الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
The Book of Patients
19. بَابُ تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ:
19. باب: مریض کا موت کی تمنا کرنا منع ہے۔
(19) Chapter. The patient’s wish for death.
حدیث نمبر: 5671
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا ثابت البناني، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يتمنين احدكم الموت من ضر اصابه، فإن كان لا بد فاعلا فليقل، اللهم احيني ما كانت الحياة خيرا لي، وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي".حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلْ، اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بنانی نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی تکلیف میں اگر کوئی شخص مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے اور اگر کوئی موت کی تمنا کرنے ہی لگے تو یہ کہنا چاہیئے «اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي،‏‏‏‏ وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لیے بہتر ہو تو مجھ کو اٹھا لے۔

Narrated Anas bin Malik: The Prophet said, "None of you should wish for death because of a calamity befalling him; but if he has to wish for death, he should say: "O Allah! Keep me alive as long as life is better for me, and let me die if death is better for me.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 575

   صحيح البخاري7233أنس بن مالكلا تتمنوا الموت لتمنيت
   صحيح البخاري5671أنس بن مالكاللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   صحيح البخاري6351أنس بن مالكلا يتمنين أحد منكم الموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   صحيح مسلم6816أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   صحيح مسلم6816أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لتمنيته
   جامع الترمذي971أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن أبي داود3108أنس بن مالكلا يدعون أحدكم بالموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن النسائى الصغرى1823أنس بن مالكلا تدعوا بالموت ولا تتمنوه من كان داعيا لا بد فليقل اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن النسائى الصغرى1822أنس بن مالكلا يتمنى أحدكم الموت لضر نزل به فإن كان لا بد متمنيا الموت اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني ما كانت الوفاة خيرا لي
   سنن النسائى الصغرى1821أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به في الدنيا اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن ابن ماجه4265أنس بن مالكلا يتمنى أحدكم الموت لضر نزل به فإن كان لا بد متمنيا الموت اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   المعجم الصغير للطبراني339أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   بلوغ المرام426أنس بن مالكاللهم احيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 426  
´مصیبت و تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا و خواہش نہیں کرنی چاہیے`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس مصیبت و تکلیف کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا و خواہش ہرگز نہیں کرنی چاہیے . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 426]
لغوی تشریح:
«لَا يَتْمَنَّيَنَّ» تمني سے ماخوذ ہے۔ اس میں نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے اور نہی کا صیغہ ہے۔
«لَضُرَّ» ضاد پر ضمہ ہے اور کبھی فتحہ بھی آ جاتا ہے۔ کسی جانی اور مالی نقصان اور ضرر کی وجہ سے۔
«لَاُبدْ» با پر ضمہ اور دال پر تشدید ہے۔ ضروری اور لازمی طور پر۔
«أحْيِنِيي» اس میں ہمزہ قطعی ہے یعنی باب افعال کا ہے۔ معنی ہیں، مجھے زندگی عطا فرما۔
«تَوَفَّنِيْ» مجھے وفات دے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث دنیوی مصائب و آلام اور رشتوں سے تنگ آ کر موت کی تمنا و خواہش کرنے کو مکروہ قرار دیتی ہے کیونکہ یہ عدم رضا بالقضا کی خبر دیتی ہے، البتہ شہادت فی سبیل اللہ کی خواہش اور دین کے بارے میں فتنے کے اندیشے کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ و ناپسندیدہ نہیں ہے۔
➋ ایک سچے پکے مومن کے لیے زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ نیک آدمی زندگی کی صورت میں اپنے نیک اعمال اور صالح افعال میں اضافہ ہی کرے گا، اور سابقہ گناہوں سے اسے تائب ہونے کا موقع نصیب ہو گا۔ اگر آدمی برا ہے، بدکردار اور بداعمال ہے تو اسے موقع غنیمت ملے گا کہ توبہ کر لے اور راہ راست پر گامزن ہو کر اپنی آخروی زندگی سدھار لے، اس لیے دنیوی مصائب و آلام، مفلسی، غربت اور بیماری وغیرہ سے تنگ آخر موت کی آرزو نہ کرے، البتہ رب کائنات سے ملاقات کے شوق میں موت کی آرزو کمال ایمان کی نشانی اور علامت ہے۔
➌ اگر دین کے بارے میں کسی فتنے اور آزمائش کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی موت کی تمنا اور آرزو کی جا سکتی ہے۔ دنیوی مشکلات و تکالیف تو مومن کی درجات کی بلندیوں پر پہنچا کا باعث ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 426   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4265  
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4265]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
کیونکہ اس میں نیکیاں کرکے بندہ اللہ کو راضی کرسکتاہے اور جنت کے بلند درجات حاصل کرسکتا ہے۔

(2)
موت کی دعا زندگی کی نعمت کی ناشکری ہے۔

(3)
موت کی تمنا بے صبری کا اظہار بھی ہے۔
اور اللہ کی رحمت سے مایوسی بھی، اس لئے موت کی دعا کرنے کی بجائے مشکلات ٹل جانے کی دعا کرنا زیادہ بہتر ہے۔

(4)
حدیث میں ذکر کردہ دعا میں اللہ پر توکل اور اللہ کے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کرنے کا اظہار ہے۔

(5)
دنیا کی مشکلات وقتی ہیں۔
جبکہ اللہ کی ناراضگی آخرت کی ابدی نعمتوں سے محرومی کا باعث ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4265   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5671  
5671. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا پرگز نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اسکے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5671]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جب تک دنیا میں رہے اپنی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا رہے اور بہترین وفات کی دعا مانگے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5671   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5671  
5671. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا پرگز نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اسکے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5671]
حدیث حاشیہ:
انسان جب تک دنیا میں رہے اپنی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا رہے، اور اگر اسے اپنی زندگی میں کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور اسے اپنی آخرت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہو تو حدیث میں مذکورہ الفاظ سے دعا کی جا سکتی ہے۔
یہ الفاظ موت طلب کرنے کے زمرے میں نہیں آتے۔
ان الفاظ میں انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے اور یہ تسلیم و رضا کے منافی بھی نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 159/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5671   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.