الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طب (علاج و معالجہ) کے احکام و مسائل
Chapters on Medicine
12. باب مَا جَاءَ فِي الْحِجَامَةِ
12. باب: پچھنا لگوانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Cupping
حدیث نمبر: 2052
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن بديل بن قريش اليامي الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق، عن القاسم بن عبد الرحمن هو ابن عبد الله بن مسعود، عن ابيه، عن ابن مسعود، قال: حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ليلة اسري به: " انه لم يمر على ملإ من الملائكة إلا امروه: ان مر امتك بالحجامة "، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب، من حديث ابن مسعود.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِّيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ: " أَنَّهُ لَمْ يَمُرَّ عَلَى مَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا أَمَرُوهُ: أَنْ مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کا حال بیان کیا کہ آپ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے آپ کو یہ حکم ضرور دیا کہ اپنی امت کو پچھنا لگوانے کا حکم دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث ابن مسعود کی روایت سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9364)، وانظر: مسند احمد (1/254) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3477)

قال الشيخ زبير على زئي: (2052) إسناده ضعيف
عبدالرحمن بن إسحاق الكو فى الواسطي: ضعيف (تقدم: 741) وللحديث شواھد ضعيفة
حدیث نمبر: 1153
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن حجاج بن حجاج الاسلمي، عن ابيه، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما يذهب عني مذمة الرضاع، فقال: " غرة عبد او امة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ومعنى قوله: ما يذهب عني مذمة الرضاع، يقول: إنما يعني به ذمام الرضاعة، وحقها، يقول: إذا اعطيت المرضعة، عبدا او امة، فقد قضيت ذمامها، ويروى عن ابي الطفيل، قال: كنت جالسا مع النبي صلى الله عليه وسلم، إذ اقبلت امراة فبسط النبي صلى الله عليه وسلم رداءه حتى قعدت عليه، فلما ذهبت قيل: هي كانت ارضعت النبي صلى الله عليه وسلم، هكذا رواه يحيى بن سعيد القطان، وحاتم بن إسماعيل، وغير واحد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن حجاج بن حجاج، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروى سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن حجاج بن ابي حجاج، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث ابن عيينة غير محفوظ والصحيح ما روى هؤلاء، عن هشام بن عروة، عن ابيه، وهشام بن عروة يكنى ابا المنذر، وقد ادرك جابر بن عبد الله، وابن عمر.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ، فَقَالَ: " غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ، يَقُولُ: إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ ذِمَامَ الرَّضَاعَةِ، وَحَقَّهَا، يَقُولُ: إِذَا أَعْطَيْتَ الْمُرْضِعَةَ، عَبْدًا أَوْ أَمَةً، فَقَدْ قَضَيْتَ ذِمَامَهَا، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ فَبَسَطَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِدَاءَهُ حَتَّى قَعَدَتْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا ذَهَبَتْ قِيلَ: هِيَ كَانَتْ أَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَكَذَا رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَحَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى هَؤُلَاءِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ يُكْنَى أَبَا الْمُنْذِرِ، وَقَدْ أَدْرَكَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنَ عُمَرَ.
حجاج اسلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے رسول! مجھ سے حق رضاعت کس چیز سے ادا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ایک جان: غلام یا لونڈی کے ذریعہ سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح اسے یحییٰ بن سعید قطان، حاتم بن اسماعیل اور کئی لوگوں نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن حجاج بن حجاج عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن حجاج بن أبي حجاج عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ صحیح وہی ہے جسے ان لوگوں نے ہشام بن عروۃ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ (یعنی: «حجاج بن حجاج» والی نہ کہ «حجاج بن أبي حجاج» والی)
۳- اور «مايذهب عني مذمة الرضاعة» سے مراد رضاعت کا حق اور اس کا ذمہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: جب تم دودھ پلانے والی کو ایک غلام دے دو، یا ایک لونڈی تو تم نے اس کا حق ادا کر دیا،
۴- ابوالطفیل رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک عورت آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر بچھا دی، یہاں تک کہ وہ اس پر بیٹھ گئی، جب وہ چلی گئی تو کہا گیا: یہی وہ عورت تھی جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 12 (2064)، سنن النسائی/النکاح 56 (3331)، (تحفة الأشراف: 3295)، مسند احمد (3/450)، سنن الدارمی/النکاح 50 (2300) (ضعیف) (اس کے راوی ”حجاج بن حجاح تابعی ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (351) // عندنا برقم (445 / 2064)، ضعيف سنن النسائي (213 / 3329)، المشكاة (3174) //
