الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
4. باب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَضَاحِي
4. باب: کس قسم کے جانور کی قربانی مستحب ہے؟
Chapter: What Has Been Related About What Is Recommended To Slaughter
حدیث نمبر: 1496
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا حفص بن غياث , عن جعفر بن محمد , عن ابيه , عن ابي سعيد الخدري، قال: " ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبش اقرن , فحيل ياكل في سواد , ويمشي في سواد , وينظر في سواد " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب , لا نعرفه إلا من حديث حفص بن غياث.حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ , فَحِيلٍ يَأْكُلُ فِي سَوَادٍ , وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ , وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے ایک نر مینڈھے کی قربانی کی، وہ سیاہی میں کھاتا تھا، سیاہی میں چلتا تھا اور سیاہی میں دیکھتا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- ہم اس کو صرف حفص بن غیاث ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأضاحي 4 (2796)، سنن النسائی/الضحایا 14 (4395)، سنن ابن ماجہ/الأضاحی 4 (1328)، (تحفة الأشراف: 4297) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس کا منہ، اس کے پیر اور اس کی آنکھیں سب کالی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3128)

قال الشيخ زبير على زئي: (1496) إسناده ضعيف / د 2796، ن 4395، جه 3128
حدیث نمبر: 1494
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة , حدثنا ابو عوانة، عن قتادة , عن انس بن مالك , قال: " ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين املحين اقرنين , ذبحهما بيده , وسمى , وكبر , ووضع رجله على صفاحهما " , قال: وفي الباب , عن علي , وعائشة , وابي هريرة , وابي ايوب , وجابر , وابي الدرداء , وابي رافع , وابن عمر , وابي بكرة ايضا , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: " ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ , ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ , وَسَمَّى , وَكَبَّرَ , وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ , وَعَائِشَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَجَابِرٍ , وَأَبِي الدَّرْدَاءِ , وَأَبِي رَافِعٍ , وَابْنِ عُمَرَ , وَأَبِي بَكْرَةَ أَيْضًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور (ذبح کرتے وقت) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، عائشہ، ابوہریرہ، ابوایوب، جابر، ابو الدرداء، ابورافع، ابن عمر اور ابوبکرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأضاحي 7 (5554)، و 9 (5558)، و 13 (5564)، و 14 (5565)، والتوحید 13 (7399)، صحیح مسلم/الأضاحي 3 (1966)، سنن ابی داود/ الأضاحي 4 (2794)، سنن النسائی/الأضاحي 14، (4391، 4392)، و 28 (4420)، و 29 (4421)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي (3120) (تحفة الأشراف: 1427)، و مسند احمد (3/99، 115، 170، 178، 189، 211، 214، 222، 255، 258، 272، 279، 281)، سنن الدارمی/الأضاحي1 (1988) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے یہ مسائل ثابت ہوتے ہیں: (۱) قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیئے، گو نیابت بھی جائز ہے، (۲) ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیئے (۳) ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں جانور کے گردن پر رکھنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3120)
حدیث نمبر: 1495
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن عبيد المحاربي الكوفي , حدثنا شريك , عن ابي الحسناء، عن الحكم , عن حنش , عن علي " انه كان يضحي بكبشين , احدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم , والآخر عن نفسه " , فقيل له: فقال: امرني به يعني: النبي صلى الله عليه وسلم فلا ادعه ابدا , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك , وقد رخص بعض اهل العلم ان يضحى عن الميت , ولم ير بعضهم ان يضحى عنه , وقال عبد الله بن المبارك: " احب إلي ان يتصدق عنه , ولا يضحى عنه , وإن ضحى , فلا ياكل منها شيئا , ويتصدق بها كلها " , قال محمد , قال علي بن المديني , وقد رواه غير شريك , قلت له: ابو الحسناء ما اسمه , فلم يعرفه , قال مسلم اسمه: الحسن.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنْ الْحَكَمِ , عَنْ حَنَشٍ , عَنْ عَلِيٍّ " أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ , أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ " , فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي: النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ , وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنِ الْمَيِّتِ , وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ , وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: " أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ , وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ , وَإِنْ ضَحَّى , فَلَا يَأْكُلُ مِنْهَا شَيْئًا , وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا " , قَالَ مُحَمَّدٌ , قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ , وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ , قُلْتُ لَهُ: أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ , فَلَمْ يَعْرِفْهُ , قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ: الْحَسَنُ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کا کیا نام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے، مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے،
۳- بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأضاحي 2 (2790)، (تحفة الأشراف: 10082) (ضعیف) (سند میں ”شریک“ حافظے کے کمزور ہیں، اور ابو الحسنائ“ مجہول، نیز ”حنش“ کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس ضعیف حدیث، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا: «اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جا سکتی ہے، پھر اختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ؟ حنابلہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک قربانی افضل ہے، جب کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم و صلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے، علی رضی الله عنہ کی حدیث سخت ضعیف ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے وقت کی دعا سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعا سے غیر اللہ کو پکارنے پر استدلال کرنا، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں «عمن لم يضح أمتي» (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کر سکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کر سکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ «واللہ اعلم بالصواب»

