الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَتَبَّ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “...and perish he! His wealth and his children will not benefit him!” (V.111:1-2)
حدیث نمبر: 4972
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن سلام، اخبرنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى البطحاء، فصعد إلى الجبل، فنادى يا صباحاه، فاجتمعت إليه قريش، فقال:" ارايتم إن حدثتكم ان العدو مصبحكم او ممسيكم اكنتم تصدقوني؟ قالوا: نعم، قال:" فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد"، فقال ابو لهب: الهذا جمعتنا تبا لك، فانزل الله عز وجل: تبت يدا ابي لهب سورة المسد آية 1 إلى آخرها.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ، فَصَعِدَ إِلَى الْجَبَلِ، فَنَادَى يَا صَبَاحَاهْ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ، فَقَالَ:" أَرَأَيْتُمْ إِنْ حَدَّثْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُصَبِّحُكُمْ أَوْ مُمَسِّيكُمْ أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ"، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ سورة المسد آية 1 إِلَى آخِرِهَا.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یعنی وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑی پر چڑھ کر پکارا۔ یا صباحاہ! قریش اس آواز پر آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور آپ کی تصدیق کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ ابولہب بولا تم تباہ ہو جاؤ۔ کیا تم نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «تبت يدا أبي لهب‏» آخر تک۔

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet went out towards Al-Batha' and ascended the mountain and shouted, "O Sabahah!" So the Quraish people gathered around him. He said, "Do you see? If I tell you that an enemy is going to attack you in the morning or in the evening, will you believe me?" They replied, "Yes." He said, "Then I am a plain warner to you of a coming severe punishment." Abu Lahab said, "Is it for this reason that you have gathered us? May you perish ! " Then Allah revealed: 'Perish the hands of Abu Lahab!'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 496

   صحيح البخاري4770عبد الله بن عباسأرأيتكم لو أخبرتكم أن خيلا بالوادي تريد أن تغير عليكم أكنتم مصدقي قالوا نعم ما جربنا عليك إلا صدقا قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك سائر اليوم ألهذا جمعتنا نزلت تبت يدا أبي لهب وتب ما أغنى عنه ماله وما كسب
   صحيح البخاري4801عبد الله بن عباسأرأيتم لو أخبرتكم أن العدو يصبحكم أو يمسيكم أما كنتم تصدقوني قالوا بلى قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك ألهذا جمعتنا فأنزل الله تبت يدا أبي لهب
   صحيح البخاري4971عبد الله بن عباسأرأيتم إن أخبرتكم أن خيلا تخرج من سفح هذا الجبل أكنتم مصدقي قالوا ما جربنا عليك كذبا قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد
   صحيح البخاري4972عبد الله بن عباسأرأيتم إن حدثتكم أن العدو مصبحكم أو ممسيكم أكنتم تصدقوني قالوا نعم قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد
   جامع الترمذي3363عبد الله بن عباسإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد أرأيتم لو أني أخبرتكم أن العدو ممسيكم أو مصبحكم أكنتم تصدقوني فقال أبو لهب ألهذا جمعتنا تبا لك أنزل الله تبت يدا أبي لهب وتب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4971  
´اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانا`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/بَابٌ: 4971]

تخريج الحديث:
[124۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 1 باب حدثنا يوسف 4971، مسلم 208]
لغوی توضیح:
«الصَّفَا» مکہ میں ایک مقام کا نام۔
«يَا صَبَاحَاه» یہ وہ کلمہ ہے جو فریاد کرنے والا پکارتا ہے یا لوگوں کو کسی اہم کام کے لیے جمع کرنے کی غرض سے پکارا جاتا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 124   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3363  
´سورۃ «تبت یدا» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه» ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3363]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اوراہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔

2؎:
دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپﷺ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے،
یا نہیں؟ اس پر انھوں نے کہا،
کیوں نہیں کریں گے،
آپﷺ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں،
اس پر آپ ﷺنے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔

3؎:
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا (تبت: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3363   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4972  
4972. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بطحاء کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑ پر چڑھ کر پکارا: يا صباحاه! اس آواز پر قریش کے لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ نے پوچھا: بتاؤ، اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ سب نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں عذاب شدید سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے ہے۔ اس پر ابولہب بولا: تو تباہ ہو جائے، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ سورت نازل فرمائی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ ۔۔۔ آخر تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4972]
حدیث حاشیہ:

ابولہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا۔
آپ کے والد توآپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے تو اسے باپ کی جگہ اپنے بھتیجے کی کفالت کرنا چاہیے تھی، لیکن یہ انتہائی بخیل تھا۔
جب آپ کے داداعبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انھوں نے آپ کی کفالت ابولہب کے بجائے ابوطالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابولہب کی نسبت بہت کمزور تھا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کا برسرعام اعلان کیا تو ابولہب یکدم بھڑک اٹھا اور اس نے جو کہنا تھا وہ کہا جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔

اگرچہ ابولہب کی اس بدتمیزی سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا، تاہم اس کایہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ نے حسب ارشاد الٰہی اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کر دیا، البتہ ابولہب کی گستاخی اور بدتمیزی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پوری سورت نازل فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں میں سے صرف ابولہب کا نام لے کر اس کی مذمت کی ہے کیونکہ وہ آپ سے دشمنی اور بغض وعناد میں بہت آگے نکل چکا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4972   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.