الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
The Book on Hunting
12. باب مَا قُطِعَ مِنَ الْحَىِّ فَهُوَ مَيِّتٌ
12. باب: زندہ جانور سے کاٹا ہوا گوشت مردار کے حکم میں ہے۔
Chapter: What Has Been Related About: Whatever Is Cut From Something Living, Then It Is Dead Flesh
حدیث نمبر: 1480
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني , حدثنا سلمة بن رجاء , قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار , عن زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , عن ابي واقد الليثي، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يجبون اسنمة الإبل , ويقطعون اليات الغنم , فقال: " ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة " , حدثنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني , حدثنا ابو النضر، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار نحوه , قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب , لا نعرفه إلا من حديث زيد بن اسلم , والعمل على هذا عند اهل العلم , وابو واقد الليثي اسمه: الحارث بن عوف.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ , حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ , وَيَقْطَعُونَ أَلْيَاتِ الْغَنَمِ , فَقَالَ: " مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ " , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ نَحْوَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ.
ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور (زندہ) بکریوں کی پٹھ کاٹتے تھے، آپ نے فرمایا: زندہ جانور کا کاٹا ہوا گوشت مردار ہے ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف زید بن اسلم کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصید 3 (2858) (تحفة الأشراف: 15515)، وسنن الدارمی/الصید 9 (2061) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ذبح کیے بغیر زندہ جانور کا وہ حصہ جو کاٹا گیا ہے اسی طرح حرام اور ناجائز ہے جس طرح دوسرے مردہ جانور حرام ہیں، اس لیے اس کاٹے گئے حصہ کا کھانا جائز نہیں، یہ طریقہ زمانہ جاہلیت کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3216)
حدیث نمبر: 1481
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد , ومحمد بن العلاء , قالا: حدثنا وكيع , عن حماد بن سلمة. ح وحدثنا احمد بن منيع , حدثنا يزيد بن هارون , انبانا حماد بن سلمة , عن ابي العشراء، عن ابيه , قال: قلت: يا رسول الله , اما تكون الذكاة إلا في الحلق واللبة , قال: " لو طعنت في فخذها لاجزا عنك " , قال احمد بن منيع , قال يزيد بن هارون: هذا في الضرورة , قال: وفي الباب , عن رافع بن خديج , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب , لا نعرفه إلا من حديث حماد بن سلمة , ولا نعرف لابي العشراء , عن ابيه , غير هذا الحديث , واختلفوا في اسم ابي العشراء , فقال بعضهم: اسمه اسامة بن قهطم , ويقال: اسمه يسار بن برز , ويقال: ابن بلز ويقال: اسمه عطارد نسب إلى جده.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي الْعُشَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلَّا فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ , قَالَ: " لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا لَأَجْزَأَ عَنْكَ " , قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: هَذَا فِي الضَّرُورَةِ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ , وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي الْعُشَرَاءِ , عَنْ أَبِيهِ , غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ , وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي الْعُشَرَاءِ , فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اسْمُهُ أُسَامَةُ بْنُ قِهْطِمٍ , وَيُقَالُ: اسْمُهُ يَسَارُ بْنُ بَرْزٍ , وَيُقَالُ: ابْنُ بَلْزٍ وَيُقَالُ: اسْمُهُ عُطَارِدٌ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ.
ابوالعشراء کے والد اسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ذبح (شرعی) صرف حلق اور لبہ ہی میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا: اگر اس کی ران میں بھی تیر مار دو تو کافی ہو گا، یزید بن ہارون کہتے ہیں: یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس حدیث کے علاوہ ابو العشراء کی کوئی اور حدیث ان کے باپ سے ہم نہیں جانتے ہیں، ابوالعشراء کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں: ان کا نام اسامہ بن قھطم ہے، اور کہا جاتا ہے ان کا نام یسار بن برز ہے اور ابن بلز بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام عطارد ہے دادا کی طرف ان کی نسبت کی گئی ہے،
۳- اس باب میں رافع بن خدیج سے بھی روایت آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 16 (2825)، سنن النسائی/الضحایا 25 (4413)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 9 (3184)، (تحفة الأشراف: 15694) و مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/الأضاحي 12 (2015) (ضعیف) (سند میں ”ابوالعشراء“ مجہول ہیں، ان کے والد بھی مجہول ہیں مگر صحابی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3184)

قال الشيخ زبير على زئي: (1481) إسناده ضعيف / د 2825، ن 4413، جه 3184
حدیث نمبر: 1713
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ازهر بن مروان البصري، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، عن ايوب، عن حميد بن هلال، عن ابي الدهماء، عن هشام بن عامر، قال: شكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الجراحات يوم احد فقال: " احفروا، واوسعوا، واحسنوا، وادفنوا الاثنين والثلاثة في قبر واحد، وقدموا اكثرهم قرآنا "، فمات ابي، فقدم بين يدي رجلين، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن خباب، وجابر، وانس، وهذا حديث حسن صحيح، وروى سفيان الثوري، وغيره هذا الحديث، عن ايوب، عن حميد بن هلال، عن هشام بن عامر، وابو الدهماء اسمه: قرفة بن بهيس او بيهس.حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي الدَّهْمَاءِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: شُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِرَاحَاتُ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ: " احْفِرُوا، وَأَوْسِعُوا، وَأَحْسِنُوا، وَادْفِنُوا الِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، وَقَدِّمُوا أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا "، فَمَاتَ أَبِي، فَقُدِّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلَيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ خَبَّابٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبُو الدَّهْمَاءِ اسْمُهُ: قِرْفَةُ بْنُ بُهَيْسٍ أَوْ بَيْهَسٍ.
ہشام بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زخموں کی شکایت کی گئی ۱؎، آپ نے فرمایا: قبر کھودو اور اسے کشادہ اور اچھی بناؤ، ایک قبر میں دو یا تین آدمیوں کو دفن کرو، اور جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے (قبلہ کی طرف) آگے کرو، ہشام بن عامر کہتے ہیں: میرے والد بھی وفات پائے تھے، چنانچہ ان کو ان کے دو ساتھیوں پر مقدم (یعنی قبلہ کی طرف آگے) کیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سفیان ثوری اور دوسرے لوگوں نے اس حدیث کو بسند «أيوب عن حميد بن هلال عن هشام بن عامر» روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں خباب، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 1 7 (3215)، سنن النسائی/الجنائز 86 (2012)، و 90 (2017)، و 91 (2020)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 41 (1560)، (تحفة الأشراف: 11731)، و مسند احمد (4/19، 20) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی صحابہ کرام نے یہ شکایت کی، اللہ کے رسول ہم زخموں سے چور ہیں، اس لائق نہیں ہیں کہ شہداء کی الگ الگ قبریں تیار کر سکیں، ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، کیونکہ الگ الگ قبر کھودنے میں دشواری ہو رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1560)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.