حدیث نمبر: 2053
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا النضر بن شميل، حدثنا عباد بن منصور، قال: سمعت عكرمة، يقول: كان لابن عباس غلمة ثلاثة حجامون، فكان اثنان منهم يغلان عليه وعلى اهله، وواحد يحجمه ويحجم اهله، قال: وقال ابن عباس: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " نعم العبد الحجام، يذهب الدم ويخف الصلب، ويجلو عن البصر ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال: وقال: " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين عرج به ما مر على ملإ من الملائكة إلا قالوا: عليك بالحجامة ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال: " إن خير ما تحتجمون فيه: يوم سبع عشرة، ويوم تسع عشرة، ويوم إحدى وعشرين ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال: " إن خير ما تداويتم به: السعوط، واللدود، والحجامة، والمشي ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لده العباس واصحابه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لدني؟ فكلهم امسكوا، فقال: لا يبقى احد ممن في البيت إلا لد غير عمه العباس، قال عبد: قال: النضر اللدود الوجور، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث عباد بن منصور، وفي الباب عن عائشة.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَال: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: كَانَ لِابْنِ عَبَّاسٍ غِلْمَةٌ ثَلَاثَةٌ حَجَّامُونَ، فَكَانَ اثْنَانِ مِنْهُمْ يُغِلَّانِ عَلَيْهِ وَعَلَى أَهْلِهِ، وَوَاحِدٌ يَحْجُمُهُ وَيَحْجُمُ أَهْلَهُ، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نِعْمَ الْعَبْدُ الْحَجَّامُ، يُذْهِبُ الدَّمَ وَيُخِفُّ الصُّلْبَ، وَيَجْلُو عَنِ الْبَصَرِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ: وَقَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُرِجَ بِهِ مَا مَرَّ عَلَى مَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا: عَلَيْكَ بِالْحِجَامَةِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ: " إِنَّ خَيْرَ مَا تَحْتَجِمُونَ فِيهِ: يَوْمَ سَبْعَ عَشْرَةَ، وَيَوْمَ تِسْعَ عَشْرَةَ، وَيَوْمَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ: " إِنَّ خَيْرَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ: السَّعُوطُ، وَاللَّدُودُ، وَالْحِجَامَةُ، وَالْمَشِيُّ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَدَّهُ الْعَبَّاسُ وَأَصْحَابُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَدَّنِي؟ فَكُلُّهُمْ أَمْسَكُوا، فَقَالَ: لَا يَبْقَى أَحَدٌ مِمَّنْ فِي الْبَيْتِ إِلَّا لُدَّ غَيْرَ عَمِّهِ الْعَبَّاسِ، قَالَ عَبْدٌ: قَالَ: النَّضْرُ اللَّدُودُ الْوَجُورُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ.
عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس پچھنا لگانے والے تین غلام تھے، ان میں سے دو ابن عباس اور ان کے اہل و عیال کے لیے غلہ حاصل کرتے تھے اور ایک غلام ان کو اور ان کے اہل و عیال کو پچھنا لگاتا تھا، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچھنا لگانے والا غلام کیا ہی اچھا ہے، وہ (فاسد) خون کو دور کرتا ہے، پیٹھ کو ہلکا کرتا ہے، اور آنکھ کو صاف کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے یہ ضرور کہا کہ تم پچھنا ضرور لگواؤ، آپ نے فرمایا: تمہارے پچھنا لگوانے کا سب سے بہتر دن مہینہ کی سترہویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: سب سے بہتر علاج جسے تم اپناؤ وہ ناک میں ڈالنے کی دوا، منہ کے ایک طرف سے ڈالی جانے والی دوا، پچھنا اور دست آور دوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں عباس اور صحابہ کرام نے دوا ڈالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: میرے منہ میں کس نے دوا ڈالی ہے؟ تمام لوگ خاموش رہے تو آپ نے فرمایا: گھر میں جو بھی ہو اس کے منہ میں دوا ڈالی جائے، سوائے آپ کے چچا عباس کے۔ راوی عبد کہتے ہیں: نضر نے کہا: «لدود» سے مراد «وجور» ہے (حلق میں ڈالنے کی ایک دوا) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد منصور ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 20 (3478) (تحفة الأشراف: 6138) (ضعیف) (سند میں عباد بن منصور مدلس اور مختلط راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: (كان لابن عباس..) ضعيف الإسناد، (نعم العبد..) ضعيف، (إن خير ما تحتجمون..) **، (إن خير ما تداويتم..) ضعيف، (لا يبقى ممن ...) صحيح - دون قوله " لده العباس " بل هو منكر لمخالفته لقوله صلى الله عليه وسلم في حديث عائشة نحوه بلفظ " غير (نعم العبد....)، ابن ماجة (3478) // ضعيف سنن ابن ماجة (762)، ضعيف الجامع الصغير (5966) //، (إن خير ما تداويتم.....) مضى (2048)

قال الشيخ زبير على زئي: (2053) إسناده ضعيف / جه 3478
عباد بن منصور: ضعيف (تقدم: 662)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.