الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
14. بَابُ مَنْ رَأَى لِلْقَاضِي أَنْ يَحْكُمَ بِعِلْمِهِ فِي أَمْرِ النَّاسِ إِذَا لَمْ يَخَفِ الظُّنُونَ وَالتُّهَمَةَ:
14. باب: قاضی کا اپنے ذاتی علم کی رو سے معاملات میں فیصلہ دینا درست ہے۔
(14) Chapter. Whosoever thinks that a judge can give judgements for the people according to his knowledge if he is not afraid of being suspected or blamed.
حدیث نمبر: Q7161
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
كما قال النبي صلى الله عليه وسلم لهند: خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف وذلك إذا كان امرا مشهورا.كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهِنْدٍ: خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ وَذَلِكَ إِذَا كَانَ أَمْرًا مَشْهُورًا.
‏‏‏‏ (قاضی کو اپنے ذاتی علم کی رو سے معاملات میں حکم دینا درست ہے، نہ کہ حدود اور حقوق اللہ میں) یہ بھی جب کہ بدگمانی اور تہمت کا ڈر نہ ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند (ابوسفیان کی بیوی) کو یہ حکم دیا تھا کہ تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہے جو دستور کے موافق تجھ کو اور تیری اولاد کو کافی ہو اور یہ اس وقت ہو گا جب معاملہ مشہور ہو۔

حدیث نمبر: 7161
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني عروة، ان عائشة رضي الله عنها، قالت:" جاءت هند بنت عتبة بن ربيعة، فقالت: يا رسول الله، والله ما كان على ظهر الارض اهل خباء احب إلي ان يذلوا من اهل خبائك، وما اصبح اليوم على ظهر الارض اهل خباء احب إلي ان يعزوا من اهل خبائك، ثم قالت: إن ابا سفيان رجل مسيك، فهل علي من حرج ان اطعم من الذي له عيالنا؟، قال لها: لا حرج عليك ان تطعميهم من معروف".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ قَالَتْ: إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ حَرَجٍ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟، قَالَ لَهَا: لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُطْعِمِيهِمْ مِنْ مَعْرُوفٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ آئیں اور کہا: یا رسول اللہ! روئے زمین کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق اس درجہ میں ذلت کی خواہشمند ہوں جتنا آپ کے گھرانہ کی ذلت و رسوائی کی میں خواہشمند تھی لیکن اب میرا یہ حال ہے کہ میں سب سے زیادہ خواہشمند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت و سربلندی والا ہو۔ پھر انہوں نے کہا کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ بخیل آدمی ہیں، تو کیا میرے لیے کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر لے کر) اپنے اہل و عیال کو کھلاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے، اگر تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ۔

Narrated `Aisha: Hind bint `Utba bin Rabi`a came and said. "O Allah's Apostle! By Allah, there was no family on the surface of the earth, I like to see in degradation more than I did your family, but today there is no family on the surface of the earth whom I like to see honored more than yours." Hind added, "Abu Sufyan is a miser. Is it sinful of me to feed our children from his property?" The Prophet said, "There is no blame on you if you feed them (thereof) in a just and reasonable manner.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 275

   صحيح البخاري5370عائشة بنت عبد اللهخذي بالمعروف
   صحيح البخاري7180عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري2460عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم بالمعروف
   صحيح البخاري7161عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم من معروف
   صحيح البخاري5364عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري5359عائشة بنت عبد اللهلا إلا بالمعروف
   صحيح البخاري2211عائشة بنت عبد اللهخذي أنت وبنوك ما يكفيك بالمعروف
   سنن أبي داود3532عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وبنيك بالمعروف
   سنن أبي داود3533عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تنفقي بالمعروف
   سنن النسائى الصغرى5422عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   سنن ابن ماجه2293عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   بلوغ المرام975عائشة بنت عبد الله خذي من ماله بالمعروف ما يكفيك ويكفي بنيك
   مسندالحميدي244عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2293  
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو سوائے اس کے جو میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (اس کے بارے میں فرمائیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2293]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنا خاوند کا فرض ہے۔

