وحدثني نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا بشر يعني ابن المفضل ، عن ابي مسلمة ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما اهل النار الذين هم اهلها، فإنهم لا يموتون فيها ولا يحيون، ولكن ناس اصابتهم النار بذنوبهم، او قال: " بخطاياهم فاماتهم إماتة، حتى إذا كانوا فحما، اذن بالشفاعة، فجيء بهم ضبائر ضبائر فبثوا على انهار الجنة، ثم قيل: يا اهل الجنة، افيضوا عليهم، فينبتون نبات الحبة تكون في حميل السيل "، فقال رجل من القوم: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قد كان بالبادية.وحَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا، فَإِنَّهُمْ لَا يَمُوتُونَ فِيهَا وَلَا يَحْيَوْنَ، وَلَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ، أَوَ قَالَ: " بِخَطَايَاهُمْ فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً، حَتَّى إِذَا كَانُوا فَحْمًا، أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ، فَجِيءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ قِيلَ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ، فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ كَانَ بِالْبَادِيَةِ.
بشر بن مفضل نے ابو مسلمہ سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو نضرہ سے، انہوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاں تک دوزخ والوں کی بات ہے تووہ لوگ جو (ہمیشہ کے لیے) اس کے باشندے ہیں نہ تو اس میں مریں گے اور نہ جئیں گے۔ لیکن تم (اہل ایمان) میں سے جن لوگوں کو گناہوں کی پاداش میں (یا آپ نے فرمایا: خطاؤں کی بنا پر) آگ کی مصیبت لاحق ہو گی تو اللہ تعالیٰ ان پر ایک طرح کی موت طاری کر دے گا یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ ہو جائیں گے تو سفارش کی اجازت دے دی جائے گی، پھر انہیں گروہ در گروہ لایا جائے گا اور انہیں جنت کی نہروں پر پھیلادیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے اہل جنت! ان پر پانی ڈالو تو اس میں بیج کی طرح اگ آئیں گے جو سیلاب کے خس و خاشاک میں ہوتا ہے۔“ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ایسا لگتا ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحرائی آبادی میں رہے ہیں۔
حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہے دوزخی جو اس کے رہائشی ہیں، وہ نہ اس میں مریں گے اور نہ زندہ ہوں گے، لیکن وہ (اہلِ ایمان) لوگ، جو گناہوں کی پاداش میں یا آپ نے فرمایا: ”قصوروں کی بنا پر آگ میں جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ ان پر ایک قسم کی موت طاری کر دے گا، یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ بن جائیں گے، سفارش کے تحت اجازت دی جائے گی، تو انھیں گروہ در گروہ لایا جائے گا اور انھیں جنت کی نہروں میں پھیلا دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے جنتیو! ان پر پانی ڈالو، تو وہ اس قدرتی بیج کی طرح نشوونما پائیں گے، جو سیلاب کے بہاؤ کے ساتھ آنے والی مٹی میں ہوتا ہے۔“ تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگل میں رہے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 185
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: ذكر الشفاعة برقم (4309) انظر ((التحفة)) برقم (4346)»
إذا دخل أهل الجنة الجنة وأهل النار النار يقول الله من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان فأخرجوه فيخرجون قد امتحشوا وعادوا حمما فيلقون في نهر الحياة فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل أو قال حمية السيل وقال النبي ألم تروا أنها تنب
انظروا من وجدتم في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان فأخرجوه فيخرجون منها حمما قد امتحشوا فيلقون في نهر الحياة أو الحيا فينبتون فيه كما تنبت الحبة إلى جانب السيل ألم تروها كيف تخر
أهل النار الذين هم أهلها فإنهم لا يموتون فيها ولا يحيون ولكن ناس أصابتهم النار بذنوبهم أو قال بخطاياهم فأماتهم إماتة حتى إذا كانوا فحما أذن بالشفاعة فجيء بهم ضبائر ضبائر فبثوا على أنهار الجنة ثم قيل يا أهل الجنة أفيضوا عليهم فينبتون نبات الحبة تكون في حمي
أهل النار الذين هم أهلها فأنهم لا يموتون فيها ولا يحيون ولكن ناس أصابتهم نار بذنوبهم أو بخطاياهم فأماتتهم إماتة حتى إذا كانوا فحما أذن لهم في الشفاعة فجيء بهم ضبائر ضبائر فبثوا على أنهار الجنة فقيل يا أهل الجنة أفيضوا عليهم فينبتون نبات الحبة تكون في حميل