نے چھپا لیا پس مخلوق رات سے ہیبت کرتی ہے، اس کے پیدا کرنے والے سے اور زیادہ ہیبت چاہئے پھر آسمان کی قسم کھاتا ہے۔
یہاں جو ما ہے یہ مصدریہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم اور ما بمعنی من کے بھی ہوسکتا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ آسمان کی قسم اور اس کے بنانے والے کی قسم۔
مترجم مرحوم مولانا وحید الزماں نے یہی ترجمہ اختیار فرمایا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4942   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4942  
4942. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے اپنے ایک خطبے میں حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے (إِذِ ٱنۢبَعَثَ أَشْقَىٰهَا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس اونٹنی کو مارنے کے لیے ایک بدبخت اور فسادی اٹھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا۔ پھر آپ ﷺ نے اس مجلس میں عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ اپنی بیویوں کو نوکروں اور غلاموں کی طرح پیٹتے ہیں، پھر دن کے اختتام پر اس سے ہم بستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے پادنے (انسانی ہوا کے خارج ہونے) پر ہنسنے سے منع کیا اور فرمایا: تم میں سے کوئی اس فعل پر کیوں ہنستا ہے جو وہ خود بھی کرتا ہے۔ ابو معاویہ نے کہا: ہمیں ہشام نے بتایا: وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن زمعہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ابو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4942]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بےجا پیٹنے سے منع فرمایا ہے نیز پاد کی آواز کی طرف توجہ نہ دینے کی ترغیب دی ہے۔
دور جاہلیت میں لوگ پاد کی آواز سن کر ہنسا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ جب ایسی چیز واقع ہو تو اس کی طرف توجہ ہی نہ دی جائے۔
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں یہ حرکت عام تھی کہ وہ اپنی مجالس میں جان بوجھ کر پاد مارتے پھر اس پر ہنسا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4942   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.