(2)
مسئلہ دریافت کرتے وقت حقیقت حال واضح کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کیا جائے تو یہ غیبت میں شامل نہیں، اس لیےجائز ہے۔

(3)
جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(4)
مناسب حد کا تعین حالات، ماحول، خاوند کی مالی حالت اور ضرورت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2293   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 975  
´نفقات کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہند بنت عتبہ، ابوسفیان کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہے۔ مجھے وہ اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کیلئے کافی ہو مگر یہ کہ میں پوشیدہ طور پر کچھ لے لوں تو ایسا کرنے میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلے طریقے سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے کافی ہو۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 975»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل فللمرأة أن تأخذ بغير علمه...، حديث:5364، ومسلم، الأقضية، باب قضية هند، حديث"1714.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند اگر استطاعت کے باوجود اخراجات پورے ادا نہ کرے تو بیوی اسے بتائے بغیر اتنا خرچہ اس کے مال میں سے لے سکتی ہے جس سے اس کی جائز ضروریات پوری ہو سکتی ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اپنا جائز حق جس طرح وصول ہو سکتا ہو‘ کیا جا سکتا ہے۔
اور ناانصافی کے ازالے کی غرض سے شکوہ کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں آتا۔
2. بیوی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں اپنے شوہر کی شکایت لے جانے کی مجاز ہے۔
یہ شکایت بھی غیبت میں شمار نہیں‘ اگر یہ غیبت کی تعریف میں آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہند کو منع فرما دیتے۔
وضاحت: «حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے شوہر ابوسفیان کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلام قبول کیا۔
ان کا والد عتبہ‘ چچا شیبہ اور بھائی ولید غزوۂ بدر کے روز قتل کیے گئے تھے۔
یہ واقعہ ان کی طبیعت پر بڑا شاق گزرا‘ چنانچہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو انھوں نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکال کر چبایا‘ پھر اسے باہر پھینک دیا۔
محرم ۱۴ ہجری میں وفات پائی۔
سن وفات کے متعلق دیگر اقوال بھی ہیں۔
«حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکہ آرائی میں کفار کے علمبردار‘ قائد اور سپہ سالار ہوتے تھے۔
فتح مکہ کے موقع پر اسلام اس وقت قبول کیا جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنی پناہ و حفاظت میں انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ دخول مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔
ان کا اسلام بہت عمدہ اور خوب رہا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 975   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3532  
´کیا کسی آدمی کا ماتحت اس کے مال سے اپنا حق لے سکتا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) کہا: ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خرچ کے لیے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لیے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3532]
فوائد ومسائل:

بیوی اور بچوں کا خرچ شوہر کے ذمے ہے۔
اور اس پر واجب ہے۔
کہ دستور کے مطابق مہیا کرے۔


مصلحت کی غرض سے زوجین یا احباب ایک دوسرے کے بعض عیب ذکر کریں تو جائز ہے۔


بعض اوقات قاضی اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر گواہ طلب کئے بغیر بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔


اگر کوئی شخص کسی کا حق ادا نہ کر رہا ہو تو جائز ہے۔
کہ اس کے امانتی مال میں سے اپنے حق کے برابر ل لے۔
(خطابی نیز دیکھئے حدیث 3534)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3532   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7161  
7161. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ ؓا آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر کوئی گھر انہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق میں اس حد تک ذلت کی خواہش مند ہوتی جتنا آپ کے گھرانے کی ذلت اور رسوائی کی خواہش مند تھی اور اب میں سب سے زیادہ اس امر کی خواہش مند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت وسربلندی میں سب سے زیادہ اونچا ہو۔ پھر انہوں نے کہا: ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ بلا اجازت ان کے مال میں سے اہل وعیال کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7161]
حدیث حاشیہ:
اس مقدمہ کے متعلق آپ کو ذاتی علم تھا اسی وثوق پر آپ نے یہ حکم دے دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7161   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7161  
7161. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ ؓا آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر کوئی گھر انہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق میں اس حد تک ذلت کی خواہش مند ہوتی جتنا آپ کے گھرانے کی ذلت اور رسوائی کی خواہش مند تھی اور اب میں سب سے زیادہ اس امر کی خواہش مند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت وسربلندی میں سب سے زیادہ اونچا ہو۔ پھر انہوں نے کہا: ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ بلا اجازت ان کے مال میں سے اہل وعیال کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7161]
حدیث حاشیہ:

حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئی تھیں اور انھوں نے بغیر کچھ چھپائے اپنے جذبات کا اس والہانہ انداز میں اظہار کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی علم رکھتے تھےکیونکہ اس واقعے سے پہلے ان کی بیٹی حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آچلی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کو مبنی برحقیقت خیال کرتے ہوئےاپنے ذاتی علم کی بنیاد فتوی نہیں دیا بلکہ فیصلہ صادر فرمایا کہ تم معروف طریقے کے مطابق اتنا مال لو جتنا تجھے اور تیرے بچوں کو کافی ہو۔

اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی درج ذیل شرائط کی موجودگی میں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتا ہے اور زیر بحث معاملہ حقوق اللہ سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے متعلق ہو۔
معاشرتی طور پر وہ معاملہ لوگوں میں شہرت یافتہ ہو۔
قاضی اپنے ذاتی کردار کی وجہ سے نیک سیرت اور پاکباز ہو۔
ایسا فیصلہ دینے سے پہلے کسی قسم کے جرم میں سزا یا فتہ نہ ہو۔
تہمت و بدگمانی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
ان شرائط کی موجودگی میں قاضی محض اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. القضاء على الغائب (الأقضية والأحكام)
2. قضاء القاضي بعلمه (الأقضية والأحكام)
3. استيفاء الحق بغير قضاء (مسألة الظفر) (الأقضية والأحكام)
4. بخل أبي سفيان (السيرة)
5. استئذان الزوجة زوجها في نفقتها (الأحوال الشخصية)
6. استئذان الزوج في التصرفات المالية (الأحوال الشخصية)
7. مقدار النفقة على الأهل (الأحوال الشخصية)
8. نفقة من غاب عنها زوجها (الأحوال الشخصية)
9. الحلف بالله (العبادات)
موضوعات 1. غیر موجود پر فیصلہ کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
2. قاضی کا اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
3. بغیر عدالتی فیصلے کے پورا حق وصول کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
4. حضرت ابو سفیان کا بخل (سیرت)
5. نان ونفقہ اور اخراجات کے لیے شوہر سے اجازت لینا (نجی اور شخصی احوال ومعاملات)
6. مالی تصرفات کے لیے شوہر سے اجازت لینا (نجی اور شخصی احوال ومعاملات)
7. اہل خانہ پر اخراجات کی مقدار (نجی اور شخصی احوال ومعاملات)
8. شوہر کی عدم موجودگی میں اخراجات (نجی اور شخصی احوال ومعاملات)
9. اللہ کے نام کے ساتھ قسم اٹھانا (عبادات)
Topics 1. Deciding the case of absentee (Legal Orders and Verdicts)
2. Judge's decision on the base of his knowledge (Legal Orders and Verdicts)
3. Taking full right without proper decision (Legal Orders and Verdicts)
4. Miserliness of Hazrat Abu Sufyan. (Prophet's Biography)
5. Taking permission from husband for expenditures (Private and Social Conditions and Matters)
6. Permission of husaband for expenses (Private and Social Conditions and Matters)
7. How much one should spend on family (Private and Social Conditions and Matters)
8. Expenses in the absence of husband (Private and Social Conditions and Matters)
9. Taking Oath by the Name of Allah (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7161 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
ترجمۃ الباب:
(نہ کہ حدود اور حقوق اللہ میں)
یہ بھی جب کہ بدگمانی اور تہمت کا ڈر نہ ہو۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہند(ابوسفیان کی بیوی)
کو یہ حکم دیا تھا کہ تو ابوسفیانؓ کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہے جو دستور کے موافق تجھ کو اور تیری اولاد کو کافی ہو اور یہ اس وقت ہوگا جب معاملہ مشہور ہو۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا:
سیدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ ؓا آئیں اور کہا:
اللہ کے رسول! روئے زمین پر کوئی گھر انہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق میں اس حد تک ذلت کی خواہش مند ہوتی جتنا آپ کے گھرانے کی ذلت اور رسوائی کی خواہش مند تھی اور اب میں سب سے زیادہ اس امر کی خواہش مند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت وسربلندی میں سب سے زیادہ اونچا ہو۔
پھر انہوں نے کہا:
ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہیں تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ بلا اجازت ان کے مال میں سے اہل وعیال کو کھلاؤں؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:
تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:

حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئی تھیں اور انھوں نے بغیر کچھ چھپائے اپنے جذبات کا اس والہانہ انداز میں اظہار کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی علم رکھتے تھےکیونکہ اس واقعے سے پہلے ان کی بیٹی حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آچلی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کو مبنی برحقیقت خیال کرتے ہوئےاپنے ذاتی علم کی بنیاد فتوی نہیں دیا بلکہ فیصلہ صادر فرمایا کہ تم معروف طریقے کے مطابق اتنا مال لو جتنا تجھے اور تیرے بچوں کو کافی ہو۔

اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی درج ذیل شرائط کی موجودگی میں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتا ہے اور زیر بحث معاملہ حقوق اللہ سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے متعلق ہو۔
معاشرتی طور پر وہ معاملہ لوگوں میں شہرت یافتہ ہو۔
قاضی اپنے ذاتی کردار کی وجہ سے نیک سیرت اور پاکباز ہو۔
ایسا فیصلہ دینے سے پہلے کسی قسم کے جرم میں سزا یا فتہ نہ ہو۔
تہمت و بدگمانی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
ان شرائط کی موجودگی میں قاضی محض اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
جیسا کہ نبی ﷺ نے سیدہ ہندؓ کو فرمایا تھا:
تم (ابو سفیان ؓ کے مال سے)
اس قدر لے سکتی ہو جو دستور کے مطابق تجھے اور تیری اولاد کو کافی ہو۔
اور یہ بھی مشہور معاملات میں ہےحدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓا نے کہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ آئیں اور کہا یا رسول اللہ! روئے زمین کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کے متعلق اس درجہ میں ذلت کی خواہشمند ہوں جتنا آپ کے گھرانہ کی ذلت و رسوائی کی میں خواہشمند تھی لیکن اب میرا یہ حال ہے کہ میں سب سے زیادہ خواہشمند ہوں کہ روئے زمین کے تمام گھرانوں میں آپ کا گھرانہ عزت و سربلندی والا ہو۔
پھر انہوں نے کہا کہ ابوسفیان ؓ بخیل آدمی ہیں، تو کیا میرے لیے کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے(ان کی اجازت کے بغیر لے کر)
اپنے اہل و عیال کو کھلاؤں؟ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے، اگر تم انہیں دستور کے مطابق کھلاؤ۔
حدیث حاشیہ:
اس مقدمہ کے متعلق آپ کو ذاتی علم تھا اسی وثوق پر آپ نے یہ حکم دے دیا۔
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA)
:
Hind bint 'Utba bin Rabia came and said. "O Allah's Apostle (ﷺ)! By Allah, there was no family on the surface of the earth, I like to see in degradation more than I did your family, but today there is no family on the surface of the earth whom I like to see honored more than yours." Hind added, " Abu Sufyan (RA)
is a miser. Is it sinful of me to feed our children from his property?" The Prophet (ﷺ) said, "There is no blame on you if you feed them (thereof)
in a just and reasonable manner. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
اس مقدمہ کے متعلق آپ کو ذاتی علم تھا اسی وثوق پر آپ نے یہ حکم دے دیا۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7227٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7161٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6628٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7161٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6742٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6898٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7161٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7161١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7161 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقف سے موافقت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ قاضی لوگوں کے آپس کے معاملات میں اپنے ذاتی علم کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے تین شرطیں ہیں۔
وہ معاملہ حقوق اللہ جیسے حدود وغیرہ سے متعلق نہ ہو۔
تہمت اور بد گمانی کا اندیشہ نہ ہو۔
وہ معاملہ لوگوں کے ہاں مشہور ہو کبھی کبھار پیش آنے والا نہ ہو۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ ہوگی۔
ان شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7161   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.