قال الشيخ الألباني: **

قال الشيخ زبير على زئي: (1495) إسناده ضعيف / د 2790 (ح 1496، يأتي ص 317)
حدیث نمبر: 1520
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا ازهر بن سعد السمان , عن ابن عون , عن محمد بن سيرين , عن عبد الرحمن بن ابي بكرة , عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم: " خطب ثم نزل فدعا بكبشين فذبحهما " , قال ابو عيسى , هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ , عَنْ أَبِيهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَطَبَ ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِكَبْشَيْنِ فَذَبَحَهُمَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى , هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، پھر (منبر سے) اترے پھر آپ نے دو مینڈھے منگائے اور ان کو ذبح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (یہ عید الاضحی کی نماز کے بعد کیا تھا، دیکھئیے اگلی حدیث)۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة (الحدود) 9 (1679)، سنن النسائی/الضحایا 14 (4394)، (تحفة الأشراف: 11683) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1521
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة , حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن , عن عمرو بن ابي عمرو , عن المطلب , عن جابر بن عبد الله , قال: " شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الاضحى بالمصلى , فلما قضى خطبته نزل عن منبره , فاتي بكبش فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده , وقال بسم الله , والله اكبر، هذا عني وعمن لم يضح من امتي " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه , والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , ان يقول الرجل إذا ذبح , بسم الله , والله اكبر , وهو قول ابن المبارك , والمطلب بن عبد الله بن حنطب , يقال: إنه لم يسمع من جابر.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ الْمُطَّلِبِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: " شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَضْحَى بِالْمُصَلَّى , فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ عَنْ مِنْبَرِهِ , فَأُتِيَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ , وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ , وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ إِذَا ذَبَحَ , بِسْمِ اللَّهِ , وَاللَّهُ أَكْبَرُ , وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ , يُقَالُ: إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی کے دن عید گاہ گیا، جب آپ خطبہ ختم کر چکے تو منبر سے نیچے اترے، پھر ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، اور (ذبح کرتے وقت) یہ کلمات کہے: «بسم الله والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- اہل علم صحابہ اور دیگر لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت آدمی یہ کہے «بسم الله والله أكبر» ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، کہا جاتا ہے،
۳- راوی مطلب بن عبداللہ بن حنطب کا سماع جابر سے ثابت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا8 (2810)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 1 (3121)، (تحفة الأشراف: 3099)، و مسند احمد (3/356، 362)، وسنن الدارمی/الأضاحي1 (1989) (صحیح) (”مطلب“ کے ”جابر“ رضی الله عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، الإرواء 1138، وتراجع الألبانی 580)»

وضاحت:
۱؎: میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔ (یہ آخری جملہ اس بابت واضح اور صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ان افراد کی طرف سے قربانی کی جو زندہ تھے اور مجبوری کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکے تھے، اس میں مردہ کو شامل کرنا زبردستی ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1138)، صحيح أبي داود (2501)

قال الشيخ زبير على زئي: (1521) إسناده ضعيف / د 2810

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.